وہ اندھیری رات


وہ گنگناتے ہوئے تیار ہونے میں مصروف تھی رات کا پہر، ہو کا عالم صرف کتوں کے بھونکنے کی آواز ماحول میں ارتعاش کا باعث بن رہی تھی۔ مگر نورا کو کتوں کی بھوں بھوں کی کوئی پرواہ نہیں تھی۔

اللہ کے نام پر دیدو بوڑھے فقیر کی صدا سنائی دی۔ معلوم نہیں فقیر بوڑھا تھا بھی کہ نہیں محلے والے تو اس کی آواز سے ڈرتے تھے۔ بچے رونا شروع کردیتے اور عورتیں کوسنے گھر کا کوئی مرد دروازہ سے بھیک دے دیتا فقیر آتا ہی رات کے پہر تھا اور صدا گلی میں بتیاں گل ہونے کے بعد لگا تا تھا۔ کبھی کسی نے فقیر کو دیکھنے کی کوشش ہی نہیں کی تھی اس لیے وہ بوڑھا تھا بھی کہ نہیں کوئی یقین سے نہیں کہہ سکتا تھا۔

نورا بوڑھے فقیر کو کبھی بھیک نہیں دیتی تھی وہ ڈرتی تب دیتی۔ نورا آج بھیک دے دیتا ہوں سفر پر جانا ہے صدقہ دینا چاہیے۔ انور نے کہا۔

چھوڑو بھی سفر پر جانا ہے بھیک دیدو روز آ جاتا ہے یہ محلے والے انھیں بھی جلدی سونے کا خبط ہے گلی میں اندھیرا کر کے سب کے آنے جانے پر پابندی لگا دو یہ بوڑھا فقیر محلے والوں کی بیوقوفی کا فائدہ اٹھاتا ہے رات کے اس پہر آتا ہے تاکہ سب بھیک دیں دے۔ پتا نہیں بوڑھا ہے بھی کہ نہیں قیاس آرائی ہے بوڑھے کی آواز میں درد بہت ہے تمھیں رحم نہیں آتا۔ میں بے رحم ہوں اب چلو میں تیار ہوں۔

چلتا ہوں ایسا کرو موبائل کی ٹارچ کھول لو بائیک نکالنے میں آسانی رہے گی۔ آؤ بیٹھو بائیک اسٹارٹ کر کے انور نے کہا اور نورا اسے پکڑ کر بیٹھ گئی۔ انور بائیک جلدی چلاؤ عجیب وحشت ہوتی ہے اندھیری گلی میں۔

آج تو دینا پڑے گا۔ ایک بوڑھا بابا بائیک کے سامنے جھوم رہا تھا کھلے سفید بال، سفید جوڑا اور ہاتھ میں ڈنڈا۔ نورا کی سٹی گم ہو گئی انور بھگا، انور ہوش و حواس پر قابو پاتے ہوئے بائیک نکالنے کی کوشش کرنے لگا۔ بابا بائیک کے اردگرد چکر کاٹ رہا تھا۔ مگر انور نے کوشش کر کے بائیک نکال لی۔ جا نورا جا میں تجھے دعا دیتا ہوں صدا سہاگن رہ۔ پیچھے سے بابا کی اونچی آواز آئی۔ انور اسے میرا نام کیسے پتا۔ نورا چپ کر جاؤ تمھیں ہی شوق ہے راتوں کو گھر سے باہر نکلنے اور شادی کھانے کا۔ بھاؤں بھاؤں۔ ایک کتا بائیک کے پیچھے بھاگنے لگا۔ انور کتا نورا نے ڈرتے ڈرتے کہا اور انور کو کس کے پکڑ لیا اور انور بائیک دوڑانے لگا۔

شکر ہے روشنی تو نظر آئی روشنی نظر آنے پر نورا نے شکر ادا کرتے ہوئے کہا۔ انور انور یہ کیا کر رہے ہو؟ انور نے سیدھے ہاتھ پر بائیک موڑ لی اور وہ دونوں پھر سے اندھیری سڑک پر آ گئے۔ یہ شارٹ کٹ ہے انور نے نورا کے گھبرانے پر جواب دیا۔

مگر یہاں اندھیرا ہے۔ کچھ نہیں ہوتا۔
ہاں جی! کچھ نہیں ہوتا۔ ایک موٹے سانڈ جیسے پولیس کی وردی میں ملبوس آدمی نے چلتی بائیک کی چابی نکالتے ہوئے کہا اور بائیک جھٹکے کھاتے ہوئے تھوڑی دور جا کے رک گئی۔ ہاں کچھ نہیں ہوتا بس ہمارا کھانا، پانی ہوتا ہے ایک اور پولیس والے نے نمودار ہو کر نورا کا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا۔

ہمیں جانے دیں انور نے منت بھری آواز میں کہا۔ ہم بھی ہے راہوں میں وردی کے پھٹ جانے کی دیر تھی اتنا موٹا تھا وہ اہلکار۔ آپ کو پیسہ، زیور جو بھی چاہیے ہیں لیں لے ہمیں جانے دیں۔ نورا نے ہاتھ چھڑانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔ حسینہ کے ہوتے ہوئے پیسہ کیا معنی رکھتا ہے؟ موٹے سانڈ پولیس اہلکار نے نورا کو بائیک سے کھینچ کر اتارتے ہوئے کہا۔ نورا بیچاری چھوئی موئی کیا مقابلہ کرتی بے بس ہو گئی۔ اسے چھوڑو انور بائیک سے اتر کر چیخا۔

ہم تمھیں کب بخش رہے ہیں دونوں پولیس اہلکار نے انور کو پکڑتے ہوئے کہا۔ نورا اور انور کی چیخیں سڑک پر گونج رہی تھی انھیں بچانے کے لیے کوئی نہیں تھا۔ انور کے ایک شارٹ کٹ نے اسے اور اس کی محبوبہ کو اذیت ناک موت سے دوچار کرا دیا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments