بد انتظام، غیرسنجیدہ اور نااہل عمران حکومت


سہانے سپنے دکھا کر سال 2018 میں قائم ہونے والی حکومت اپنی نا اہلی، غیر سنجیدگی اور اہم معاملات سے نمٹنے میں پہ در پہ ناکامیوں کے باعث ایک ڈراونا خواب بن چکی ہے، ایک غیر مقبول اور ناقص حکومت جسے پالیسی سازوں کی ضد نے ملک اور عوام کے سر تھوپا، گزرے کم و بیش دو برسوں میں ملک کے عام شہری کی زندگی اجیرن بنا چکی ہے۔

کسی ٹھوس اور جامع حکمت عملی کی غیرموجودگی کا خلاء زبان و کلام سے پورا کرنے کی کوشش کرنے والی حکومت کو تقریباً دو برس گزر جانے کے باوجود یہ ادراک نہیں ہو پایا کہ لفاظی کارکردگی کا نعم البدل کبھی نہیں ہو سکتی۔

انا کے خول میں بند، زمینی حقائق سے دور، عملی اقدامات سے مبرا، لفظوں اور پروپیگنڈے کے کھلاڑی موجودہ حکمران خصوصاً وزیراعظم عمران خان نے قوم کو فریب دینے کے لیے ہر حربہ استعمال کیا اور وعدوں کے ڈھیر لگائے، لیکن، کوئی ایک وعدہ وفا نہ کر سکے۔

عام شہری ایک کروڑ نوکریوں، پچاس لاکھ گھر اور حکومت سنبھالتے ہی بدعنوان حکومتی مشینری کے خوفزدہ ہو کر ازخود تائب ہو جانے کے سہانے سپنے دیکھتا رہا، جبکہ ہر گزرتے دن کے ساتھ بیروزگاری اور بدعنوانی میں اضافے کا عفریت پھیلتا گیا اور چھت سے محروم خاندان کی تعداد بڑھتی چلی جا رہی ہے۔

ملک میں بائیس ارب روپے روزانہ کرپشن کی نذر ہونے کا واویلا اور کرپشن کے خلاف کوئی ٹھوس اور بنیادی حکمت عملی ترتیب دینے کے بجائے کرپشن کی اصطلاح کو عام شہری کی جذباتی بلیک میلنگ کے لیے استعمال کرتے رہے۔ احتساب کے نام پر ہونے والا ڈرامہ فلاپ ہو گیا اور الزامات کا ڈھیر الزام سے آگے نہ بڑھ سکا۔

بیشتر سیاسی مخالفین کو کسی پیشگی تحقیقات کے بغیر صرف الزام کو بنیاد بنا کر گرفتار کر لینا ایک معمول بن چکا ہے، سیاسی مخالفین پر الزامات کی غیرجانبدار تحقیقات اور ثبوت مہیا کیے بغیر مہینوں جیل کی دیواروں میں محبوس رکھنا عام ہے۔

وزیراعظم کی حکومتی انتظامات میں دلچسپی کے بجائے بیزاری اور اکتاہٹ قوم سے خطاب کے دوران یا میڈیا کو انٹرویو دیتے وقت صاف عیاں ہوتی ہے، سینئر ترین سیاسی رہنماؤں سے میٹنگ کا کوئی موقع ہو یا قومی اسمبلی کے اجلاس سے خطاب، بیزاری صاف طور پر نوٹ کی جا سکتی ہے، عمران خان کی بیزاری میں بداخلاقی اور غرور کا اندازہ اپوزیشن کے سینیئر رہنماؤں سے ویڈیو لنک پر اس خطاب سے لگایا جا سکتا ہے جس کے اختتام پر خود حکومتی درخواست پر اکٹھا کیے گئے رہنماؤں کو سنے بغیر مائیک چھوڑ کر چلے جانا، انتہائی توجہ سے سننے اور کووڈ۔ 19 کے بارے میں اپنی سفارشات پیش کرنے کے انتظار میں بیٹھے رہنماؤں کو انگشت بدنداں کر گیا، بظاہر عمران خان نے اپوزیشن رہنماؤں کو پیغام دیا کہ وہ خود سے کمتر لوگوں سے بات کرنا پسند نہیں کرتے۔

حکومتی بدانتظامی کا اندازہ اس بات سے باآسانی لگایا جاسکتا ہے کہ گندم اور کپاس برامد کرنے والا ملک زرمبادلہ میں خوفناک کمی کے باوجود ان اشیاء کی درامد پر مجبور ہو گیا، حکومت کے اہم ترین محکمے جنہیں قدرتی آفات میں ہر اول دستے کے طور پر عوام کی ڈھال بن جانا چاہیے تھا ٹڈی دل کی یلغار سے لے کر کووڈ۔ 19 کے وبائی حملے تک اپنی ذمہ داریوں سے خاطرخواہ طور پر نمٹنے میں ناکام رہے۔

صحت کے شعبے کی خستہ حالی کی جانب دھیان تو کجا انتہائی درجہ کی حکومتی بے حسی اس وقت نظر آئی جب این ڈی ایم اے نے وینٹی لیٹرز کی درامد میں انتہائی تکلیفدہ سستی کا مظاہرہ کیا، نتیجتاً ، اس دوران عالمی مارکٹ میں وینٹی لیٹرز کی مانگ میں اضافہ ہوجانے کی وجہ سے اشد ضروری وینٹی لیٹرز کا حصول مشکل ہو گیا۔ چار ماہ کا طویل عرصہ گزر جانے کے باوجود حکومت اور اس کے متعلقہ محکمے مطلوبہ تعداد میں وینٹی لیٹرز کے حصول میں اب تک کامیاب نہیں ہو پائے ہیں۔ نامساعد معاشی حالات اور قدرتی آفات کے حملوں سے نبردآزمائی کے دوران این ڈی ایم اے کی مجموعی کارکردگی پر ملک کی اعلی ’ترین عدالت کے تحفظات حکومت کی بدترین کارکردگی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔

ہر گزرتے دن کے ساتھ بگڑتی اس وبائی صورتحال سے متاثرہ عوام کے زخموں پر مزید نمک پاشی کے لیے وزیراعظم کے روز بدلتے بیانات ہیں جو وبا سے پہنچنے والی تکلیف میں مزید اضافے کا باعث ہیں۔ عوام کی تکلیف اور پریشانیوں میں کمی لانے کے لیے صوبہ سندھ کی لاک ڈاؤن سے متعلق سنجیدہ کوششوں میں مدد فراہم کرنے کے بجائے باقاعدہ سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کا ہتھکنڈہ استعمال کر کے نہ صرف ایک بہترین حکمت عملی کو سبوتاژ کیا بلکہ سارے ملک کو پیغام دیا کہ عمران خان کی انا کے لیے مل جل کر کام کرنا ممکن نہیں۔

کووڈ۔ 19 کو ملک بھر میں پھیلنے سے روکنے میں ناکامی کے باوجود اور غریب شہریوں کی ہمت باندھنے کے بجائے

”کورونا تو بڑھے گا“
”عوام کو اپنی حفاظت خود کرنی ہے“
اور ”اب ایک بہت مشکل دور آنے والا ہے“
جیسے بیانات سے غریب شہری کو خوفزدہ کرنے کا اہتمام کرتے رہے۔

وزیراعظم حکومتی ٹیم کا لیڈر اور دماغ ہوتا ہے، ایک بہترین اور موثر ٹیم کی تشکیل وزیراعظم کا اہم ترین امتحان ہوتا ہے جس کی کامیاب تشکیل وزیراعظم کی اپنی کامیابی میں جھلکتی ہے، لیکن، عمران خان باوجود وزیروں کی فوج ظفر موج رکھنے کے نہ صرف اس ٹیم کو موثر بنانے میں ناکام رہے بلکہ ایسے ارکان حکومت جمع کیے جن کی دلچسپی اپنے وزارتی امور سے زیادہ عمران خان کی جگہ خود وزیراعظم بننے پر مرکوز ہے۔

وزیراعظم کا پارلیمنٹ جانے سے کترانا معمول ہے، اتفاقا ”پارلیمنٹ تشریف لے بھی آئیں تو ایک نیا اور بے سروپا شوشہ چھوڑنا سرشت کا حصہ ہے مثلاً ایف اے ٹی ایف کی بڑھتی گرفت کے دوران اسامہ بن لادن کو شہید قرار دینا ایک نئی مشکل کو دعوت دینا ہے۔

کرپشن کا راگ الاپتی بدانتظام حکومت کی ناک کے عین نیچے یکے بعد دیگرے آٹے، چینی، جان بچانے والی انتہائی ضروری ادویات اور پیٹرول کے بحران جنم لیتے رہے، ہر بحران میں ملوث تمام کردار وزیراعظم کے قریب ترین ساتھی نکلے جو ملک اور قوم کو اربوں روپے کا چونا لگاتے رہے، پیٹرول کے حالیہ بحران نے تو نا اہلی کے تمام ریکارڈ توڑ ڈالے، موٹر سائیکل میں 160 روپے لیٹر کا ہائی آکٹین ڈلواتے غریب شہری اس حکومت کے بدترین ہونے کا اعلان کرتے رہے، تیل مارکٹنگ کمپنیز کو نکیل ڈالنے کا عزم ظاہر کرتے کرتے جس طرح ان کمپنیوں کے آگے حکومت نے گھٹنے ٹیک کر پیٹرول قیمتوں میں ملکی تاریخ کا بلند ترین اضافہ کیا وہ بھی نا اہلی کا ہمیشہ یاد رکھا جانے والا فیصلہ ہے، اس معاملے کی سب سے حیران کن بات یہ ہے کہ مہینے کی آخری تاریخ کے بجائے قیمت میں اضافے کا اعلان ایک ہفتہ پہلے کر دیا گیا اور اس مقصد کے لیے خصوصی طور پر قائم اتھارٹی اوگرا سے اجازت لینا بھی مناسب نہ سمجھا، کچھ لوگوں کے مطابق وزیراعظم لاعلم تھے کہ یہ اجازت صرف اوگرا دے سکتی ہے، پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے میں جلد بازی سے بہت بڑے کرپشن کا تعفن پھوٹ رہا ہے۔

گزرے دو برسوں کے دوران بدترین حکومتی کارکردگی نے پاکستان تحریک انصاف کی جانب جھکاؤ رکھنے والے کرکٹ کے رسیا اور گمراہ کن نعروں کی رومانویت سے متاثر ہو جانے والے شہریوں کا بھی عمران خان حکومت پر اعتماد بری طرح مجروح کیا، عوام کے اس مختصر سے حلقے نے موجودہ حکومت سے جو امید باندھ رکھی تھی اسے معیشت کی تباہی، اہم ترین امور مملکت سے نمٹنے میں ناکامی، بڑھتی بیروزگاری، مہنگائی میں ہوشربا اضافے اور وزیراعظم کے انا میں ڈوبے بیانات نے مٹی میں ملا دیا۔ وزیراعظم کو خوش رکھنے کے لیے وزراء اور مشیروں کی فوج اس بات کی پابند نظر آتی ہے کہ عوام کے سامنے اپنی ہر بات کی ابتدا عمران خان اور اختتام بھی عمران خان پر کریں۔

حکومت مملکتی امور کو اس قدر بگاڑ چکی ہے کہ حالات میں بہتری صرف عمران خان کے استعفے سے ممکن نہیں رہی، حالات میں سدھار لانا کسی ان ہاؤس تبدیلی سے بھی ممکن نہیں، البتہ سال کے اختتام سے پہلے شفاف انتخابات کے نتیجے میں ایک مقبول حکومت وقت کی اہم ترین ضرورت ہیں تاکہ ڈراونے خواب کا اختتام ہو اور عام شہری سکون کا سانس لے سکے، اس سمت میں تیز رفتار اقدامات وقت کی اہم ترین ضرورت بن چکے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments