دھرتی کے حقیقی سپوت یا لٹیرے کون


کچھ عرصہ سے سوشل میڈیا پر ایک خاص حلقے کی طرف سے گاہے گاہے یہ بحث چھیڑ دی جاتی ہے کہ اس دھرتی کا اصل سپوت کون ہے اور لٹیرا کون تھا۔ آج میں تحریر نہیں لکھوں گا بلکہ کچھ سوالات کے جوابات چاہوں گا۔

بتائیں کیا ہندو راجے اور مہاراجے اپنی عیش و عشرت کا سامان جمع رکھنے کے لیے اس مٹی کے اصل وارث غریب کسانوں پہ ظلم کے پہاڑ نہیں توڑتے تھے؟
بتائیں کیا مسلم فاتحین سے پہلے برہمن راج نے ظلم اور سفاکیت سے اس خطے کے انسان کو انسان رہنے دیا تھا؟
بتائیں کیا مسلم فاتحین کے آنے سے پہلے اس خطے کے راجے اور مہاراجے ایک دوسرے کے خون کے پیاسے اور ہمسایہ پر جنگ مسلط نہیں کیے رکھتے تھے؟

کیا ان ہندو اور سکھ راجوں کے سامنے انسان کے خون کی کوئی قدر و قیمت تھی؟
کیا یہ سب راجپوتوں اور برہمنوں کے دلت اور شودر نہ تھے جن کو اسلام نے عزت دیدی اور ہمارے بھائی بنا دیا؟
کیا عورت کو وفات پانے والے مرد کے ساتھ ستی نہیں کر دیا جاتا تھا؟
کیا کنواری بیٹیوں کو برہمن پنڈت کے حوالے نہیں کر دیا جاتا تھا؟

کیا کالی ماتا کے چرنوں میں کنواری دوشیزاؤں کے ساتھ ہفتوں جبری ہم بستری کرنے کے بعد ذبح نہیں کر دیا جاتا تھا؟
کیا لٹیرے راجہ داہر نے مسلمان عورتوں اور بچوں کا تجارتی قافلہ نہیں لوٹا؟
کیا رنجیت سنگھ نے اپنے دور اقتدار میں مسلمانوں پر ظلم نہیں کیے؟
کیا مسلمانوں کو زبردستی سکھ اور ہندو نہیں بنایا گیا؟
ایک لمبی فہرست ہے حقائق کی جو آج بھی موجود ہیں اور ان کو کوئی جھٹلا نہیں سکتا۔

وللہ العظیم یہ خطہ ان عرب و ترک مسلمان فاتحین کے قدموں کے صدقے مسلمان ہوا ورنہ یہ سب لوگ آج بھی پتھر کے دور میں ہوتے۔

اچھا اب دیکھیں کہ جن مسلمان فاتحین کو ہم لٹیرے کہتے نہیں تھکتے ان کے اس خطے پر کتنے احسانات ہیں۔
بتائیں کیا ان مسلم فاتحین نے اس خطے کو تہذیب و تمدن اور علوم و فنون کا گہوارہ نہیں بنایا؟
کیا مسلمان بادشاہوں کی بدولت اس خطے نے ترقی کی شاہراہ پر قدم نہیں رکھا؟
کیا انگریز کے آنے تک مسلمان بادشاہوں نے Literacy rate کو 100 ٪ نہیں کیا ہوا تھا؟
کیا بیروزگاروں کو شاہی خزانے سے وظیفے نہیں ملا کرتے تھے؟

کیا کسی ایک بھی غیر مسلم کو جبراً تلوار کی نوک پر اسلام قبول کروایا گیا حالاں کہ اگر وہ چاہتے تو آج اس دھرتی پر نہ کوئی ہندو بچا ہوتا نہ کوئی سکھ؟

کیا تمام غیر مسلموں کو برابر کے حقوق نہیں دیے گئے تھے؟
کیا مسلمان حکمرانوں نے برہمن راج توڑ کر دلت اور شودر کو انسانیت کا مقام نہیں دلوایا؟
کیا مسلمانوں نے مذہبی آزادیاں نہیں دیں؟

کیا مسلمان حکمرانوں کے ہزار سالہ دور اقتدار میں ایک بھی دفعہ ہندوؤں یا سکھوں کا قتل عام ہوا ہو جو آئے روز گجرات، احمد آباد، حیدرآباد اور کشمیر میں آج بھی ہو رہا؟
کیا راستوں کو خطروں سے پاک اور عوام الناس میں عدل و انصاف اور امن کا بول بالا نہیں کیا؟
بتاؤ تو سہی آخر وہ کون سا احسان تھا جو اس پرائی مٹی کو اپنی آنکھوں کا سرمہ بنانے والے عرب و ترک مسلمان فاتحین نے نہیں کیا؟
بتاؤ تو سہی اس مٹی کا حقیقی سپوت کون بنا جس نے اسے امن و سلامتی کا گہوارہ بنایا یا وہ راجپوت کہ جنہوں نے یہاں پر ظلم و بربریت کو بھی شرمندہ کیے رکھا تھا؟

یہی وجہ ہے کہ میں غوری و غزنوی رح کے جوتے کو بھی ”اپنے کافر ہندو اور سکھ راجپوت آبا و اجداد“ سے ہزار گنا بہتر سمجھتا ہوں جو غزوہ ہند میں خاک آلود ہوئے۔ میں نسلاً وریاہ (راجپوت) ہوں لیکن اپنی قوم، تاریخ اور دین پر شرمندہ ان لبرلز کے پروپیگنڈا کا رد کرنے کے لیے اپنے نام کے ساتھ ”غوری“ بھی صرف اسی لئے لگاتا ہوں کہ ان مسلمان حکمرانوں کے عدل وانصاف و دعوتی مساعی سے میرے پڑدادا کے دادا ”بجا سنگھ“ مسلمان ہوئے تھے۔ اور اپنے دو بھائیوں ”بیلا سنگھ اور رویلا سنگھ“ سے باقی وراثت کے ساتھ ساتھ اپنے حصہ کی زمین میں آنے والے گوردوارہ کو لے کر مسجد بنا ڈالا تھا۔ اللہ تعالیٰ میرے پڑدادا کے دادا پر ہزار ہا رحمتیں نازل کرے اور مغفرت فرمائے جن کی وجہ سے اسلام میرے تک پہنچا۔ ورنہ آج میں کسی سکھ باپ کا بیٹا ہوتا۔

الغرض میرے لئے قوم، قبیلہ، نسل ہر چیز سے برتر ”اسلام اور اہل اسلام“ ہیں۔ میرے ہیرو محمد بن قاسم، اور شہاب الدین غوری ہیں نہ کہ ان کا مقابل ظالم، سفاک، قاتل اور رہزن راجہ داہر، پرتھوی راج چوہان اور رنجیت سنگھ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments