ہر ایک منظر عوام پر واضح ہو چکا!


اگر کوئی دوسرا نظام حیات ہوتا تو پھر عوام دیکھتے کہ مافیاز کیسے من مرضی کرتے ہیں مگر اب تو دھما چوکڑی مچی ہوئی ہے لوگوں کا پرسان حال کوئی نہیں۔ حکومت گونگلوؤں سے مٹی جھاڑتی رہتی ہے یعنی احکامات جاری کرتی رہتی ہے کہ یہ ہونا چاہیے فلاں چیز کی قیمت اتنی مقرر کر دی گئی ہے۔ اس سے زائد وصول کرنے والوں کو قانون کی گرفت میں لایا جائے گا وغیرہ وغیرہ

اب تک اگلی پچھلی حکومتوں میں نہیں دیکھا گیا کہ وہ جو کہتی ہیں اس پر عمل درآمد کروا لیں لہٰذا یہ کہنا پڑتا ہے کہ حکومت کوئی بھی ہو غیر عوامی ہوتی ہے جو عام آدمی کا نہیں خاص کا خیال کرتی ہے یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہنے کا امکان ہے جب تک کوئی عوامی حکومت (اصلی) قائم نہیں ہو جاتی؟

فی الحال اشرافیہ حکمرانی کا فرض ادا کر رہی ہے اور وہ یہ سمجھتی ہے کہ اس کے علاوہ کوئی دوسرا طبقہ اس کے اہل نہیں لہٰذا غریب عوام کی حالت ٹھیک ہو رہی ہے ناقانون کو ملحوظ خاظر رکھا جاتا ہے ہاں البتہ غریبوں پر اس کا اطلاق من و عن ہوتا ہے۔

اس تناظر میں ہم دیکھتے ہیں کہ عوام حکمرانوں سے سخت نفرت کرنے لگے ہیں انہیں یقین ہو گیا ہے کہ اب ان کے ہاتھوں انہوں نے رسوا ہی ہونا ہے کیونکہ وہ دیکھ رہے ہیں آئے روز اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے۔ بجلی گیس پانی اور پٹرول کی بھی قیمتیں آنکھیں بند کر کے بڑھادی جاتی ہیں۔ ان دنوں جب لوگ محنت مزدوری بھی نہیں کر سکتے کیونکہ ہر کوئی وائرس کی دہشت میں مبتلا ہے لہٰذا وہ مہنگائی اور روزگار کے مسائل سے شدید متاثر ہیں حکمرانوں کو مگر آئی ایم ایف کی قسطوں کی ادائی کی فکر ہے مگر وہ ابھی تک اسے اس بات پر آمادہ نہیں کر سکی کہ ملک کے حالات بہت خراب ہیں اس کی معیشت پہلے بھی بہتر نہیں تھی لہٰذا وہ لیے گئے قرضوں سے متعلق نظرثانی کرے!

ادھر وائرس سے نمٹنے کے لیے جو امدادیں اور فنڈز امیر ممالک یا ان کے مالیاتی اداروں سے آ رہے ہیں وہ نجانے کہاں خرچ ہو رہے ہیں یوں ملک میں ایک بڑے انتشار کا اندیشہ لاحق ہو چکا ہے اور یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ اب تنگ آمدبجنگ آمد کے مصداق لوگ سڑکوں پر آ جائیں گے جو مخصوص انداز میں آئیں گے کیونکہ حد کر دی ہے حکمران طبقات نے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لوٹ کھسوٹ کریں یہ کھربوں کی جائیدادیں بنائیں یہ بڑے اور غریب عوام دیہاڑیاں کر کے بھی گزر بسر نہ کر سکیں۔ یہ سراسر زیادتی ہے، ظلم ہے لہٰذا اہل اختیار سوچیں انہوں نے حکمرانی کے مزے لوٹنے ہیں تو عوام کو ساتھ لے کر چلیں۔ ان کی جمع پونجیوں پر ہاتھ صاف نہ کریں اب تو ان کے بدنوں میں سکت بھی باقی نہیں رہی۔ دوسرے وائرس کا خوف ان میں بسیرا کر رہا ہے۔

یہ کیسی عجیب بات ہے کہ ایک طرف لوگوں کو گھروں میں بیٹھنے پر مجبور کیا جاتا ہے تا کہ وہ وائرس سے متاثر نہ ہوں مگر دوسری جانب ان کے جینے کے سامان کا بندوبست نہیں کیا جاتا۔ حکومتی احکامات کو ہمارا میڈیا کچھ اس طرح سے جاری کرتا ہے کہ بندے کی جان ہی نکل جاتی ہے یہ تو بھلا ہو کچھ باخبر لوگوں کا جو حالات کی سچی اور حقیقی تصویر پیش کر رہے ہیں اور خوف کے خاتمے کے لیے اپنا بھرپور کردار ادا کر رہے ہیں۔

بہرحال یہ بات زبان زد عام ہے کہ حکومت انتظامی معاملات میں ناکام ہو چکی ہے۔ کوئی اس کا ماتحت ادارہ سیدھا چلنے کو تیار نہیں لہٰذا عوام خوفناک حد تک اس سے مایوس ہو گئے ہیں اور یہ مایوسی ایک طوفانی شکل میں تبدیل ہو کر اس نظام کو جڑ سے اکھیڑ دے گی جن اہل دماغ کا یہ سوچنا ہے کہ لوگوں کو خوف کا شکار بنا کر خاموش رکھا جا سکتا ہے یہ چیز زیادہ دیر تک برقرار نہیں رہ سکتی کیونکہ زندہ رہنے کے لیے حرکت میں آنا پڑتا ہے اور یہ حرکت بہت جلد ہونے جا رہی ہے۔

کچھ محنت کش سڑکوں پر آ رہے ہیں عین ممکن ہے ان کے ساتھ دوسرے بے بس مجبور اور روٹی کے نوالوں کے لیے ترسنے والے لوگ بھی آ ملیں کیونکہ اکہتر برس کے بعد انہیں حکمران طبقہ سکھ چین سے محروم رکھے ہوئے ہے اب تو ان کی حالت قابل رحم ہے مگر اس پر بھی اسے ترس نہیں آ رہا۔ خود یہ پندرہ پندرہ بیس بیس ایکڑ رقبے پر پھیلے محلوں میں رہتا ہے اور تمام اختیارات اپنے پاس رکھتے ہوئے کروڑوں عوام کی دولت کو دونوں ہاتھوں سے سمیٹ کر اپنی تجوریوں میں ٹھونس رہا ہے پھر اسے باہر لے جا کر عیش و عشرت کی زندگی بسر کر رہا ہے۔

بہرکیف حالات تیزی سے بدل رہے ہیں دنیا ایک نئے موڑ پر آن کھڑی ہوئی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک کے لوگ سراپا احتجاج ہیں وہ پھیلائے ہوئے وائرس کے خوف کو نظر انداز کرتے ہوئے نظام کی تبدیلی کا نعرہ لگا رہے ہیں کیونکہ انہیں سمجھ آ گئی ہے کہ اب جب یہ فرسودہ نظام زندگی ٹوٹ رہا ہے تو انہوں نے اسے قائم رکھنے کے لیے ایک نیا منصوبہ بنایا ہے مگر وہ اس میں کامیاب نہیں ہو سکتے کیونکہ سسک سسک کر مرنے سے بہتر ہے کہ جدوجہد کے راستے پر گامزن ہوا جائے لہٰذا ہمارے حکمرانوں کو بھی یہ فیصلہ کر لینا چاہیے کہ لوگوں کو اپنے ساتھ لے کر چلنا ہے یا انہیں ڈرا دھمکا کر ان کی توجہ دوسری طرف مبذول کروا کر نتائج حاصل کرنے ہیں جو کہ ممکن نہیں۔ آخر کب تک بھول بھلیوں میں رہتے ہوئے جیا جا سکتا ہے ان کے وعدوں کو سچ جان کر انتظار کیا جا سکتا ہے۔ اب ہر چیز اور ہر ایک منظر ان پر واضح ہو چکا ہے!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments