نریندر مودی کا دورہ لداخ: انڈین وزیر اعظم کی ہسپتال کی تصویر کو سوشل میڈیا صارفین فلم منا بھائی ایم بی بی ایس سے کیوں جوڑ رہے ہیں؟


انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی جمعہ یعنی تین جولائی کی صبح اچانک لیہ پہنچ گئے جہاں انھوں نے فوجی افسران اور جوانوں سے ملاقات کی اور صورتحال کا جائزہ لیا۔

ان کا یہ دورہ 15-16 جون کی درمیانی شب انڈیا چین سرحد پر واقع وادی گلوان میں دونوں ممالک کے فوجیوں کے مابین ایک پُرتشدد تصادم کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال میں اہم مانا جا رہا ہے کیونکہ اس میں انڈین فوج کے 20 فوجی ہلاک ہو گئے تھے۔

وزیر اعظم نے فوجی افسران سے خطاب کیا اور اس کے بعد زخمی فوجیوں سے بھی ملاقات کی لیکن فوجیوں کے ایک ہسپتال میں ان کی تصاویر کا سوشل میڈیا پر صارفین نے خوب مذاق اڑایا۔

بی جے پی کے آفیشل ٹوئٹر ہینڈل پر بھی وہاں کی تصاویر شیئر کی گئی ہیں۔

تاہم جہاں جوانوں کو رکھا گیا ہے اس جگہ پر سوال اٹھاتے ہوئے سوشل میڈیا پر بہت سے لوگوں نے وزیر اعظم مودی کی فوجیوں کے ساتھ اس ملاقات کو ’فوٹو اوپ‘ یعنی صرف تصاویر کے غرض سے کیے جانے والے دورہ قرار دیا ہے۔

انڈیا میں اکثر افراد نے سوالات اٹھاتے رہ گئے کہ آیا یہ سچ میں کوئی ہسپتال کا وارڈ ہے یا مذاق۔

سنیچر کے روز ٹوئٹر پر ہیش ٹیگ ’منا بھائی ایم بی بی ایس‘ بھی ٹرینڈ کرنے لگا۔

یقیناً آپ نے سنجے دت کی یہ فلم ضرور دیکھی ہو گی اور اس بات سے بھی بخوبی واقف ہوں گے کہ اس میں منا بھائی کا طریقہ علاج کیا تھا۔

آپ کو وہ سین بھی یاد ہو گا جب منا بھائی یا فلم میں مرلی پرساد شرما کے نام سے جانے جانے والے سنجے دت کے والدین گاؤں سے شہر ان سے ملنے آتے ہیں۔

اس کے بعد ایک ہنگامہ برپا ہو جاتا ہے اور ہر کوئی ایک عمارت کو ہسپتال میں تبدیل کرنے میں مصروف ہو جاتا ہے کیونکہ مرلی نے اپنے والدین سے جھوٹ بول رکھا ہوتا ہے کہ وہ دراصل شہر میں ایک ڈاکٹر ہیں۔

اب نریندر مودی کی زخمیوں کی عیادت کرنے کی تصاویر صارفین کو ماضی میں لے گئیں اور وہ اس جعلی ہسپتال اور مریضوں کو یاد کرنے لگے جو منا بھائی کے دوستوں نے مل کر ان کے لیے بنایا تھا۔

جب سوشل میڈیا پر معاملہ بڑھتا چلا گيا تو فوج نے صورتحال کو واضح کرنے کے لیے ایک بیان جاری کیا۔

انڈین فوج کو وضاحت دینا پڑی

انڈین فوج کو اس حوالے سے ایک وضاحتی بیان جاری کرنا پڑا جس میں مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ تین جولائی کو وزیر اعظم مودی نے جس ہسپتال کا دورہ کیا اس کے بارے میں بہت سی باتیں گردش کر رہی ہیں۔

’یہ افسوس ناک ہے کہ ہمارے بہادر فوجیوں کا جس طرح سے خیال رکھا جا رہا ہے اس پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔۔۔ وزیر اعظم نے جس جگہ کا دورہ کیا وہ جنرل ہسپتال کمپلیکس کا کرائسس ایکسپینشن ہے اور اس میں 100 بستر ہیں۔‘

بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ کووڈ 19 پروٹوکول کی وجہ سے ہسپتال کے کچھ وارڈز کو الگ تھلگ وارڈز میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ لہٰذا یہ ہال جو عام طور پر آڈیو ویڈیو ٹریننگ ہال کے طور پر استعمال ہوتا تھا اسے ایک وارڈ میں تبدیل کر دیا گیا۔

’گلوان سے آنے کے بعد سے ہی زخمی فوجیوں کو یہاں قرنطینہ میں رکھا گیا تھا۔ آرمی چیف جنرل ایم ایم نروانے اور آرمی کمانڈر نے بھی اسی جگہ کا دورہ کیا اور فوجیوں سے ملاقات کی۔‘

خیال رہے کہ انڈین آرمی چیف نے 23 جون کو اس جگہ کا دورہ کیا اور فوجیوں سے ملاقات کی۔ اس کی تصویر بھارتی فوج کے آفیشل ٹوئٹر ہینڈل پر بھی شیئر کی گئی تھی۔

اس سے قبل کہ فوج کی وضاحت آتی لوگوں نے اپنے اپنے انداز میں وزیر اعظم کی ہسپتال میں فوجیوں کے ساتھ تصاویر پر تبصرہ کیا۔

ٹوئٹر صارف آرتی نے لکھا: ’ملک سے اتنا بڑا فریب؟ وزیر اعظم نریندر مودی کے لیہ کے دورے کے موقع پر کانفرنس روم کو صرف فوٹو کے لیے ہسپتال میں تبدیل کر دیا گیا۔‘

آرتی ایک تصدیق شدہ ٹوئٹر صارف ہیں اور ان کے ٹوئٹر بائیو میں لکھا گیا ہے کہ وہ عام آدمی پارٹی کی قومی سوشل میڈیا ٹیم سے وابستہ ہیں۔

وزیڑ اعظم کی ایک تصویر کو ٹویٹ کرتے ہوئے سیکولر انڈین 72 نامی صارف نے لکھا: ’نہ دواؤں کی ٹیبل ہے، نہ ڈاکٹر، نہ مرہم، نہ کوئی مریض سو رہا ہے، نہ کسی کو ڈرپ لگی ہے، نہ آکسیجن سیلنڈر ہے، نہ ہی وینٹیلیٹر۔

’ایسا لگتا ہے کہ یہ منا بھائی ایم بی بی ایس کا کوئی سین ہے۔‘

ڈاکٹر جوالا جی نامی ایک صارف نے بھی اس تصویر کو پوسٹ کرتے ہوئے لکھا کہ ایک اصلی ڈاکٹر بتا رہی ہے کہ یہاں کیا کيا نہیں ہے۔

’مریضوں کا آئی ڈی بینڈ نہیں ہیں، پلس آکسی میٹر نہیں ہیں۔ ای سی جی کے تار نہیں ہیں۔ مانیٹر نہیں ہیں۔ آئی وی کینولا نہیں ہے۔ ایمرجنسی کریش کارٹ نہیں ہے۔ اور بھی بہت کچھ۔ نہ ہی کوئی ڈاکٹر مریض کی کیفیت بتا رہا ہے۔ اس طرح کے تصاویر بنانے سے قبل کسی ڈاکٹر کی خدمات ہی حاصل کر لیتے۔‘

جیجو جوزف نامی صارف نے سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ اور نریندر مودی کی تصویروں کا کولاج بنا کر ٹویٹ کیا اور لکھا: ’سچ کا ہسپتال بمقابلہ پی آر ایکسرسائز۔‘

ان تصویروں میں ایک طرف نریندر مودی لیہ میں فوجیوں سے مل رہے ہیں۔ دوسری تصاویر میں سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ ایک ہسپتال میں داخل لوگوں سے مل رہے ہیں۔

آلٹ نیوز نے یہ بتایا کہ اس جگہ پر دس دن پہلے انڈیا کے آرمی چیف بھی گئے تھے۔

کانگریس کے کئی رہنماؤں نے اس تصویر کو مذاق کا نشانہ بنایا تو کانگریس کی طرف سے باضابطہ انتباہ جاری کیا گیا کہ ان کی پارٹی کے لوگ فیک نیوز کا شکار نہ ہوں اور اس کو پھیلانے والے نہ بنیں کیونکہ کانگریس مسلسل جعلی خبروں سے لڑ رہی ہے۔

انجلی شرما نامی ٹوئٹر صارف نے لکھا: ’ایک پرتشدد جدوجہد کا اس طرح مذاق اڑایا جا رہا ہے۔ ہم کچھ دن پہلے ہی 20 جوانوں کو کھو چکے ہیں۔

’لیکن یہاں کچھ تصاویر کے لیے ہسپتال کا نقلی سیٹ اپ تیار کروایا گيا ہے اور کچھ کرائے اداکاروں کو وہاں بٹھا دیا گيا۔ ایک دن سچ سامنے آئے گا۔‘

اس کے برعکس ایوراما نامی ایک صارف نے لکھا: ‘تھراپی لینا، پروٹوکال اپنانا، جنگ جیسے حالات کے صدمے سے باہر آنے کے لیے مستقل نگرانی میں رہنا تاکہ فوجی جوان پھر سے پرسکون ذہن کے ساتھ خدمات انجام دینے کے لیے آ سکیں، اسے آپ منا بھائی کہہ رہے ہیں۔ فوج کی کچھ تو عزت کرو۔’

اتل ترپاٹھی نامی ایک صارف نے کسی ٹی وی پر دکھائے جانے والے ایک منظر کو پوسٹ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’جس جوان کو بندوق اٹھائے رکھنا چاہیے تھا وہ وزیر اعظم کی تشہیر کے لیے کیمرہ اٹھائے ہوئے ہیں۔

’اس وزیر اعظم نے فوجیوں کو اپنی گندی سیاست کے لیے استعمال کیا ہے۔۔۔ منا بھائی ایم بی بی ایس۔‘

در اصل گلوان وادی پر انڈیا اور چین کے درمیان لائن آف ایکچوئل کنٹرول پر مختلف ذرائع سے متضاد خبریں سامنے آنے اور مختلف بیانات کی وجہ سے وزیر اعظم مودی کو شدید تنقید کا سامنا ہے اور حزب اختلاف کے ساتھ ساتھ مبصرین بھی ان سے سوال کرتے نظر آ رہے ہیں کہ وہاں کی حقیقی صورت حال کیا ہے۔

کیا چین نے انڈیا کی سرزمین پر قبضہ کیا۔ لیکن وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ ’نہ وہاں کوئی آیا ہے، نہ ہے اور نہ کسی پوسٹ پر قبضہ کیا گیا ہے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32466 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp