فرنگی راج کی ایک کالونی جو آج تک پاکستان میں شامل نہیں ہو پائی


کرپشن کے خلاف طبل جنگ بجا کے آنے والے خان صاحب کو نہیں معلوم کہ کرپشن کم ہونے کی بجائے بڑھ گئی ہے۔ ماضی میں وہ جن موڈیز ایمنسٹی اور اس جیسے دیگر سرویز کے حوالے دیتے تھے آج وہ سب پٹواری ادارے ہو چکے ہیں۔ ان دو سالوں میں مدادی پیکجز بیرونی قرضے بالواسطہ اور بلا واسطہ ٹیکسز کی بھرمار مہنگائی کے عروج سے اس حکومت کے پاس اتنے پیسے آئے ہیں۔ کیا کوئی بتا سکتا ہے کہ کون سا میگا پروجیکٹ شروع ہوا کس ممبر اسمبلی کو ترقیاتی فنڈز دیے گئے۔ پھر آخر یہ پیسہ جا کہاں رہا ہے۔ کرپشن کے ریٹس دوگنا ہو گئے ہیں کہ راشی افسران دانت نکوستے ہوئے کہتے ہیں بھئی نیا پاکستان ہے تبدیلی آ چکی ہے۔

مظفرگڑھ کی تحصیل کوٹ ادو کے انصافی ایم پی اے کے متعلق کہا جا رہا ہے کہ صرف اک رجسٹری برانچ سے ان کے بیٹے کو اک لاکھ روپے ماہانہ رشوت بھیجی جاتی ہے۔ بلدیہ کوٹ ادو کی کروڑوں کی گرانٹس میں خردبرد کے الزامات الگ ہیں۔ اک کیس میں رکشہ مرمتی کی مد میں آدھا کروڑ روپے نکلوایا گیا جبکہ نئے رکشوں کی مالیت بھی پینتالیس لاکھ نہیں بنتی۔

مخصوص مواضع جات میں من پسند پٹواری حضرات کو لگا کر کلیکشن کی جاتی ہے۔ افواہ ہے کہ کوٹ ادو شہر کے موضع پرہاڑ شرقی کے اک پٹواری نے یہ کہہ کر چارج واپس کر دیا کہ اتنی آمدنی نہیں ہوتی جتنا ڈیرے پہ پہنچانی پڑتی ہے۔ اوپر سے سفارشی فون بھی آ جاتے ہیں اوپر کی کمائی ڈیرے چلی جاتی ہے۔

یہ تو صرف اک تحصیل لیول کے چھوٹے سے شہر کے ایم پی اے کا نامہ اعمال ہے بڑے شہروں میں کیا کچھ نہیں ہو رہا۔ پنجاب میں اپوزیشن کے ایم پی اے ایم این ایز دہائیاں دیتے پھر رہے ہیں کہ ان کو دودھ میں سے مکھی کی طرح نکال کر سائیڈ پہ پھینک دیا گیا ہے جیسے ان کا حلقہ پاکستان میں شامل ہی نہ ہو۔ پنڈی والے شیخ رشید نیشنل ٹی وی پہ بتا چکے ہیں کہ عثمان بزدار ان کی اک کال پہ نالہ لئی پکا کروانے کے فنڈز مختص کر دیتے ہیں یونیورسٹی کا منصوبہ منظور کر دیتے ہیں۔ معروف قومی روزنامے کے اک کالم نگار جن کی وجہ شہرت عثمان بزدار کے حق میں کالم لکھنا ہے ان کے شہر میں ڈی سی اور ڈی پی او تک کالم نگار کے آگے سر تسلیم خم کیے رکھتے ہیں۔

خانیوال سے فیصل نیازی نامی ایم پی اے فارورڈ بلاک سے ہیں سی ایم صاحب نے انتظامیہ کو ڈائریکٹ آرڈرز کر رکھے ہیں کہ ان کا ہر جائز ناجائز کام منٹ سے پہلے ہونا چاہیے۔

دوسری طرف کوٹ ادو میں ڈاکٹر عمر فاروق بلوچ کی زیر قیادت طلبا انٹلیکچوئیل ادیب صحافی اور سول سوسائٹی عرصہ دراز سے یونیورسٹی کے مطالبے کے لیے کوشاں ہے۔ مگر سی ایم صاحب اعلان کرنے کے باوجود مکر چکے ہیں۔ ہر ضلع میں یونیورسٹی یا سب کیمپس موجود ہے سوائے ضلع مظفرگڑھ کے۔ لیہ میں خطاب کرتے ہوئے سی ایم سردار عثمان بزدار صاحب نے کوٹ ادو کو ضلع بنانے کا دیرینہ مطالبہ پورا کرنے اور کوٹ ادو میں یونیورسٹی کے قیام کا اعلان کیا مگر بجٹ میں کوئی فنڈز مختص نہیں کیے گئے۔

لے دے کر سی ایم اور پی ایم گزشتہ حکومت کے منصوبوں کی نئی تختیاں لگا کر دوبارہ افتتاح کر رہے ہیں۔

کینال کالونی کوٹ ادو شہر کی قدیم ترین کالونی ہے۔ انگریزوں نے جب نہری نظام بہتر کیا تو کوٹ ادو میں کچے مکانات پہ مشتمل اک کالونی بنائی۔ دیگر سرکاری کالونیوں کی طرح اریگیشن ملازمین سے تنخواہ میں کٹوتی کی جاتی تھی اور بدلے میں بجلی و پانی جیسی سہولیات میسر کی جاتی تھیں۔ سال میں اک آدھ بار کچے مکانات کی تھوڑی بہت مرمتی وغیرہ کرا دی جاتی تھی اور فنڈز مل جل کر کھا لیے جاتے تھے۔

محکمہ انہار کے ملازمین جن کا کام کھیتوں کھلیانوں کو پانی فراہم کرنا ہوتا ہے کی رہائشی کالونی میں سب سے پہلے پانی بند کر دیا گیا۔ پھر کالونی کی بجلی کاٹ دی گئی آخر میں پوری کالونی کو گرا ہوا ڈکلیئر کر دیا گیا کیونکہ افسران مرمتی کے لیے تو تھوڑا لگانے اور زیادہ کھانے کو تیار تھے مگر سیلاب کے بعد مخدوش مکانات کو نئے سرے سے تعمیر کرانا ان کو منظور نہیں تھا۔

کالونی کی چار دیواری نہ ہونے کے سبب دن رات یہاں ”جہاز“ لینڈ ہوتے رہتے ہیں۔ مکانات کی حالت زار دیکھ لیں تو ان ملازمین کی جرات کو سلام کریں گے کہ آثار قدیمہ کی مثال بنے مکانات میں بیوی بچوں سمیت رہائش پذیر ہیں۔ جو کسی بھی وقت منہدم ہو سکتے ہیں۔ ملازمین کا کہنا ہے کہ وہ یہاں سے اٹھ کر کہاں جائیں؟

کینال کالونی کے مکین دیگر شہریوں کی طرح ووٹ بھی کاسٹ کرتے ہیں۔ اپنا کونسلر منتخب کرتے ہیں اپنا ایم پی اے ایم این اے منتخب کرتے ہیں مگر بلدیہ ہو یا ممبران اسمبلی وہ یہاں کوئی بھی سرکاری کام کرانے کے مجاز نہیں۔ منتخب نمائندوں کا کہنا ہے کہ یہ سرکاری کالونی ہے لہذا یہاں محکمہ اریگیشن خود کام کرائے گا۔ محکمہ کہتا ہے کہ ان کے پاس نہ تو اتنے فنڈز ہیں نہ ہی اتنے وسائیل اور اختیارات کے وہ کالونی کی تعمیر کرا سکیں۔ کالونی کو بجلی و پانی جیسی سہولیات مہیا کر سکیں۔

انگریز دور کی اس یادگار کالونی کے چند سو فٹ کے فاصلے پہ سوئی فیس کی سپلائی جا رہی ہے۔ مگر شہر کی قدیم ترین رہائشی آبادی اس سے محروم ہے۔ کالونی کے احاطے میں سے بجلی کے کھمبوں کزی قطاریں گزر رہی ہیں مگر مکین بجلی کاٹے جانے کے بعد دکانوں کے نام سے کمرشل میٹرز لگوا کر گھروں کو روشن رکھے ہوئے ہیں۔ کالونی کے دو طرفہ گزرنے والی نہریں جب کچی تھیں تو پانی آ جاتا تھا مگر جب نہر پختہ کی گئی تو کالونی کا موگہ ہی بند کر دیا گیا۔ کسی زمانے میں سرسبز و شاداب کالونی آج ویران و بنجر دھول اڑاتے بائبان کا منظر پیش کرتی ہے۔

مکین کہتے ہیں کہ یا تو ان کو شودر ڈکلیئر کر کے ووٹ کا حق بھی چھین کیا جائے یا پھر اس طرف نظر کرم کی جائے۔ ممبران اسمبلی کریں یا محکمہ انہار کے افسران لیکن ان کو بجلی گیس پانی و رہائش جیسی بنیادی ضروریات فراہم کی جائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments