کروونا واٸرس ، میڈیا اور ہم


جب سے دنیا میں کروونا کی وبا نمودار ہوئی ہے ہمیں اس سے بہت کچھ دیکھنے کو، سیکھنے کو ملا۔ اگر یہ کہیں کہ اس میں میڈیا کا کردار آگے ہے تو یہ حقیقت ہے۔ اب آتے ہیں کروونا وائرس ہے کیا اور اس کی علامات کیا ہیں؟

کرونا وائرس کی عام علامات میں نظام تنفس کے مسائل (کھانسی، سانس پھولنا، سانس لینے میں دشواری) ، نزلہ، نظام انہضام کے مسائل (الٹی، اسہال وغیرہ) اور کل بدنی علامات (جسے تھکاوٹ) شامل ہیں۔ شدید انفیکشن نمونیہ، سانس نہ آنے یہاں تک کہ موت کا سبب بن سکتا ہے۔ کورونا وائرس کی عمومی علامات بخار، تھکاوٹ اور خشک کھانسی ہیں۔

نظام انہضام میں ظاہر ہونے والی ابتدائی علامات میں ہلکی تھکاوٹ، متلی، قے، اسہال شامل ہیں۔ نظام قلبی میں ظاہر ہونے والی ابتدائی علامات میں دھڑکن تیز ہونا، سینے میں تکلیف ہونا۔ آنکھوں میں ظاہر ہونے والی ابتدائی علامات میں آنکھ کی جھلی کی سوزش۔ بازوؤں، ٹانگوں اور پیٹھ کے نچلے حصے میں ہلکا درد۔ کچھ مریضوں میں کوئی علامات ظاہر نہیں ہوتیں۔

متاثرہ مریض میں ہفتہ دس دن میں سانس کے مسائل ظاہر ہونا شروع ہو جاتے ہیں جو شدید متاثرہ مریض میں جلد بگڑ کر شدید سانس کی تکلیف کی بیماری، نظام انہضام میں تیزابیت، خون جمنے میں مسئلے کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔ اس کے علاوہ کچھ کیسس میں ٹائیفائڈ کا ٹیسٹ پازیٹیو آتا ہے جو کہ پاکستان کے صوبہ پنجاب میں ایسے کیسز سامنے آئے۔

کروونا وائرس کو کچھ لوگ حقیقت تو کچھ لوگ اس کو سازش قرار دیتے ہیں لیکن اگر ہم کہیں کہ اس میں میڈیا کا کردار ہے تو غلط نہ ہوگا کیوں؟ وہ اس لیے کہ اگر آپ کسی خبر کو اس طرح پیش کریں گے کہ لوگوں کا اعتبار اٹھ جائے تو یہ ایک حقیقت ہے اسی طرح سے اس کروونا کو ایک سازش قرار دینے والے بھی اس میڈیا سے اکتا چکے ہیں

میڈیا کا کردار مثبت تو رہا لیکن جس طرح مثبت ہونا چاہیے تھا ایسا بالکل نہیں رہا اور اس میں بڑا کردار ہماری حکومتوں کا بھی ہے کیوں کہ لوگ ایک کنفیوژن کا شکار ہوگئے کیوں کہ آئے روز لاک ڈاؤن پھر سمارٹ لاک ڈاؤن، ایس او پیز کے ذریعے ہفتہ میں تین دن بازار، دفاتر، کھلے رہیں گے یہ رہا حال ہماری میڈیا اور حکومتوں کا اس طرح سے عوام کی رائے اس طرح رہی اور لوگ اس کو سازش قرار دے رہے ہیں

اگر اس میں ہم اپنی بات کریں تو ہم بھی کسی سے پیچھے نہیں رہے کیوں کہ اگر میڈیا اپنے اپنے اعداد و شمار دے گا ہم بھی کنفیوز ہی رہیں گے کیوں کہ ایک ہیج پر نہ کروونا ہے اور نہ ہی ہماری میڈیا اور حکومت۔

پھر آتے ہیں لوگوں کی جانب تو بات کچھ اس طرح سے ہے کہ سوشل میڈیا پہ لوگ اپنی وال پر اس کا مذاق تو کچھ اس کے بارے اپنی اپنی رائے دے رہے ہیں پھر تو ہم اور بھی پریشانی کا شکار ہیں کیوں کہ اب بندہ کس پر اعتبار کرے اور کس کی بات پر اتفاق کرے۔

اس وقت ہم جو سیکھنا چاہیں تو سیکھ سکتے ہیں کیوں کہ آج کل آن لائن ہر ہر قسم کے کورس سیکھنے کو ملتے ہیں اور ہمارے نوجوان فری لانسنگ، یوٹیوب، ویب اور انٹرنیٹ پر کام کرکے ایک خودمختار روزگار کما سکتے ہیں کیوں کہ ہماری حکومت اب ان کو سرکاری جاب دینے سے رہی۔

تو اسی طرح سے کروونا وائرس کے بارے ہر کسی کا خیال ہے اور یہ ایک ابہام کی شکل اختیار کر گیا ہے لیکن ہمارے میڈیا کو اس پر منفی خبروں کی بجائے ایک مثبت کردار ادا کرنا چاہیے۔ بات چل نکلی تو ایک بات یہ کہ سوشل میڈیا ہر ایک مشہور ایپ ہے ٹک ٹاک کے نام سے اور اس پر جو لوگ مشہور ہیں ان کو ہمارے گورنر پنجاب چوھدری محمد سرور صاحب نے اپنے ہاؤس بلایا اور ان کو اس کروونا سے بچاؤ پر احتیاطی تدابیر کے بارے عوام کو بتانے پر کہا سوال یہ ہے اگر یہ کام ہمارا سٹریم میڈیا کرے تو ان نام نہاد ٹک ٹاکر کی کیا ضرورت جو کہ سارا دن کردار کشی کی ویڈیوز اپلوڈ کرتے ہیں جو کہ ہمارے معاشرے میں ایک شرم کا باعث ہیں۔

اگر ہماری حکومت، میڈیا اور ہم ایک پیج پر نہیں ہوں گے تو ایسی جو بھی بیماریاں، آفتیں، آتی رہیں گی ہم کبھی ایک نہیں ہوسکیں گے اور ہم اسی طرح بہت بڑے نقصانات کا سامنا کرتے رہیں گے جو کہ ہمارے ملک پاکستان کے لیے ایک نیک شگون نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments