الٹ پلٹ


کبھی آپ نے سوچا کہ جیسا نظر آتا ہے ویسا کچھ نہ ہو تو کیا ہو؟ زیادہ کچھ نہیں آپ فقط روزمرہ اصطلاحات ہی ادل بدل کر دیکھیں کہ کیا تماشاہوتا ہے۔ یہ ہم خود سے نہیں کہہ رہے۔ استاد عطاء الحق قاسمی صاحب نے ایک کالم میں موشگافی کی تھی۔ ان کی تحریر میں دوکردار آپس میں بحث رہے تھے کہ

”تم مجھے بتاؤ کہ پنکھے کو پنکھا کیوں کہتے ہیں آلو بخارا یا تربوز کیوں نہیں کہتے؟“

”اس لیے کہ سب سے پہلے کسی شخص نے پنکھے کو پنکھا کہہ دیا تھا۔ اس لیے اسے آج تک پنکھا کہا جا رہا ہے۔ اگر کسی نے آلو بخارا کہہ دیا ہوتا تو ہم اسے آج آلو بخارا ہی کہہ رہے ہوتے!“

”میں آج سے پنکھے کو آلو بخارا کہوں گا یہ آلوبخارا چلاؤ مجھے گرمی لگ رہی ہے!“

گو ہمیں اچھا شاگردہونے کا دعویٰ نہیں ہے لیکن یہ بات ہم نے اچک لی اور سوچا کہ کیاہواگر بچہ پیدا ہو اور نرسوں کو تحفے میں دے دیا جائے؟ اور نرسوں کو ڈاکٹرکی ڈگری ملنے کے بعد انجینئر کہا جائے؟ بچے ہمسائیوں کے گھر پلیں اور گھر پارکوں میں ہوں۔ مکتب ٹھیلوں پرلگا کریں اور سکولوں میں اتوار بازار۔ تعلیم خلائی مخلوق کی ذمہ داری ہواور اخلاق باختگی خاندانی بزرگوں کی۔ کھیل کود چھتوں پر ہواور چھت برآمدوں میں۔ برآمدے بیٹھک کہلائیں اور بیٹھکیں تھڑے۔ کچن دربار ہوں اور مدارس یونیورسٹیاں۔ شطرنج میں گوٹیاں ہوں اور کرکٹ میں گھوڑے، ہاتھی۔ فٹ بال بلے سے کھیلا جائے اور جوا سٹیڈیم میں۔

ڈیروں میں ریوڑ پالے جائیں اور باڑوں میں تقریبات منعقد ہوں۔ ٹاپ فلور بیس منٹ کی جگہ ہوا ور سیڑھیوں کی بجائے کوہ پیمائی کے اوزار۔ عدالتوں میں سچ بولا جائے اور جج منشی کہلایا کریں۔ مکینک سیاست دان ہوں اور سیاست دان صوفی۔ مولوی ضلعی افسر ہو اور سپیکر ہینڈ فری۔ اینٹیں گارا کہلائیں اور گارا قوس قزح۔ رشتے دار ہمسائے ہوں اور ہم سائے بیرون ملک۔ بس کو ہوائی جہاز کہا جائے اور جنگی جہاز کو کھوتی ریڑھا۔ مزدور کو صدرصاحب کہا جائے اور صدر کو چیئرمین واپڈا۔ بچے سن رسیدہ ہوں اور بوڑھے شیر خوار۔ چارپائی کو تخت کہا جائے اور چوبارے کو چٹائی۔ لڑکپن میں پنشن ملا کرے اور عین جوانی میں طلاق۔

میاں بیوی بس شادی کریں اور اس کے بعد کبھی نہ ملیں۔ سرسوں کی روٹیاں بنائی جائیں اور گندم کا تیل سر میں ڈالاجائے۔ مرغیاں جنگل میں ہرن شکار کریں اور شیر کا گوشت بازاروں میں بکے۔ گدھے کے سینگ ہوا کریں اور انسان کی دم۔ دشمن کے ہاں دعوتیں اڑائی جائیں اور اپنوں کی فاتحہ بھی نہ پڑھی جائے۔ کلاس فیلوز کزن کہلائیں اور کزنز روم میٹس۔ فلم کو افسانہ کہا جائے اور ریڈیو کو پرنٹ میڈیا۔ امریکہ کا نام تائیوان ہو جائے اور چین کا کانگو۔ ملک ضلع کہلائے اور صوبہ براعظم۔ طوطے بانگیں دیں اور لومڑیاں ویلیں۔ شارک ڈولفن پالتوہوں اور کتے بلیاں فالتو۔ آگ فریج میں جلاکرے اور کرنسی ردی کی دکانوں میں بنے۔ ستون جوتوں کے ساتھ لگیں اور پاسپورٹ بیلوں پہ اگاکریں۔

نتائج چھٹیوں میں نکلیں اور پرچے چوراہوں پر ہوں۔ واش روم میں کمپیوٹر لگے ہوں اور مچھردانیوں میں پنکھے۔ سائنس دان راجپوت کہلائیں اور مغل سائیس۔ گھوڑوں کے پر ہوا کریں اور جہازوں کی دم۔ کشتیاں پٹڑی پر چلیں اور کاریں دیواروں پہ۔ لڑائی میں گلے ملا جائے اور ستارہ امتیاز کی جگہ پھانسی۔ جمہوریت فوجی حکومت ہواور رقص پولیس گردی۔ ملنگ شاپنگ سنٹرز میں ملیں اور سیلز گرلز صحراؤ ں میں۔ موسیقی کمزوری کا علاج ہواور ڈھول قومی برتن۔

لڑکے چوڑیاں پہنا کریں اور لڑکیاں کچھے۔ خاوند پانی ڈھویا کریں اور بیویاں اینٹیں۔ دوست بہنوئی کو کہا جائے اور چچا کو شہ بالا۔ جنگل میں ہاتھی ناچا کریں اور گھڑیال پہ چوہے۔ کتاب بریانی ہوا کرے اور رائتہ آکسفورڈ ڈکشنری۔ ڈائریاں چھپاکریں اور اخبار لیک۔ سوموار ہفتہ ہواور بدھ مایا کیلنڈر۔ پینٹ کوٹ بکنی کہلائے اور دھوتی تھری پیس۔ پیپل پہ آم لگیں اور کھجور پہ سٹیل کے برتن۔ بلب ہوادیا کریں اور اے سی طعنے۔ یادیں سپرد خاک کی جائیں اور مردے ٹی سی ایس۔ بھکاری لکھاری کہلائیں اور رشوت خور گھر داماد۔ چینی نمکین ہواور کسٹرڈ امپورٹڈ دوا۔ حکیم سموسے بیچاکریں اور پٹواری نسخے۔ وکیل اسٹیتھو سکوپ لٹکایا کریں اور جامن انگور۔ پنساری تعویز دیا کریں اور بلڈر دعائیں۔

سوچنے کو تو کیا کیا سوچا جاسکتا ہے۔ عطاء ’نورانی‘ صاحب سے اللہ پوچھے۔ ہمارا تو پھیپھڑا گھوم گیا ہے۔ اس سے پہلے کہ ’امراض دل‘ والے اٹھا لے جائیں۔ اجازت دیں ہم ذرا پٹرول پمپ تک جا کے فیملی دکان دار سے آنکھوں کا تعویز لے آئیں۔ تو ملتے ہیں اگلے ’لیکچر‘ میں۔ ’ہیل ہٹلر‘ ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments