میں بلوچستان میں کچھ بھول آیا ہوں


یہ میری کسی بلوچستانی سے پہلی ملاقات تھی۔ میں ”ایسا ہے پاکستان“ کے صدر اسد رشید کے ساتھ مل کر بلوچستان پہ آن لائن کر رہا تھا۔ اور میرا کسی بلوچستانی سے ملنا از حد ضروری تھا تاکہ آن لائن موجود مواد کے بارے میں کچھ تصدیق کی جا سکے۔ میں نے بڑی مشکل سے فیروز کا نمبر لیا اور اس سے رابطہ کیا۔ فیروز نے کہا کہ بلوچستان کے بارے میں میں آپ کو بتاؤں گا تو سہی لیکن آپ سے ہضم نہیں ہو گا۔ میں نے کہا میرا ہاضمہ کافی درست ہے۔

تو فیروز نے کہا کل میرے ہاسٹل آجاؤ وہیں بات کریں گے۔ اگلے دن میں کلاسز ختم ہونے کے بعد اس کے ہاسٹل چلا گیا۔ فیروز نے دروازے پہ آ کر میرا استقبال کیا اور کہا چلو کھانا کھاتے ہیں۔ میں نے انکار کیا اور کہا میں ابھی کھا کے آ رہا ہوں۔ فیروز نے کہا لیکن میں نے تو کھانا ہے ناں آؤ میرے ساتھ۔ ہم دونوں قریبی ہوٹل سے کھانا کھانے چلے گئے۔ کھانا کھاتے ہوئے میں نے اس سے ملاقات کا مدعا بیان کیا۔ تو اس نے کہا کہ پریشان نہ ہو تجھے جو معلومات چاہیں، میں فراہم کرنے کی پوری کوشش کروں گا۔

کھانا کھا کر اٹھے تو فیروز نے میرا بیگ خود اٹھا لیا۔ ہاسٹل کے دروازے پر آکر دروازہ کھول کر پہلے مجھے اندر داخل ہونے کا کہا۔ ہم جب کمرے میں پہنچے تو کمرے میں موجود دوسرے لڑکوں نے بھی اٹھ کر ہمارا استقبال کیا۔ ہم بیٹھ گئے، باتیں ہوتی رہیں۔ فیروز کے علاوہ دوسرے بلوچستانی لڑکوں نے سلام دعا کے بعد مجھ سے کوئی بات نہ کی۔ میں نے فیروز سے کہا یہ مجھے دیکھ کر پریشان کیوں لگ رہے ہیں کوئی بات ہی نہیں کر رہے۔ اس نے کہا کہ پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ نئے آئے ہیں۔ اس لئے چپ چپ ہیں۔ اور دوسری بات یہ کہ ہم بلوچستانی عموماً اتنے جلدی کسی کے ساتھ بے تکلف نہیں ہوتے۔ ہم جلدی میں کوئی دوست نہیں بناتے اگر ایک بار بنا لیں تو پھر آخری دم تک ساتھ نبھاتے ہیں۔

باتوں ہی باتوں میں بات نا اہل اور ناقابل لوگوں اور چیزوں پر آ گئی تو فیروز نے کہا جس چیز کی جو اوقات ہوتی ہے وہ وہاں پہنچ کے رہتی ہے۔ مثلاً تم نے اچھی چیزوں کو بری جگہ پر اور بری چیزوں کو اچھی جگہ پر دیکھا ہوگا اور اس پر بارہا افسوس بھی کیا ہوگا۔ میں نے کہا بالکل کئی بار۔ تم نے کتابوں کو فٹ پاتھ پر بکتے ہوئے بھی دیکھا ہوگا اور جوتوں کو اے سی رومز میں شیشے میں سجے ہوئے بھی دیکھا ہوگا۔

میں نے کہا جی بالکل اور اس پر افسوس بھی کیا ہے۔ اس نے کہا لیکن اگر تم اپنی سوچ اور نظر کو تھوڑا آگے لے جاؤ تو تمہیں نظر آئے گا کہ جوتے اے سی رومز سے نکل کر پاؤں میں آ جاتے ہیں اور گردوغبار پھانکتے ہیں۔ مگر کتابیں گردوغبار سے، فٹ پاتھ سے اٹھ کر اے سی رومز میں، الماریوں میں، اور میزوں پر آ جاتی ہیں۔

ابھی یہ باتیں ہو ہی رہی تھیں کہ تنویر کمرے میں داخل ہوا۔ سلام دعا کے بعد اس نے سب لڑکوں سے خاص طور پر فیروز سے باتیں شروع کر دیں۔ کسی کسی وقت وہ بلوچی میں بھی باتیں کرنے لگتے تو میں ان کے چہرے تکتا رہ جاتا۔ فیروز نے کہا معذرت! اس طرح اجنبی زبان میں بات کرنا ہے تو محفل کے اصولوں کے خلاف لیکن بات ہی ایسی ہے۔ پھر کہتا ہے یہ نہ سمجھنا کہ ہم تجھے گالیاں نکال رہے ہیں۔ میں نے کہا سمجھ نہ آئے تو گالی نہیں لگتی۔

پھر تنویر نے کہا کہ یار آج ایک بات پر بڑا افسوس ہوا۔ آج ایک استاد نے ہم سے اپنا اپنا تعارف کروانے کا کہا تو ایک لڑکے نے اپنی آستینیں چڑھائی ہوئیں۔ گریبان کے بٹن کھولے ہوئے۔ سامنے آ کر کہا میرا نام فلاں ہے اور میں کوئٹہ سے ہوں۔ تنویر نے کہا کہ مجھے اس کے ذاتی فعل سے کوئی سروکار نہیں لیکن اس نے بلوچستان کا نام خراب کیا ہے مجھے اس کا افسوس ہے۔ کچھ دیر بعد ان سب کا کھانا آ گیا انہوں نے ہمیں بھی دعوت دی لیکن میں نے کہا ہم کھا چکے ہیں۔

تنویر اٹھ کر کھڑا ہوگیا اور بلوچی میں فیروز سے کچھ کہا۔ فیروز مجھے کہتا یہ کہہ رہا ہے کہ یہ ہماری روایت کے خلاف ہے کہ مہمان بیٹھا رہے اور ہم کھاتے رہیں۔ کھانا تو تمہیں بہرحال پڑے گا۔ ہم بھی کھانے میں شامل ہوگئے کھانے کے بعد میں نے اجازت چاہی تو سب نے کھڑے ہوکر مجھے رخصت کیا۔ فیروز میرا بیگ اٹھائے ہوئے دروازے تک آیا اور گلے مل کر خدا حافظ کہا۔ جب میں وہاں سے چلا آیا تو مجھے ایسے لگ رہا تھا کہ میں کچھ بھول آیا ہوں۔ دفعتاً مجھے خیال آیا کہ میں اپنا دل تو وہیں بھول آیا ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments