خدارا اپنی قابلیت کو ثانوی مسائل پر صرف کرنے کی بجائے اصل امور پر لکھیں


(رخشان میر)

\"rukhshan-mir\"

کل کے ڈان اخبار میں ایک خبر پڑھی، اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتنیاہو نے اذان کی آواز پر پابندی لگانے کے بل پاس ہونے کی حمایت کر دی ہے۔ ہم اخباروں میں لغویات پر تو بہت چیختے ہیں پر کام کی بات کرنے، پڑھنے اور سننے میں کم ہی آتی ہے۔ قلم کتاب سے واقفیت رکھنے والے بہت سے دوست بھی ثانوی حیثیت کے بحث و مباحثے میں مصروف ہیں۔ شاید ان کے لئے ایسے موضوعات پر کالم نویسی کرنا ثانوی نا ہو پر میرے لئے ضرور ہے۔

میرے اس کالم کا مقصد قطعاً لفظوں کی دکان چمکا کر اپنا کالم بیچنا نہیں بلکہ آپ کی توجہ بہت اہم اور نازک مسئلے کی جانب مرکوز کرنا ہے۔

بیت المقدس مذہبی حوالے سے جتنی اہمیت یہودیوں کے لئے رکھتا ہے اتنا ہی اہم یہ مقام مسلمانوں کے لئے بھی ہے۔ سنہ 1948 میں اقوام متحدہ کےتحت کیے گئے زمین کے وعدے یعنی زمین کا ٹکڑا پرومسڈ لینڈ حاصل کرنے کی غرض سے فلسطین میں آئے ہوئے صیہونیوں نے انسانیت کے ساتھ جو ظلم اور بربریت کی داستانیں رقم کیں وہ کسی نظر سے اوجھل نہیں۔

صرف اقوام متحدہ کی یکطرفہ کارروائی کی ہی بات کر لیں تو تنظیم نے جس کا کام وہاں کی کشیدگی کم کرنا تھا نے فلسطین کا مسئلہ پہلے تو اپنی چُپ سے بڑھنے دیا، اور جب یہودی تارکین وطن وہاں آکر بسے تو عربوں کی سرزمین کو غلط تقسیم کی بنیاد پر نصف سے بھی زیادہ یہودیوں کو بخش دیا۔ یہ باتیں تو ریکارڈ کا حصہ ہیں۔ اقوام متحدہ کی جانب سے تقسیم کے فارمولے میں یہودیوں کے پاس 55 فیصد رقبہ آیا اور عربی جو وہاں بہت پُرانے بسے ہوئے تھے ان کے حصے میں زمین کا 45 فیصد رقبہ آیا۔

بیت المقدس دنیا کے قدیم ترین شہروں میں سے ہے جس کی تاریخ آٹھ ہزار سال سے بھی زیادہ قدیم ہے۔ ان آٹھ ہزار سالوں میں اس شہر پر بانوے مرتبہ حملہ ہوا اور 44 مختلف قومیں قابض ہوئیں۔ مگر میرا نہیں خیال کے جدید ٹیکنالوجی اور انسان دشمن ہتھیاروں کے اس دور میں جو ظلم اور بربریت صیہونیوں نے بیت المقدس کو حاصل کرنے اور فلسطین پر قبضہ کر کے دی گریٹر اسرائیل تشکیل دینے کے لئے کی ہے کسی اور نے کی ہو۔

اسرائیل کی کل آبادی آٹھ ملین سے زائد ہے جس میں 74۔8 فیصد یہودی، بیس فیصد عرب اور 4۔ 4 فیصد اقلیتیں ہیں۔ یہ فگرز مسلمانوں کی باقاعدہ اور اعلانیہ نسل کشی کرنے کے بعد بنائے گئے ہیں۔ فلسطین میں صرف انسانی اموات کا ہی آپ جائزہ لینے کی کوشش کریں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ 29 ستمبر 2000 سے لے کر اب تک دو ہزار 146 فلسطینی بچوں کو شہید کیا جا چکا ہے، بچوں سے مراد وہ جو سترہ سال سے کم عمر نابالغ ہیں۔ نوے ہزار 439 امن پسند شہری شہید اور زخمیوں کا اندازہ لگایا جائے تو ان کی تعداد اکانوے ہزار سے زائد ہے۔ اس وقت بھی سات ہزار فلسطینی اسرائیل کی جیلوں میں ناکردہ گناہوں کی سزا کاٹ رہے ہیں۔ گھروں اور عمارتوں کا اندازہ لگایا جائے تو تقریباً اڑتالیس ہزار سے زائد گھر اور عمارتیں اسرائیلی حملوں کی زد میں آکر نیست و نابود ہوئے۔ ویسٹ بینک اور غزہ میں بیروزگاری کی شرح اپنی عروج پر ہے۔ جانی اورمالی نقصانات کی شرح دیکھ کر ان کے اصل درد تک تو نہیں پہنچا جا سکتا مگر آپ کو بتا کر آپ کی انسانیت کے جذبے کو ضرور جھنجھوڑا جا سکتا ہے۔

اس سب میں اسرائیل کو امریکا کی علانیہ پشت پناہی حاصل ہے۔ مالی سال 2016 کے دوران امریکا ہر روز اسرائیل کو دس اشاریہ دو ملین ڈالر کی امداد فراہم کرتا رہا ہے۔ آئے دن فلسطینی مسلمانوں کے گرد زندگی کا گھیرا تنگ کیا جا رہا ہے۔ اگر آپ صرف یو ٹیوب پر ہی فلسطین پر اسرائیلی جارحیت سے متعلق کسی غیر جانبدار ٹی۔ وی چینل کی ڈاکیومنٹری دیکھ لیں تو آپ ساری رات سو نہیں سکیں گے۔ یوٹیوب سے یاد آیا انٹرںیٹ کی اتنی بڑی دُنیا میں وکی پیڈیا پر اسرائیل کی لمبی چوڑی داستان تو دیکھنے میں آتی ہے لیکن اسی وکی پیڈیا پر فلسطین سرچ کر کے دیکھیں تو چند ایک معلومات کے بعد آرٹیکل ختم ہو جاتا ہے، کیا فلسطین کی معلومات مسلم یا غیر مسلم دُنیا میں کسی کو بھی درکار نہیں؟ کسی کو بھی یہ توفیق نہیں ہوئی کہ فلسطین کی معلومات اور وہاں ظلم کی داستانوں کو اکٹھا کرکے وکی پیڈیا پر ڈالے۔

دوسری جانب بہت سی قیاس آرائیاں کی جا رہی تھیں کہ ہیلری کلنٹن امریکا کی صدر منتخب ہو گئی تو وہ فلسطین کے حالات بہتر کرنے میں کردار ادا کریں گی اور اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتنیاہو کی پشت پناہی نہیں کریں گی، ان صاحبان کی خدمات میں عرض ہے کہ ہیلری ہی تو وہ سیکرٹری آف سٹیٹ تھی جس کی مکمل پشت پناہی میں 2014 میں غزہ پر حملہ کر کے ہزاروں فلسطینیوں کو شہید کیا گیا۔

بہت سے آزاد خیال قاری یہ بھی سمجھیں گے کہ میں مسلم امّت کا رونا رو رہا ہوں یا نیٹو کی طرز پر ایک مسلم فوج تشکیل دینے کی بات کر رہا ہوں، مگر ایسا نہیں، میں تو صرف انسانیت کا رونا رورہا ہوں۔ جس جس کو خدا نے قلم سے تبدیلی لانے کی طاقت دی ہے، خدارا وہ اپنی قابلیت کو ثانوی مسائل پر صرف کرنے کی بجائے اصل امور پر لکھیں، یقین مانئے بہت سے موضوعات آپ سے قلم زد ہونے کا انتظار کر رہے ہیں۔ کیا ایسا ممکن ہو سکتا ہے کہ ہمارے باشعور لکھاری اب اپنے قلم کا رخ دنیا میں بے یارو مددگار انسانوں کی خدمات کرنے میں صرف کرنے لگ جائیں؟

یقین مانئے بہت سے ’اہم‘ موضوعات آپ سے قلم بند ہونے کا انتظار کر رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments