مثالی پولیس کی مثالی سزا۔ الامان و الحفیظ


ہم راؤ انوار کے مظالم کارونا رو رہے تھے لیکن عامر تہکالی نامی نوجوان لڑکے کی عزت نفس کا جنازہ نکال کر پشاور پولیس نے راوانوار کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔ راؤ انوار نے کراچی میں جعلی پولیس مقابلوں کے دوران نقیب اللہ محسود سمیت سینکڑوں بے گناہ لوگوں کو بے دردی سے قتل کرکے یہ پیغام دیا تھا کہ پولیس کہیں بھی اورکسی وقت بھی ایک بے گناہ انسان کو جان سے مار سکتی ہیں۔ تاہم پچھلے دنوں پشاور میں عامر تہکالی کی عزت پر حملہ کرکے مملکت خداداد کی پولیس نے یہ ثابت کر دیا کہ اس وردی میں ملبوس اہلکار بے گناہ انسان کی جان لینے کے ساتھ ساتھ ڈنکے کی چوٹ پر ان کی عزت کاجنازہ بھی نکال سکتاہے۔

پشاور پولیس کے ہتھے چڑھنے والانوجوان عامر تہکالی کون تھا؟ اس سوال کا سب سے عمدہ جواب یہ ہے کہ عامرایک انسان تھا اور ان کی جان، عزت اور مال پر ناجائز طور پر حملہ کرنے کا حق کسی کو حاصل نہیں تھا۔ اس بے چارے کاسب سے بڑا جرم یہ تھا کہ دوستوں کی محفل میں نشے کی حالت میں اس نے پولیس کے حق میں چند تلخ کلمات استعمال کیے تھے جس کی ان کے ساتھیوں نے ویڈیو بھی بنائی تھی۔ یہ ویڈیو جب سوشل میڈیا پرچلی تو بپھرے ہوئے درجنوں پولیس اہلکاروں نے عامر کو اپنے گھرسے رشتہ داروں سمیت گرفتار کرکے تھانے پہنچا یا۔

بے شک عامر کی اس بداخلاقی سے نازک مزاج پولیس کو صدمہ پہنچاہوگا لیکن بدلے میں ان ظالموں نے تمام تر انسانی، اسلامی، اخلاقی اور آئینی حدود کو توڑتے ہوئے عامرپربدترین تشددکیا بلکہ انہیں برہنہ کرکے اپنے اس شرمناک عمل کی ویڈیو کو سوشل میڈیا کی زینت بھی بنا دیا۔ مظلوم اور بے بس عامر باربار اس نام نہاد مثالی پولیس اہلکاروں سے معافی مانگتاہے اور ان سے درخواست کرتاہے کہ ”انہیں گولی ماردو لیکن ان عزت کا جنازہ نہ نکالو“ لیکن یہ ظالم پھر بھی اپنے اس شرمناک عمل سے باز نہیں آئے۔

عامر تہکالی کو بے آبرو کرنے کے جرم میں وہاں کی حکومت نے پولیس ایس ایچ او اور چند اہلکاروں کو نوکری سے معطل کرکے انہیں حولات میں تو بندکیاہے لیکن میرا نہیں خیال کہ حکومت اس ناقابل معافی جرم کے بدلے ان اہلکاروں کو عبرتناک سزا دے گی۔ بے شک یہ لوگ ہفتہ دوہفتے تک حوالات میں بند اور نوکریوں سے معطل رہیں گے تاہم بعد میں انہیں چور دروازے سے رہائی دلوائی جائے گی۔ زیادہ سے زیادہ مثالی حکومت مسئلے کو اتنی سنجیدہ لے گی کہ ایک انکوائری کمیشن تشکیل دے گی جس کانتیجہ آخر کار ماضی میں بننے والی بے مقصد انکوائری کمیشنوں جیسا نکلے گا۔

یاد رہے کہ سماج دشمن اور جرائم پیشہ عناصر ٹرینڈ شکل میں راتوں رات آسمان سے نازل نہیں ہوتے بلکہ یہ ہمارے معاشرتی رویوں اوربا الخصوص ریاستی بے انصافیوں اورپولیس گردی ہی کا بھیانک نتیجہ ہوتا ہے۔ پولیس گردی کی وجہ سے اس ملک کے لاتعداد نوجوان یا تو دہشتگرد تنظیموں کو جوائن کرکے اپنا انتقام لیتے ہیں یا پھر منشیات اور دوسری معاشرتی برائیوں کی لت میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ بی بی سی کے نامہ نگار رفعت اللہ اورکزئی نے پچھلے روز ضلع ہنگو کے ایک ایسے ہی نوجوان کادرد بھری کہانی لکھی تھی جو عامر تہکالی کی طرح پولیس کے ہتھے چڑھ کراپنی عزت سے محروم ہوچکا تھا۔

اورکزئی کے مطابق بارہ برس پہلے دہشت گردی کے عروج کے دور میں ہنگو کی پولیس نے نواحی علاقے بگٹوکے ایک تعلق رکھنے والے ایک اکیس سالہ لڑکے شاکر اللہ کو ایک معمولی جرم میں گرفتار کر لیا۔ تفتیش کے دوران ملزم سے شاید کچھ بے تمیزی ہوگئی تھی جس کی پاداش میں پولیس اہلکاروں نے ان کو جسمانی طور پر ٹارچر کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے کپڑے بھی پھاڑ دیے تھے۔ یہاں تک کہاجاتا ہے کہ شاکراللہ کو ننگا کرنے کے بعد وہاں کے کچھ بے شرم پولیس اہلکاروں نے ان سے بدفعلی بھی کی تھی۔

شاکراللہ کے قریبی رفقا کا کہنا ہے کہ حراست ہی کے دوران دل برداشتہ شاکر اللہ نے یہ ٹھان لی کہ رہا ہونے کے بعد ان کی زندگی کی اولین ترجیح یہ ہوگی کہ وہ کسی بھی طریقے سے پولیس اہلکاروں سے اپنی بے عزتی کا بدلہ لیں گے۔ شاکر اللہ جب کچھ عرصہ بعد رہا ہوئے تو آزاد ہوا تو اسی دن سے انہوں نے اپنے چند ساتھیوں کو ساتھ ملا کر ایک مسلح ونگ بنائی اور پھر تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) میں شمولیت اختیار کرلی۔ ٹی ٹی پی کوجوائن کرنے کے بعد شاکر اللہ اور ان کے ساتھیوں کا مقصد صرف اور صرف پولیس اہلکاروں کو نشانہ بنانا تھا اور طالبان جنگجو پولیس کے خلاف کارروائی کرنے کے لئے جہاں بھی جاتے تو شاکراللہ پولیس سے لڑنے کے لئے فرنٹ لائن پر جاتے تھے۔

کہاجاتا ہے کہ انتقام کی آگ میں جلتے شاکر اللہ گروپ نے اپنی بے عزتی کے بدلے میں درجنوں پولیس اہلکاروں کو جاں سے ماراڈالا۔ ”۔ ظالم اور مظلوم کے بارے میں اللہ کے رسول ﷺ نے ایک مرتبہ اپنے صحابہ سے فرمایاکہ“ اپنے بھائی کی مدد کرو خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم۔ ”، صحابہ پوچھنے لگے“ اے اللہ کے رسول ﷺ! ہم ظالم کی مدد کیسے کریں؟ آپ ﷺ نے جواب دیا کہ ظالم کو ظلم سے باز رکھو، یہی اس کی مدد ہے ”۔ اور اس بدنصیب ملک میں حال یہ ہے کہ ظالم کوظلم سے روکاجاتا ہے نہ ہی مظلوم کی داد رسی کی جاتی ہے۔ ظالم کو ظلم کرنے کے باوجود ہمیشہ برات ملتی ہے اور مظلوم محمدخان محسود (نقیب اللہ محسود کے والد) انصاف پانے کے بغیر اس دنیاسے رخصت ہو جاتے ہیں۔ اس ملک میں ظلم شہر بہ شہر اور کوچہ بہ کوچہ بچے جن رہا ہے عدل کو ابھی تک بانجھ رکھاگیاہے، بقول قاسمی صاحب،

ظلم بچے جن رہا ہے کوچہ وبازار میں
عدل کو بھی صاحب اولاد ہونا چاہیے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments