دنیا سے خفا سکردو اور سکردو سے لاتعلق دنیا


\"ali

گرمیوں میں سدپارہ سے آتی ٹھنڈی اور وادی کی گرم ہواؤں سے بننے والی آندھی اور اس سے اٹھنے والے گرد و غبار میں اٹے رہنے کے بعد سکردو میں اب سنہری زردی چھائی ہوئی ہے جو سردیوں کی آمد کا ڈنکا بجا رہی ہے۔ دریائے سندھ کا مٹیالا پانی اب شفاف ہو گیا ہے پھرکچھ دنوں میں جم جائے گا۔

جو کھڑکیاں اور دروازے گرمیوں میں دوپہر کے بعد گرد وغبار کی وجہ سے بند ہوجایا کرتے تھےاب سردیوں میں نہ صرف مستقل بند ہوں گے بلکہ ان پر تہہ دار پلاسٹک کی چادر چڑھ جائے گی۔ پانی جم جائے گا تو بجلی غائب ہوجائے گی اور اس شہر پر اندھیروں کا راج ہوگا۔ بجلی چند نصیب والوں کو نصیب ہوگی جو پیدا ہی سرکاری کوارٹروں میں ہوتے ہیں اور ان ہی کوارٹروں میں اس کے آئندہ کے مکینوں کو بھی جنم دیتے ہیں۔ باقی عوام صرف بجلی دو کے مطالبے پر ہی گزارہ کرنے والی ہے۔

سخت سردیوں میں یہاں لکڑی سونے کے بھاؤ بکتی ہے۔ سب سے نایاب لکڑی شگر سے آنے والی خوبانی کے درختوں کی ہوتی ہے جو ساری ساری رات انگیٹھی مین جلتی رہتی ہے۔ شگر کے باغات کے پھلوں کا چرچا آج بھی سری نگر میں ہے جب یہاں سے براہ راست پھلوں کی تجارت ہوا کرتی تھی۔ یہ لکڑی بھی صرف سرکاری کوارٹروں میں جلتی ہے جہاں کے مکینوں کو روزانہ بیس سیر گیلی اور دس سیر سوکھی ہیزم سوختنی از خزانہ سرکار ملتی ہے۔ شکر ہے لکڑی کی مقدار مقرر ہوئی اگر رقم مقرر ہوتی تو جناب صاحب (تحصیلدار کا اعزازی نام ) کے گھوڑے کو ملنے والے ماہانہ وظیفے اور جیل کے قیدیوں کے روزانہ کے راشن کی طرح ہوا میں تحلیل ہو جاتی۔ جن کے باغات سے خوبانی کے درختوں کی لکڑی آتی ہے ان کے چولہوں میں پلاسٹک کے پھٹے پرانے جوتے اور استعمال شدہ موبل آئل جلتا ہے جو انسانی صحت اور فضائی آلودگی کے لئے مثل زہر ہے۔

\"شنگریلا\"

سکردو کی سائبیریائی سردی میں ہر شے جم جاتی ہے۔ آب رسانی کی نالیاں جم جاتی ہیں تو پانی بمشکل اتنا دستیاب ہوتا ہے کہ شرعی وضو ہو سکے وگرنہ تیمم کا عذر روا ہو جاتا ہے۔ جمی ہوئی گاڑی سٹارٹ کرنے کے لئے صبح جو تگ و دو کرنی پڑتی ہے وہ کبھی کبھار رایئگاں جاتی ہے اور بندہ پیدل ہو جاتا ہے۔

جو صاحب حیثیت ہیں وہ تو سردیوں میں بقول یہاں کے لوگوں کے نیچے چلے جاتے ہیں (نیچے یہاں کے لوگ پنڈی اسلام آباد اور کراچی وغیرہ کو کہتےہیں)۔ عام لوگوں نے بھی اپنا ایک اجتماعی بندوبست کیا ہوا ہے جس کے تحت بلتستان کے تقریباً ہر گاؤں کا راولپنڈی کے مختلف محلوں میں ایک ایک مشترکہ ملکیتی گھر بطور مسافر خانہ موجود ہے جہاں بیشتر گاؤں والے سردیاں گزارتے ہیں۔ ان مشترکہ گھروں میں طلبہ، بزرگ، بیماروں اور سیر سپاٹے پر آنے والے سب کے لئے انتہائی معمولی نرخوں پر رہائش فراہم کی جاتی ہے۔ ان لوگوں نے آپس میں چندہ کرکے یہ گھر خرید رکھے ہیں جن کا انتظام اجتماعی طور پر کیا جاتا ہےایسا باہم اتفاق بھی پاکستان کے کسی اور حصے میں ناپید ہے یا کم از کم میرے علم میں نہیں۔

\"دریائے

سکردو اور بلتستان سی پیک نام کے فیض عام سے تا حال دور ہیں ما سوائے ایک تاریخی برفانی راستے کے کھولنے کے ازسر نو جائزے کی سفارش کے جو سینٹ کی ایک کمیٹی نے دی ہے۔ معلوم نہیں کہ حزب اختلاف کی اکثریت والے سینٹ کی سفارشات کی تخت لاہور کی نگاہ میں حیثیت کیا ہوگی۔ پر ایک بات معلوم ضرور ہے کہ بلتستان اور یارقند کے مابین تجارتی اور ثقافتی رشتہ پاکستان اور چین کے ہمالیہ سے اونچی، سمندر سے گہری اور شہد سے میٹھی دوستی سے بہت پرانا ہے۔

سکردو کو پاکستان سے ملانے والی سڑک موت کا کنواں کہلاتی ہے۔ بعض کا تو کہنا یہ ہے کہ دنیا کے سب سے اونچے محاز جنگ میں جاری جنگ اور اس پورے علاقے میں دشمن کی گولی سے اتنے فوجی نہیں مرے جتنے اس سڑک پر حادثات میں لقمہ اجل ہوئے۔ اس سڑک کی کشادگی کا معاملہ مہدی شاہ کی پیپلز پارٹی کی سابقہ حکومت کے دور سے التوا در التوا کا شکار چلا آرہا ہے۔ اب شنید ہے کہ اصلی تے وڑے مالکان کی کمپنی ایف ڈبلیو او جس کو گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں بغیر ٹینڈر کے کام دے کر پالا جاتا ہے کو، اس روڈ کا ٹھیکہ بھی دیا گیا ہے ہماری کیا مجال کہ اس بارے میں کچھ کہہ سکیں بس دعا اور التجا ہی ہے کہ وہ گلگت شندور روڑ، چلاس بابوسر ناران روڑ کی طرح اس کو بیچوں بیچ یتیم اور لاوارث نہ چھوڑ دے۔

\"اپر

میں پچھلی بار یہاں ایک پن بجلی کے منصوبے کے مقامی آبادی پر سماجی اثرات کے جائزے اور منفی اثرات کے تدارک کی حکمت عملی کی تیاری کے سلسلے میں آیا تھا۔ اس منصوبے کے تحت خوبصورت وادی کچورا کے پانی سے شغر تھنگ کے مقام پر چھبیس میگا واٹ کی بجلی کو پیدا کرنا تھا۔ اس منصوبے کے لئے ایشیائی ترقیاتی بنک نے قرضہ فراہم کرنا تھا۔ لیکن بعد میں سننے میں آیا کہ یہ منصوبہ وزارت کشمیر اور گلگت بلتستان کی سرد مہری کا شکار ہوکر پیدا ہونے سے پہلے ہی انتقال کر گیا۔ اس منصوبے کے دیگر فوائد کے علاوہ یہاں بجلی کی تقسیم اور موصولات کی وصولی کا ایک نظام وضع کرکے بجلی کے ضیاع کو کم کرنا مقصود تھا۔ مگر حسرت ان غنچوں پر جو بن کھلے مرجھا گئے۔

اچھے وقتوں میں پاکستان اور ہندوستان کے درمیان اعتماد کی بحالی کے لئے عوامی سطح پر رابطوں پر زور دیا گیا تھا تاکہ بچھڑے خاندان دوبارہ مل سکیں اور ان ممالک کے آپس کے تنازعات کی وجہ سے کٹے رشتے بحال ہوں۔ ان مجوزہ بحال ہونے والے راستوں میں سے ایک سکردو کارگل کے درمیان رابطے کا بھی وعدہ تھا جو ایفا نہ ہوسکا۔ کنٹرول لائن کے اس پار سے ہجرت کرکے سکردو شہر آبسنے والے آج بھی اپنے گھروں کو واپسی کے لئے کسی معجزے کے منتظر ہیں۔

علی احمد جان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

علی احمد جان

علی احمد جان سماجی ترقی اور ماحولیات کے شعبے سے منسلک ہیں۔ گھومنے پھرنے کے شوقین ہیں، کو ہ نوردی سے بھی شغف ہے، لوگوں سے مل کر ہمیشہ خوش ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہر شخص ایک کتاب ہے۔ بلا سوچے لکھتے ہیں کیونکہ جو سوچتے ہیں, وہ لکھ نہیں سکتے۔

ali-ahmad-jan has 279 posts and counting.See all posts by ali-ahmad-jan

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments