شرارتی ڈونلڈ ٹرمپ اور امریکا کا آزاد معاشرہ


چند سال قبل امریکا میں ایک عجیب ہلچل ہوئی۔ اس ہلچل کو آپ چھوٹا موٹا طوفان چھوٹا موٹا ’اسٹورم‘ کہہ سکتے ہیں۔ مگر وہ ’اسٹورمی‘ کہانی کیا تھی؟ نیویارک ٹائمز میں سرخی جمی کہ امریکی صدر جناب ڈونلڈ ٹرمپ صاحب کے ذاتی وکیل مائیکل کوہن صاحب نے ایک لاکھ تیس ہزار امریکی ڈالر مشہور فحش اداکارہ اسٹیفنی کلیفورڈ (جو اسٹورمی ڈینیل کے نام سے معروف ہیں ) کو دیے اور اس ادائیگی کا مقصد محترمہ کی زبان بند کرانا تھا، اس لیے کہ وہ مبینہ طور پر ٹرمپ صاحب کی محبوبہ (یا ’داشتہ‘ جو کہہ لیں ) رہ چکی ہیں۔ مائیکل کوہن صاحب اس معاملے کو دبانے کی کوشش میں تھے اور نت نئے بہانے تراش رہے تھے کہ کسی طور سے یہ بات دب جائے۔ دوسری جانب پیسے لینے والی محترمہ نے بھی بیان جاری کیا کہ ان کا کبھی بھی ٹرمپ صاحب سے جنسی یا رومانوی تعلق نہیں رہا نہ ہی انہوں نے اس معاملے میں خاموش رہنے کے لئے کوئی رقم ان سے وصول کی۔

ویسے تو امریکا کی فحش فلموں کی صنعت بھی ہالی وڈ ہی کی طرح بہت وسیع ہے مگر جنسی آزادیوں کے اس دیس میں یہ دو رنگی بڑی عجیب معلوم ہوتی ہے جب وہاں کے عوام کسی کی اخلاقی گراوٹ پرکسی سے ناراض ہوتے ہیں اور کسی کو اپنی بدکاریاں چھپانی پڑتی ہیں۔ دنیا جہان میں امریکا کی فحش فلمیں بڑے ذوق و شوق سے دیکھی جاتی ہیں اور وہ ایسی امریکی سوغات ہے جس سے امیر و غریب، دہریے اور پنڈت، مرد و زن سب ہی لطف اندوز ہوتے ہیں۔ جس بچے، بڑے کا موبائل فون اٹھائیے اس پر یہی مٹھائی کی دکان کھلی ہوئی ہے۔

جب میں سولہ سال کا تھا تو کمپیوٹر اور انٹرنیٹ تو پھیل رہا تھا مگر آج کے مقابلے میں وہ شاید ایک فیصد ہی پھیلا تھا اور یہ فحش فلموں کی سوغات بڑی تگ و دو اور مشقت سے میسر آیا کرتی تھی، اس لیے سولہویں سال میں میں نے اور میرے کئی دوستوں نے امریکا جا کر آزاد زندگی کے سپنے سجا لئے تھے۔ مگر ٹرمپ صاحب کے بارے میں عوام کے غم و غصے کی خبر پڑھ کر تو میرے سولہ سال کے ناآسودہ خوابوں کے پرخچے ہی اڑ گئے۔ آخر اس آزاد دیس میں ٹرمپ صاحب کو اپنی شرارتوں کو چھپانے کی ضرورت کیوں ہے بھلا؟

یہ اسٹورمی ڈینیئنل کوئی خلائی مخلوق تو ہیں نہیں۔ اسی امریکا کی ایک شہری ہیں اور اگر باہمی رضامندی سے انہوں نے ٹرمپ صاحب کی تھوڑی ’خدمت‘ کر بھی دی تو امریکی لوگوں کو اس میں برا منانے کی کیا ضرورت ہے؟ مگر امریکی ایسی باتوں سے برا مانتے ہیں۔ ان کو اپنا سربراہ مملکت ایسا درکار ہے جو اپنی بیوی کا وفادار ہو اور بیوی کے علاوہ کسی بھی عورت کی طرف نگاہ بھی نہ ڈالے اور اگر ایسا کچھ بھی ہو تو امریکیوں کے جذبات مجروح ہوتے ہیں۔

امریکی اپنے مجروح جذبات کا مظاہرہ بل کلنٹن کے مونیکا لیونکسی سے جنسی تعلقات کے منظر عام پر آنے پر بھی کر چکے ہیں۔ یہ معاملہ صرف امریکا تک محدود نہیں بلکہ برطانیہ میں شاہی خاندان سے بھی بڑی سخت اخلاقیات کی توقع کی جاتی ہے اور اگر کوئی اس سخت معیار پر پورا نہ اترے تو اس کا انجام شہزادی ڈیانا جیسا ہو سکتا ہے۔

یہ صورتحال ایک بڑی عجیب دوغلے پن، ایک دوہرے معیار، ایک منافقت کی پیداوار ہے، لوگ خود برائی کرتے ہیں اور کرتے رہنا چاہتے ہیں، برائی کو اپنی ذات کے لئے برائی نہیں سمجھتے مگر اندر کہیں اپنی روح کی گہرائی میں اچھی طرح اس بات سے واقف ہوتے ہیں کہ یہ برائی ہے۔ وہ جن افراد کو اپنا حکمران چنتے ہیں (یا جو کہ ان کے نام نہاد بادشاہ ہیں جیسے تاج برطانیہ یا تاج جاپان) انمیں ان تمام اخلاقیات کا ظہور اعلیٰ ترین درجات میں دیکھنا چاہتے ہیں۔

یہاں ان کو یہ اسٹورمی ڈینیئل برداشت ہوتی ہے نہ ہی دودی الفائد۔ حالانکہ صرف کوئی ایک شخص چاہے وہ کسی بھی سماجی رتبے پر فائز ہو، ساری کی ساری اخلاقیات کا ذمہ دار کیوں ہو سکتا ہے بھلا؟ مگر یہ جدید اور آزاد معاشرے اپنے حکمرانوں کو یہ حق دینے پر تیار نہیں، اس لیے کہ دراصل انسان جو بھی کچھ اپنے منہ سے بول لے وہ جانتا ضرور ہے کہ کیا چیز بری ہے اور کیا چیز اچھی اور کوئی بھی اپنی اجتماعی تصویر یعنی اپنے حکمران میں برائیوں کا ظہور دیکھ کر برداشت نہیں کر پاتا۔ ہر کسی کو اپنے حکمران سیدھے، سادے اور اخلاقی درکار ہیں جبکہ وہ معاشرہ اسٹورمی ڈینیئل اور ایسی ہی لاکھوں عورتوں کو نا صرف جسم فروشی بلکہ بے حیائی کا اشتہار، یعنی فحش فلموں کی اداکارہ بنا چکا ہے۔ ایسا ہوتا ہے حقیقی دوغلا اور منافق معاشرہ یعنی ’آزاد‘ معاشرہ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments