کیا آٹھواں آسمان بھی ہے؟


ویسے تو آسمان سات ہیں لیکن جب سے غلام محمد قاصر نے اپنے کلام کا نام ”آٹھواں آسمان بھی نیلا ہے“ رکھا، اسی دن سے آسمانوں سے متعلق کا نظریہ بھی واضح ہوا ہے کہ آسمان اور زمین کا رشتہ اور یہ اٹوٹ حیثیت بہت ہی پرانی ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ ہم سنتے آئیے ہیں کہ:

کرو مہربانی تم اہل زمیں پر
خدا مہرباں ہوگا عرش بریں پر

اور یہ اسی حدیث کا عکس ہے کہ ”اگر کسی کو اللہ سے محبت کرنی ہو تو اس کے بندوں سے محبت کرو“ ۔ اس حوالے سے علامہ اقبال کی یہ پر اسرار پیش گوئی بھی درخور اعتنا ہے کہ:

ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں

ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں تہی زندگی سے نہیں یہ فضائیں یہاں سیکڑوں کارواں اور بھی ہیں قناعت نہ کر عالم رنگ و بو پر چمن اور بھی آشیاں اور بھی ہیں

ویسے تو کائناتی سربستہ رازوں کو افشاں کرنے میں اور بھی بہت صدیاں لگ سکتی ہیں اور اس تلاش میں انسان کو اپنی عقل اور سوچ خام اور کمزور لگنے لگے گی۔ کیوں کہ یہ بہت ہی وسیع ہے۔

اس حوالے سے مجھے اپنی فلاسفی کی شفیق ٹیچر محترمہ پروفیسر ڈاکٹر آشا شفیق کی بات یاد آر ہی ہے کہ:
تخلیق کائنات کے دلچسپ جرم پر
ھنستا تو ہوگا خود بھی یزداں کبھی کبھی۔

یہاں ہم کائنات کی تخلیق کے نظریہ کو نہیں چھیڑنا چاھتے کیوں کہ یہ ایک بہت بڑی بحث ہے اور ہم نے پڑھا ہے کہ زمین ایک ہے اور آسمان سات، لیکن ایک مولانا صاحب سے میں نے جب کہا کہ زمین ایک ہے تو اس نے میری بات کی تردید کی۔ میں نے قرآن کا حوالہ دیا کہ قرآن میں ”سبع سموات والارض“ یعنی سات آسمان اور ایک زمین کا ذکر ہے اور سموات کا لفظ جمع ہے اور ارض کا لفظ واحد۔ مولانا صاحب نے کہا کہ نہیں اس میں سموات اور ارض کے درمیان واؤ ہے یہ دونوں کی تعداد پر دلالت کرتا ہے۔

اس لئے زمینیں بھی سات ہیں۔ میں نے ان کی بات کی مخالفت کی اور کہا کہ اگر واؤ دونوں کی تعداد پر دلالت کرتا ہے تو پھر ”إذ قال یوسف لابیہ یا ابت إنی رایت احد عشر کوکباً والشمس والقمر رایتھم لی ساجدین“ کی آیت میں گیارہ سیارے اور سورج اور چاند کے درمیان بھی واؤ ہے تو کیا اس کا یہ واؤ بھی سب کی تعداد گیارہ پر دلالت کرتا ہے؟ وہ میری بات ماننے کے لیے تیار نہیں تھا اور میں اس کی۔ کیوں کہ ان کا خیال تھا کہ میں قرآن کو سائنس تک محدود کر رہا ہوں لیکن میں نے کہا کہ سائنس مادی چیزوں سے آگے نہیں جا سکتی اور جہاں انسانی حواس خمسہ کام نہیں کرتے، سائنس اس سے باہر نہیں جا سکتی، جب کہ قرآن تو سائنس کے تمام حقائق کی حدوں کو پار کرتے ہوئے ان تمام حقائق تک پہنچتا ہے جہاں نہ سائنس جا سکتی ہے اور نہ فلسفہ۔ اور میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ سائنس جتنا بھی تحقیق کرے گی اتنا ہی قرآن کے افکار کی حقانیت ظاہر ہوتی جائے گی۔ (مضمون میں نظام شمسی کے گیارہ سیاروں کا ذکر موجودہ سائنس نہیں بلکہ عقیدے کی بنیاد پر ہے، اسے موجودہ سائنسی علم کی بنیاد پر تبدیل نہیں کیا جا رہا ہے، گو آیت میں لفظ کوکب استعمال کیا گیا ہے جس کا مطلب ستارہ مروج ہے۔ تمام اہم اردو اور انگریزی تراجم میں اس کا مطلب ستارہ لکھا گیا ہے، صرف پکتھال کے انگریزی ترجمے میں اس لفظ کا مطلب سیارہ لکھا گیا ہے: مدیر)

اس علمی بحث سے نکلتے ہیں کیونکہ ہم اتنے بڑے عالم تو ہیں نہیں کہ ہم اس پر مزید بحث کر سکیں۔ آتے ہیں اصل مدعا کی طرف یعنی آٹھواں آسمان۔

آٹھواں آسمان وہی آسمان ہے جو انسان کی تخلیق ہے اور یہ آسمان پھولوں کا بھی ہو سکتا ہے اور کانٹوں کا بھی، خوب صورت بھی ہو سکتا ہے اور بد صورت بھی، آگ اور خون کا بھی ہو سکتا ہے اور خوشی اور سکون کا بھی، ظلم اور بربریت کا بھی ہو سکتا ہے اور عدل و انصاف کا بھی، دوستی، محبت اور بھائی چارے کا بھی ہو سکتا ہے اور دشمنی، عناد اور حسد کا بھی۔ الغرض انسان کے اختیار میں ہے کہ وہ جیسا چاہے وہ یہ آسمان بنا سکتا ہے۔ لیکن ہمارے ہاں خانوں نوابوں، وڈیروں، سرداروں، جاگیرداروں، سرمایہ داروں، سیاسی لٹیوں اور بہت سارے سرکاری اہلکاروں نے اپنی رعایا پر اپنی اپنی پسند کے آسمان بنائے ہوئے ہیں اور ان کی ناچار اور مجبور رعایہ کو اللہ کے بنائے ہوئے آسمانوں کو تکنا بھی نصیب نہیں ہوتا۔

ہمارے ملک میں بہت سارے ایسے آسمانوں کے مالک موجود ہیں جنھوں نے ان مصنوعی ظلم کے آسمانوں کے نیچے غریب لاچار اور بے بس عوام خط غربت کی لکیر سے بھی نیچے زندگی گزارنے پر مجبور کیا ہے اور ایسے آسمانوں کے مالکان کو جھوٹے خدا اور مافیاز سے ہم تعبیر کرتے ہیں۔ اس ملک میں اور بھی بہت سارے پرابلمز ہیں لیکن ان تمام میں سب سے بڑا مسئلہ ء انصاف کا ہے۔ یہاں پر ایران کے ایک وفد کا ذکر لازمی ہے جو کہ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ملنے آیا تھا، ان کے یہ تاریخی الفاظ آج بھی ایک بڑا ٹریبیوٹ ہیں کہ: ”عمر (رض) انصاف کرتا ہے اس لئے سکون سے سو سکتا ہے“ ۔

آج کے ہمارے ان بڑے بڑے تیس مار خانوں کو صرف ایک کام سے دلچسپی ہے کہ سادہ لوح غریب عوام کو دونوں ہاتھوں سے کیسے لوٹا جائے۔ شاید ان ظالموں سے حساب کتاب کرنے کے لیے ہم ہلاکو خان اور چنگیز خان کے منتظر ہیں۔ یا کسی بڑی عظیم قدرتی آفت کے۔

اور آخر میں قتیل شفائی کے یہ دو اشعار کہ:
کون اس دیس میں دے گا ہمیں انصاف کی بھیک
جس میں خونخوار درندوں کی شہنشاہی ہے
جس میں غلے کے نگہبان ہیں وہ گیدڑ جن سے
قحط و افلاس کے بھوتوں نے اماں چاہی ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments