پولیس کو کورونا وائرس کا روٹ کیسے معلوم ہوا؟


گزشتہ روز آفس سے واپسی پر ایک ضروری کام سے ماڈل ٹاؤن جانے کا ارادہ ہوا۔ دفتر سے ڈیوٹی پوری کرکے نکلی، پارکنگ سے گاڑی نکالی، گاڑی سٹارٹ ہوتے ہی نظر سپیڈو میٹر پر پڑی، دیکھتے ہی احساس ہوا کہ فیول ڈلوانا پڑے گا لیکن اندازے کے مطابق اتنا فیول تھا کہ آفس سے ماڈل ٹاؤن اور ماڈل ٹاؤن سے گھر جایا جاسکتا تھا۔ اسی خیال کے ساتھ گاڑی سڑک پر آچکی تھی اور ماڈل ٹاؤن کا سفر شروع ہوچکا تھا۔ شام کے تقریباً ساڑھے پانچ بج رہے تھے، ٹریفک کا دباؤ زیادہ تھا۔

آہستہ آہستہ پیکو روڈ سے چلتے ہوئے ماڈل ٹاؤن موڑ آ گیا، سگنل کی بتی ہری تھی دیکھ کر خوشی ہوئی کہ جلدی پہنچ جاؤں گی، آگے بڑھتے ہی دیکھا کہ ماڈل ٹاؤن لنک روڈ پر گاڑیاں رانگ وے پر واپس آ رہی ہیں۔ نظر دوڑائی تو معلوم ہوا کہ پولیس نے رکاوٹیں لگا کر راستہ بند کر دیاہے۔ سامنے سے رانگ وے آنے والی گاڑی کو راستہ دیا اور گاڑی سائیڈ پر کر لی، پولیس والے کھڑے تھے ان کے قریب گاڑی کرکے پوچھا کہ آپ نے راستہ بند کر دیاہے

اس راستے کو استعمال کرنے والے اب کیسے جائیں گے؟ پولیس والے نے ہاتھ کے اشارے کے ساتھ بتایا کہ رانگ وے نکل جائیں سب جا رہے ہیں۔ ہاتھ کے اشارے کا میری نظروں نے تعاقب کیا تو سڑک پر ٹریفک وارڈن بھی موجود تھے میں نے وارڈن کی طرف دیکھتے ہوئے کہا اس سڑک سے جاؤں؟ پولیس والا بھی میری پریشانی سمجھتے ہوئے مزید کلیئر کرتے ہوئے بولا کہ ہاں چلی جائیں وارڈن کچھ نہیں کہیں گے۔ اس کے بعد گاڑی موڑی اور رانگ وے چلنے لگی۔

ٹریفک سست رفتاری کے ساتھ چل رہی تھی، تھوڑا آگے پہنچی تو میٹرو کے سامنے سے بینک سکوائر جانے والی سڑک کو بلاک کیا ہوا تھا، دیکھا کہ یہاں سے بھی رانگ وے جانا پڑے گا، ایک بار پھر گاڑی موڑی اور گورمے بیکری کے پاس سے یو ٹرن لیا اور رانگ وے جانے لگی لیکن یہاں ٹریفک بلاک ہوچکی تھی موٹرسائیکل اور رکشہ والوں نے ایک لین سے رانگ وے جانے والی گاڑیوں کو اوور ٹیک کیا اور آگے بڑھنے کی جستجو میں ٹریفک جام کردی۔ اب گاڑی رک چکی تھی سب ہی جانے کے لئے پریشان تھے۔

ایسا لگ رہا تھا جیسے پورے لاہور شہر کی موٹرسائیکلیں اور رکشے یہاں جمع ہیں۔ اتنا رش لگ گیا کہ موٹرسائیکل والے کھڑی گاڑیوں سے ٹکرا رہے تھے اور لوگ گاڑیوں سے نکل کر ایک دوسرے کے دست و گریباں ہو رہے تھے۔ پولیس والے جو بظاہر کورونا کا راستہ روکے کھڑے تھے لڑتے جھگڑتے عوام کی مشکل آسان کرنے کی بجائے آگے بڑھے اور میٹرو کے بالکل ساتھ پٹرول پمپ کے سامنے بھی رکاوٹیں لگادیں اور اشارہ کیا کہ سب واپس چلے جائیں، ایک بار پھر گاڑی موڑی اور نکلنے کا انتظار کرنے لگی، منزل کے قریب پہنچ کر انہی دشوار گزار راستوں سے واپسی کا سفر کسی بڑے پہاڑ کو سر کرنے سے کم نیں لگ رہا تھا۔

مایوسی کی حالت میں ایک بار پھر سڑک کا جائزہ لیا تو میٹرو کے پیچھے والی روڈ پر کچھ پولیس والے کھڑے دیکھے سوچا کہ یہاں سے کوئی راستہ نکلتا ہوگا ایک بار پھر پولیس والوں سے پوچھنے کے لئے گاڑی ان کے قریب کی انہوں نے بھی مشورہ دیا کہ بینک سکوائر تک پہنچنا بہت مشکل ہے آپ واپس چلی جائیں۔ پھر سوچا کہ واپس جانا ہی مناسب ہے اسی دوران ذہن میں سوال آیا جو پولیس والے سے کر دیا کہ بھائی یہ تو بتائیں کہ آپ لوگوں کو کیسے معلوم کہ کورونا وائرس اسی سڑک سے گزرے گا؟

پولیس والا جو ٹریفک جام کی وجہ سے پریشان تھا اس کے چہرے پر مسکراہٹ آئی اور کہا یہ بات تو ہم بھی سوچتے ہیں۔ ساتھ ہی موجود دوسرا پولیس والا ہنستے ہوئے بولا کہ میڈم جی راستے بند کرنے سے کچھ نہیں ہوگا یہ تو اوپر سے آرڈر ہے تو راستے بند کر دیے ہیں۔ عوام کو بھی پتا لگنا چاہیے نا کہ کورونا ختم کرنے کے لیے پولیس بھی پیش پیش ہے۔ پولیس والے نے سوالیہ انداز میں بات ختم کرتے ہوئے کہا کہ شاید یہی وجہ ہوگی ورنہ ایک سڑک بند کرکے دوسری پر رش لگادینا کہاں کی عقل مندی ہے؟ کیا اس رش سے کورونا نہیں پھیلے گا؟ پہلے پولیس والے نے کہا کہ میری سوچ کے مطابق اگر کورونا ختم کرنا ہے تو مکمل لاک ڈاؤن کردیں اس سے شاید کوئی فائدہ ہو ورنہ یہ جو کر رہے ہیں اس سے کیا ہوگا سب جانتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments