وزیر کی واہ واہ کرانے کی عجلت؟


22 مئی کو ناگہانی آفت کا شکار ہونے والی پی آئی اے کی فلائٹ نمبر 8303 جس میں عملے سمیت 97 افراد جاں بحق ہوئے تھے کی انکوائری رپورٹ چند روز قبل وزیر ہوا بازی غلام سرور خان نے بڑے طمطراق سے جاری کی۔ اصولی طور پر تو حکومت کو کریڈٹ جاتا ہے کہ اس نے شفافیت کے اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے قومی اسمبلی میں سب کچھ افشا کر دیا۔ رپورٹ کے مطابق پائلٹ سجاد گل اور معاون پائلٹ عثمان اعظم کی کوتاہی اور ائرکنٹرولر کے تساہل کی بنا پر پی آئی اے کا طیارہ A۔

320 کریش ہو گیا۔ بظاہر تو یہ سب کچھ خوب لگتا ہے، تاہم کریڈٹ لینے کے لیے اتنی جلد بازی میں رپورٹ کا اجرا کرنے سے غیر ضروری پیچیدگیاں ہوئیں۔ اصولی طور پر جب تک طیارہ ساز کمپنی ڈیٹا اور وائس ریکارڈنگ کا جائزہ لے کر اپنی رپورٹ جاری نہ کرتی ہمیں وقتی واہ واہ کرانے کے لیے یہ رپورٹ جاری نہیں کرنی چاہیے تھی۔ نہ جانے وزرا سیاسی کریڈٹ لینے کے لیے سب کچھ داؤ پر کیوں لگا دیتے ہیں اور ایسا کرتے وقت بعض اوقات حقائق کو بھی مدنظر نہیں رکھتے گویا کہ اس رپورٹ کے اجرا سے ہم نے ساری ذمہ داری اپنے سر ڈال کر طیارہ ساز ادارے کو کلین چٹ دے دی ہے۔

عین ممکن ہے کہ جب ائر بس کمپنی اپنی تحقیقاتی رپورٹ جاری کرے تو اس کی فائنڈنگ بھی یہی ہو۔ اس ضمن میں ایوی ایشن کے شعبے کے ایسے معاملات میں طریقہ کار کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے سیاسی کریڈٹ لینے کی کوششیں درست نہیں۔ اس میں کوئی حرج نہیں کہ حکومت جائز طور پر سیا سی فائدہ اٹھائے لیکن مروجہ اصولوں اور طریقہ کار کو مد نظر رکھ کر۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پی آئی اے کے چیف ایگزیکٹو کے عہدے پر پاک فضائیہ کے ایک افسر فائز ہیں۔

تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ اور اکثر ارکان کا تعلق بھی پاک فضائیہ سے ہے۔ قومی ائرلائنز کے حکام کو گلہ ہے کہ اس میں پی آئی اے یا پائلٹس کا کوئی نمائندہ شامل نہیں کیا گیا۔ سول ایوی ایشن اتھارٹی میں بھی ائرفورس کے افسر تعینات ہیں۔ اس پر مستزاد یہ کہ اتنے سنگین حادثات ہونے کے باوجود کسی اعلیٰ عہدیدار نے استعفیٰ دیا اور نہ ہی کسی سے مانگا گیا۔ سوائے ائر کنٹرولر کے اعلیٰ سطح پر کسی کو بھی معطل نہیں کیا گیا یہیں تک بات رہتی تو ٹھیک تھا لیکن سونے پر سہاگہ وزیر ہوا بازی کا یہ حیرت انگیز انکشاف تھا کہ ابتدائی رپورٹ کے مطابق کمرشل پائلٹس کی کثیر تعداد کے پاس جعلی لائسنس ہیں اور انھوں نے پائلٹ کے امتحان میں دھوکہ دہی کی ہے۔

سرور خان کے مطابق 860 پائلٹس میں سے 262 کے لائسنس مشکوک ہیں جبکہ پی آئی اے کے مطابق ان کی تعداد 150 ہے، اب ان بوگس لائسنس والے پائلٹس کو گراؤنڈ کر دیا گیا ہے، وزیر ہوا بازی کا مزید کہنا تھا 28 پائلٹس کے لائسنس جعلی ثابت ہو چکے ہیں اور 9 پائلٹوں نے جعلی ڈگری کا اعتراف کر لیا ہے۔ تاحال ائربس حادثے کا شکار ہونے والے بدقسمت پائلٹ اور معاون پائلٹ کے لائسنس جعلی نہیں تھے لیکن آپ خود یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ متذکرہ حادثہ پائلٹ کی غلطی سے ہوا ہے۔

عین حادثے کے بعد جعلی پائلٹوں کا انکشاف کرنا نہ صرف پائلٹوں بلکہ قومی ائرلائنز کے لئے بھی زہرقاتل ثابت ہوا ہے۔ ببانگ دہل یہ کہنے سے کہ ہمارے پائلٹ جعلی ہیں خاصا نقصان ہوا ہے۔ دنیا میں جن ائرلائنز نے پاکستانی پائلٹس کی خدمات حاصل کر رکھی ہیں انھیں گراؤنڈ یا فارغ کر دیا گیا ہے۔ تازہ مثال ملائیشیا کی ہے، ملائیشین سول ایوی ایشن اتھارٹی نے بھی پاکستانی پائلٹوں کو جہاز اڑانے سے روک دیا۔ ملائیشین سول ایوی ایشن اتھارٹی نے اس سلسلے میں تمام ہوا بازی کے اداروں کو مراسلہ ارسال کر دیا جس میں کہا گیا یہ پابندی عارضی طور پر لگائی گئی ہے۔

قبل ازیں ویتنام نے یہ اقدام کیا، پی آئی اے کے برعکس کمیونزم سے آزاد ہونے والے اس ملک کی ائر لائنز 96 جدید ترین جہازوں پر مشتمل ہے جن میں بوئنگ 787، ائربس 350 اور ائربس 320 کے مختلف ماڈل شامل ہیں۔ ویتنام کی ایوی ایشن اتھارٹی نے مقامی ائر لائنز میں کام کرنے والے پاکستانی پائلٹس کو گراؤنڈ کر دیا ہے تاکہ ان کے ریکارڈ کا جائزہ لیا جا سکے۔ ویتنام کے پاس 27 پاکستانی پائلٹس ہیں جن میں سے 12 جہاز اڑا رہے تھے جبکہ باقی کورونا وائرس کی بنا پر غیر فعال تھے۔

ایک متاثرہ پائلٹ نے جس کا نام جعلی پائلٹس کی لسٹ میں شامل ہے کا کہنا ہے کہ ضرورت سے زیادہ پر جوش وزیر نے چھان پھٹک کے بغیر بیان جاری کر دیا جس نے ہماری شہرت کو خاک میں ملا دیا ہے۔ پائلٹ کے مطابق سول ایوی ایشن اتھارٹی کے دعوؤں کے مطابق کوئی ایسا پائلٹ جو امتحان دینے کے بعد جہاز اڑائے اس کا لائسنس مشکوک ہوجاتا ہے۔ اس طرح اسے بھی جعلی پائلٹس کی فہرست میں شامل کر دیا گیا۔ اس کا کہنا ہے کہ میں نے صبح لاہور سے کراچی تک فلائٹ اڑائی، اس کے بعد میں نے اے ٹی پی ایل کا امتحان دیا جس میں پاس ہو گیا۔

حالانکہ میں فلائٹ میں تاخیر کی وجہ سے کچھ لیٹ ہو گیا تھا تاہم کم وقت میں امتحان دینے کے باوجود میں نے امتحان پاس کر لیا لیکن ابھی مجھے سات امتحان مزید دینے ہیں۔ لہٰذا میرے پاس چھ کا لائسنس ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، میرا نام نہ جانے کس طرح اس فہرست میں شامل کر لیا گیا! ایک اور بوئنگ 777 کے پائلٹ کا کہنا تھا کہ میں نے اے ٹی پی ایل کا امتحان ابھی دیا ہی نہیں کیونکہ مجھے اس کی ضرورت نہیں لہٰذا مجھ پر بھی جعلی لائسنس کا الزام لگا دیا گیا۔

ان کا کہنا ہے کہ درجنوں پائلٹ جن پر جعلی لائسنس ہونے کا الزام لگایا گیا ہے کی بھی یہی پوزیشن ہے جنہوں نے دن میں امتحان دیا اور بعد میں شام میں فلائٹ آپریٹ کی۔ خاص طور پر وہ پائلٹ جو کراچی میں نہیں رہتے ان کی روٹین یہی ہے۔ گویا کہ ایسا پائلٹ جس کی ٹریننگ بھی مکمل ہوئی، وہ PPL یعنی پرائیویٹ پائلٹ لائسنس اور CPl کمرشل پائلٹ لائسنس کا امتحان دے چکا اس پر یہ الزام عائد کر دیا گیا کہ اس کا اے ٹی پی ایل یعنی ائر لائنز ٹرانسپورٹ پائلٹ لائسنس جعلی ہے حالانکہ وہ کورس تو انھوں نے مکمل ہی نہیں کیا تھا۔

مزید برآں یہ جواز تلاش کیا گیا کہ جو پائلٹ فلائٹ کر کے امتحان میں بیٹھ جاتا ہے جس کی ویڈیو بھی موجود ہے وہ جعلسازی کا مرتکب قراردیا جائے گا۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ تمام پائلٹس کے کوائف درست ہیں۔ بہت سی کالی بھیڑیں ایسی ہیں جن کی ڈگریاں یا لائسنس جعلی ہیں لیکن ان کی بنا پر پوری پائلٹ کمیونٹی کو بدنام کر دینا کہاں تک قرین انصاف ہے۔ حادثے کی تحقیقا تی رپورٹ کے ساتھ پائلٹوں کے لائسنس کے معاملے کو نتھی کر دینے سے قومی مفاد کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔

یورپی یونین ائر سیفٹی ایجنسی نے پی آئی اے کے یورپی ممالک کے فضائی آپریشن کا اجازت نامہ 6 ماہ کے لیے معطل کر دیا۔ بعداز خرابی بسیار پی آئی اے نے تمام فارن مشننز کو خط لکھا ہے کہ ان چند سو پائلٹوں کے علاوہ باقی ٹھیک ہیں۔ لیکن یہ عذر سانپ نکل جانے کے بعد لکیر پیٹنے کے مترادف ہے۔ ہمارے بزر جمہروں کو اس بات کا بھی علم نہیں کہ دنیا بھر میں اب اکثر ہوائی کمپنیاں نجی شعبے میں ہیں اور وہ اپنے فیصلے خود کرنے کی مجاز ہیں، اس بارے میں ان کے سفارتخانے کچھ نہیں کر سکتے۔

ہم نے خود ہی ایوی ایشن انڈسٹری میں سستی شہرت حاصل کرنے کی خاطر اور ماضی کی حکومتوں کو مطعون کرنے کے لیے قومی ائرلائن کی ساکھ کو تباہ کر دیا ہے۔ ایوی ایشن انڈسٹری کے لیے موجودہ صورتحال دوہرا دھچکا ہے کیونکہ کورونا وبا کی بنا پر حالات پہلے ہی خراب تھے، ہم مقامی طور پر کورونا ٹیسٹنگ کریں یا نہ کریں اکثر ممالک اپنے ہاں غیر ملکی مسافروں کی امیگریشن کرنے سے پہلے ان کا ٹیسٹ لیتے ہیں۔ بدقسمتی سے ہانگ کانگ، برطانیہ اور آسٹریلیا میں پاکستانی مسافروں کی کثیر تعداد کورونا پازیٹو نکلی۔

اب ان ائرلائنز نے فی الحال اپنے آپریشز مختصر عرصے کے لیے شروع کرنے کے بعد پھر بند کر دیے ہیں اور اس طرح قطر ائرویز اور دیگرائرلائنز بھی فضائی آپریشنز بند یا محدود کر رہی ہیں۔ پی آئی اے کا اپنا حال اب ایک جان بلب مریض کی طرح ہے جس پر مزید سرمائے کے ٹیکے بھی کام نہیں کر رہے۔ پی آئی اے کو سالہا سال سے حکومتی مداخلت سے چلانے سے مرض بڑھتا ہی گیا جوں جوں دوا کی۔ بہتر یہی ہو گا کہ اس ائرلائنز کو بلا تاخیر نجی شعبے میں دے دیا جائے کیونکہ ہمارے حکمران اس کے تابوت میں آخری کیل ٹھونکنے پر تلے ہوئے ہیں، متعلقہ وزیر موصوف کو گھر بھیج دینا چاہیے کیونکہ یہ وزارت ان کے بس کا روگ نہیں ہے۔
بشکریہ روزنامہ 92۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments