حقیقت موت و حیات


موت برحق ہے اس بات سے کوئی انکار نہیں کر سکتا یہ ایک اٹل حقیقت ہے۔ مگر موت ہے کیا؟ بعض کے نزدیک یہ ایک ناقابل حل معمہ ہے تو چند اس کا سراغ لگانے میں بھی لگے ہیں۔ بعض اسے انسانی حیات کا ایک پروسیس مانتے ہیں کہ یہ ایک واقعہ ہے جیسے جلد یا با دیر رونما ہونا ہی ہے۔ کون کیا سوچتا ہے کیا سمجھتا ہے موت کو اس سے کوئی سروکار نہیں۔ موت و حیات نظام کائنات میں خالق کائنات کا مقرر کیا ہوا ایک راہنما اصول ہے جو صرف اور صرف حکم ربؔی کے طابع ہے۔

موت کی ایک کیفیت تو یہ ہے کہ ایک جیتا جاگتا انسان ایک وقت مقررہ پر رشتہ اپنے ارد گرد کے ماحول سے منقطہ کر لیتا ہے یا پھر یوں کہئے کہ اس کا رشتہ اس کے موجود سے توڑ دیا جاتا ہے۔ موت سے پہلے زندگی اور اس زندگی سے پہلے بھی ایک زندگی ہے جسے یموت ہے اور اس کے بعد ایک زندگی ہے۔ گویا حیات اول سے وارد دنیا ہونے کا عمل درحقیقت حیات ثانی کی ابتدا ہے، یوں حیات ثانی جو حیات دنیاوی ہے کے بعد ایک زندگی ہے ان دو درمیان میں موت ہے۔

اس موت کے بعد حیات ثلثہ کی ابتدا۔ حیات ہی حیات مگر موت بھی اپنی جگہ اٹل۔ سوال اپنی جگہ موجود کہ موت کیا ہے۔ ایک بات تو طے ہوئی کہ حیات ہی کو موت ہے مگر جہاں حیات ہی کی تین تین جہتیں ہوں وہاں ایک موت ہی کیوں۔ اگر ہر حیات کو موت ہے تو پھر تین موتیں کیوں نہیں اگر ہیں تو ان کا تذکرہ کہیں نہیں ہے اور جو موت انسانی مشاہدے میں ہے اس کی کیاحیثیت ہے۔ موت کی حقیقت کو جاننے کے لئے حقیقت حیات کا معلوم ہونا جز و لازم ہے۔ ایسے میں کس حیات کو بیان کریں۔ وہ جو حیات دنیاوی سے پہلے کی ہے، یا حیات دنیاوی جہاں بظاہر موت کا مشاہدہ موجود ہے، یا حیات ثلثہ جو فی الواقع بعد المرگ حیات ہے۔ حیات اول وہ حیات جو عالم ارواح میں ہوئی۔ حیات ثانی جس کا ظہور عالم دنیا میں موجود اور حیات ثلاثہ بعد از مرگ حیات جو عالم برزخ میں ہوگی۔

حیات اول سے حیات ثانی کا سفر جزوی طور پر تو انسانی مشاہدے میں مکمل علم حیاتیات کی روشنی میں ہمارے سامنے موجود ہے۔ تمام حیاتیاتی انواع اپنے اپنے ڈی این اے کے مطابق اپنے جینومز اگلی نسلوں میں منتقل کرنے کے مسلسل عمل سے بندھے ہوئے ہیں انسانی حیات کے اس پہلو کی دینی توجیح ہمیں الہامی کتابوں سے مل جاتی ہے۔ یہاں یہ بات بہت ہی اہمیت کی حامل ہے کہ علم حیاتیات ہو یا دنیا کا کوئی بھی دوسرا علم اس کا منبع الہامی کتابوں اور صحیفوں ہی کو مانا جائے گا۔

لہذا یہ بات واضح ہوجانی چاہیے کہ علم کا منبع الہام ہی ہے۔ الہام کو اللہ تعالی نے نہایت منظم انداز میں اپنے برگزیدہ بندوں کے ذریعے انسانوں تک پہنچانے کا انتظام کیا ہے۔ الہامی علم سے حاصل کیے گے علم سے بنیادی علمی نکات کو لے کر بنی نوع انسان نے مختلف علوم میں تعلیم و ترقی کی بنیاد رکھی یہی علم ترقی کی ارتقائی منازل طے کرکے وقت موجود میں انسان کے ساتھ شانہ نشانہ کھڑا ہے۔

بات حیات ثانی جو حیات دنیاوی ہے میں آمد کے مراحل کی تھی۔ وہ واحد حیات انسانی جو سلسلہ ترسیل کے مطابق ہمارے مشاہدے میں موجود ہے جس کی قرآنی توجیح بھی جدید ایمبریالوجی کے مراحل کے عین مطابق سورہ المومنون کی ابتدائی آیات میں اور اس سے متصلاً قبل سورہ الحج ہے میں بڑی وضاحت اور صراحت کے ساتھ موجود ہے۔ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ ”ہم نے انسان کو مٹی کے خلاصہ سے پیدا کیا۔ پھر ہم نے اسے ایک نطفے کی شکل دی اور اسے ایک نہایت محفوظ مقام پر رکھا۔

جہاں! اس نطفے کو علقہ میں تبدیل کیا پھر اسے مغظہ کی شکل دے دی پھر ہم نے اس میں ہڈیاں پیدا کر دیں اور پھر ان ہڈیوں کو گوشت پہنا دیا“ یہاں نطفے سے مراد zygote ہے جو نطفتہ الرجل اور بیضتہ النساء کا ملاپ ہے اور جس جگہ ان کا ملاپ ہوتا ہے وہیں پر اس کی نشو و نما اور اس میں خلیاتی تقسیم سے تبدیلیاں بھی رونما ہوتی ہیں یہ مقام ”قرار مکین“ محفوظ مقام رحم مادر ہے۔ جہاں انسان کی اس دنیا میں آمد کے تمام مراحل طے ہوتے ہیں اور انسان حیات عالم ارواح سے حیات دنیا میں وارد ہوتا ہے۔

ایک اہم عمل جو حیات عالم ارواح سے حیات دنیا میں وارد ہوتے وقت اس کا اپنے ساتھ حیات عالم الرواح کا ایک کنکشن بھی جوڑے ہوئے ہے جیسے انہیں آیات کے آخری حصے میں ان الفاظ کے ساتھ بیان کیا ہے ”ثم انشاناہ خلقاً آخر“ ترجمہ اور پھر ہم نے اسے تخلیق کیا (اٹھایا) اس کی آخری تخلیق پر ”جو بذات خود اس بات پر دلالت ہے کہ تخلیق اول و آخر کا تذکرہ حیات کی ایک سے زیادہ جہتوں کا ثبوت ہے۔ یہی موضوع ہمیں صحیح احادیث میں بھی مل جاتا با الخصوص عبداللہ ابن مسعود کی روایت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث جس کا موضوع دراصل تقدیر ہے مگر اس میں یہ تمام مراحل بھی بیان ہوئے ہیں اور خاص طور پر“ ثم انشاناہ خلقاً آخر ”سے متعلق بیان اس مضمون کی مزید وضاحت بھی کر دیتاھے۔

“ ثم یرسل الیہ آل ملک فینفخ فیہ الروح ”ترجمہ ہے کہ پھر اللہ تعالی فرشتے کو بھیجتے ہیں اور جو اس میں روح پھونک دیتا ہے۔ یعنی روح کو جسم میں داخل کر دیا جاتا ہے روح جیسے اللہ تعالی نے اپنی طرف منصوب کیا ہے روح فی الحقیقت اللہ کا ایک پرتو جو انسان میں موجود ہے۔ روح حیات اول (عالم الرواح ) سے عالم دنیا میں حیات ثانی کا روپ لے کر انسان کے جسمانی وجود میں موجود کر دی جاتی ہے۔ حیات ثانی یا حیات عالم دنیا میں انسان مرکب وجود کا حامل ہے ایک اس کا جسمانی وجود ہے اور ایک اس کا روحانی وجود ہے۔

روحانی وجود اپنا تعلق اپنے اصل مقام سے مسلسل جوڑے رکھنے کا ضامن ہے اس کو سمجھنے کے لئے مثال کی حد تک یوں جان لیجیے کہ ایک چپ (chip) جسم میں ڈال دی گئی ہے اور اس چپ (chip) کا رابطہ عالم عدم سے ہر پل جڑا رہتاہے۔ اجل وہ وقفہ جو اس رابطے کی چپ میں فیڈ ہے ایک مقررہ وقت کے ساتھ ہی روح اپنی منزل دنیا مکمل کر کے جسم سے الگ ہو جاتی ہے اور انسان حیات ثانی یا عالم دینا سے کوچ کرکے حیات ثالث یا عالم برزخ میں منتقل ہو جاتا ہے۔

حیات کے تینوں مراحل میں حیات ثانی یا حیات عالم دنیا واحد حیات ہے جہاں انسان کو جسم مادی عطا کیا جاتا ہے جسم کا تعلق مادیت ہے یہاں انسان میٹریل وجود بھی اپناتا ہے کیونکہ عالم دنیا کے سارے محاصر مادے ہی سے جڑے ہیں ہماری دنیا جو لامتناہی کہکشاؤں میں سے ایک کہکشاں ”ملکی وے“ کے بیشمار شمسی نظاموں میں سے ایک نظام شمسی کا ایک سیارہ ہے جسے خداوند لایزال نے انسان کی عالم دنیا میں حیات کے لئے چنا ہے یہاں سب نظام مادہ اور توانائی کی بنیاد پر قائم کیا گیا ہے اس نظام حیات میں انسان کو ایک تحریک کے باعث روانہ کیا گیا اسے یہاں رہنے سہنے کے آداب بھی بتائے گے۔

انسان کو عالم دنیا میں کیوں بھیجا گیا یہ الگ سے ایک بڑا موضوع ہے۔ لہذاسرے دست اسی بات پر اکتفا کیا جائے کہ انسان کو اس حیات عالم دنیا دے کر اس کی اپنے اصل سے وابستگی کو آزمایا گیا ہے۔ مادی عالم میں انسان کی آمد کے لئے اسے مادی وجود درکار تھا لہذا اس کا مکمل بندوبست اس کی انتہائی صورت میں دنیا میں موجود دیگر مخلوقات کی ہیت کے مطابق متعین مادی قوانین کے تحت کر دیا ہے۔ چونکہ انسان بنیادی طور پر تو اس عالم دنیا کا باشندہ نہیں تھا لہذا اسے مرکب وجود عطا کیا گیا تاکہ وہ عالم دنیا میں دیگر مخلوقات کی طرح اپنا آزمائشی دور کامیابی کے ساتھ مکمل کرسکے۔

انسان کا رشتہ اپنے اصل کے ساتھ قائم رہے وہ دیگر انسانوں سے کردار و گفتار، معاملات، ایک دوسرے سے تعلقات، حقوق و فرائض۔ حقوق اللہ و حقوق العباد سے متعلق متعین راہنما اصولوں کی پاسداری کرتے ہوئے اپنا سفر دنیا طے کرے تاکہ اس کا یہ آزمائشی وقت عین اللہ تعالی کے متعین کردا راہنما اصولوں کے مطابق رہے۔ اسی بنیاد پر سزا و جزا کا نظام بھی اسی کے ساتھ جوڑ دیا گیا ہے تاکہ انسان عالم دنیا میں اپنی زندگی محتاط انداز میں گزارے۔

اپنی کسی کوتاہی یا کمی کا احساس اگر انسان کو اس قیام دنیا کے دوران ہو جائے تو اس کے لئے معافی توبہ اور استغفار کا در کھول دیا گیا ہے کہ انسان ندامت کا راستہ اختیار کر سکے اور وہ ایک کوتاہی جو آدم سے ہوئی تھی کہ اس نے شجر ممنوعہ کو چھو لیا۔ اس کی پاداش میں اللہ تعالی کو اسے ایک نئے مادی وجود سے ہمکنار کر پڑا تاکہ وہ مادہ و توانائی کی آمیزش والی اس دنیا میں اپنی تصحیح و تطہیر کرسکے۔ اپنے آپ کواس معیار پر واپس لا سکے جس معیار پر اللہ تعالی نے اسے تخلیق فرمایا تھا اور اسے اپنی شاہکار تخلیق قرار دیا۔

بس وجود جسمانی اور وجود روحانی کا مرکب سراپا وجود کے حامل انسان کو وہ موقع فراہم کرنا مقصود تھا کہ انسان انسانیت کے معیار کی اس معراج کو حاصل کر لے جہاں سے انسان کو اس کی اصل مقام۔ مقام مسجود ملائک کے منصب عظیم پر واپس فائز کیا جا سکے کیونکہ وہی انسان کا اصل مقام ہے اور یہی اللہ تعالی کی مرضی و منشا بھی ہے۔ چونکہ عالم دنیا ہی وہ واحد مقام ہے جہاں انسان کو اس کے اصل ( روحانی وجود ) کے ساتھ ایک مادی وجود بھی عطا کیا گیا ہے اور مادی وجود کے اصل اجزا اس مادی دنیا کے ساتھ منصوب ہیں لہذا وقت اجل کی تکمیل پر انسان کو وجود حقیقی (روحانی وجود ) کی واپسی اپنے مقام اصل کی طرف حیات ثالث کی صورت میں ہوجاتی ہے اور وجود مادی کو موت دے دی جاتی ہے یوں مادے کی واپسی مادی دنیا میں اسی مادے میں شمولیت کی صورت ایک منظم نظام کے تحت نافذ العمل کر دی گئی ہے۔

پس حیات اول ہو حیات ثانی یا پھر حیات ثالث ہر حیات میں انسان کے وجود روحانی کی شمولیت اپنی اصل ہیت کے ساتھ موجود رکھی گئی ہے۔ جہاں مادہ کو وجود جسمانی کی صورت انسانی وجود میں شامل کیا گیا ہے وہاں مادی وجود کی موت کو مادی وجود کے خاتمے کے لئے لازم کرکے انسان کو اس کی اصل تخلیق روحانی جو فی الحقیقت امر ربؔانی ہے پر واپس قائم و دائم کر دیا گیا ہے۔

مادی وجود میں انسانی حقیقت بقول شاعر:!
اصل وہ نہیں جو نظر آتا ہے
یہ تو گھوڑا ہے دوڑے جاتا ہے
چشم قلب پائے تو
تو ہے نور اپنا سراغ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments