وینس، ویرونا اور روم


وینس کے آبی شہر میں شام اترنے لگی تھی۔ میں نے سینٹ مارکو کی سوینئر شاپ سے ایک عدد ماسک بطور نشانی خریدا۔ گھاٹ پر لگی واٹربس پر سوار ہوگیا۔ گرینڈ کنال سے ادھ گھنٹہ میں سانتا لوسیا ٹرین اسٹیشن پہنچ گیا۔ کہتے ہیں کہ دنیا کے تمام راستے روم جاتے ہیں۔ گزشتہ سال میں نے روم کے تریوی فوارے (Trevi Fountain) کے شفاف پانی میں سکہ ڈالتے ہوئے اپنے اللہ سے روم دوبارہ آنے کی دعا مانگی تھی۔ یہ دعا قبول ہوئی اور اب میں روم جانے کے لئے وینس کے ٹرین اسٹیشن پر موجود تھا۔

جولائی کا خوبصورت مہینہ پورے یورپ میں ٹورسٹ کا مہینہ جانا جاتا ہے۔ وینس کا ٹرین اسٹیشن سیاحوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ مجھ سمیت ہر طرح کے سیاح یہاں جمع تھے۔ روم جانے والی ٹرین نے 11 بجے رات روانہ ہونا تھا۔ مسئلہ یہ تھا کہ 11 بجے والی ٹرین میں کوی سیٹ بھی خالی نہیں تھی۔ تاہم کھڑے ہوکر یا پھر دروازوں کے ساتھ خالی جگہوں پر بیٹھ کر سفر کیا جاسکتا تھا۔ کوی چارہ نہیں تھا۔ وینس میں شام کے پانچ بج رہے تھے۔

میں سارا دن کا تھکا جوتے اتارٹرین اسٹیشن کے ایک کونے میں نیم دراز ہوگیا۔ کچھ دیر بعد میں نے اپنے شولڈر بیگ سے ٹرین ٹائم ٹیبل نکالا کر پڑھنا شروع کیا۔ اندازہ ہوا کہ وینس کے علاوہ ویرونا سے بھی روم کے لئے ٹرین جاتی ہیں۔ دوبارہ ٹکٹ کھڑکی کے پاس گیا اور وہاں موجود صاحب سے درخواست کی کہ اگرویرونا سے روم جانے کے لئے سیٹ مل جائے تو یہ پردیسی دعائیں دے گا۔ ٹکٹ والے اطالوی بابو نے دو تین منٹ کمپوٹر پرلگائے اور مجھے یہ خوشخبری سنائی کہ ویرونا سے آج رات ساڑھے گیارہ بجے کی ٹرین اطالیہ میں سیٹ موجود ہے۔

میں نے فوراً سے ہاں کردی۔ ساتھ ہی اس سے پوچھا کہ ویرونا والی ٹرین یہاں سے کب چلے گی۔ اس نے ایک نظر میری طرف دیکھا اور ٹکٹ دیتے ہوئے کہا کہ اگلے پانچ منٹ میں پلیٹ فارم نمبر 2 سے ویرونا کے لئے ٹرین جانے والی ہے۔ بھاگم بھاگ گاڑی کے ڈبے میں جاکر دم لیا۔ ٹرین ویرونا کی طرف روانہ ہوی۔ اب میری منزل ویرونا تھا جو شیکسپیر کے شہرہ آفاق ڈرامہ ”رومیو جولیٹ“ کی ہیروئن جولیٹ کا شہر ہے۔

وینس سے ٹرین نے ڈیڑھ گھنٹے میں ویروناپہنچا دیا۔ اسٹیشن سے جولیٹ کا گھر معلوم کیا اور پیدل ہی چل پڑا۔ ویرونا دریائے آڈی جے ( Adige ) کے کنارے خوبصورت، کشادہ اور آینۂ کی طرح صاف شہر ہے۔ اسٹیشن سے تھوڑے ہی فاصلہ پر شہر کا قدیم علاقہ شروع ہو جاتا ہے ۔ شہر کی تمام اہم تاریخی عمارات اسی Down Town کے علاقہ میں پای جاتی ہیں۔ آدھ گھنٹہ کی خوشگوار لیکن تھکا دینے والی واک کے بعد میں جولیٹ کے گھر کے سامنے تھا۔

شام کے سات بج رہے تھے۔ گھر بند ہو چکا تھا۔ تاہم ابھی بھی سیاحوں کی بڑی تعداد گھر کے باہر موجود تھی۔ گھر کے ساتھ گلی میں بہت سی دکانیں کھلی تھیں۔ باہر کی طرف چھوٹا سا Casa di Guilietta لکھا ہوا ہے۔ جولیٹ کے گھر کے باہر دروازے کے ہر طرف محبت کرنے والوں نے اپنے پیاروں کے نام لکھ رکھے ہیں۔ دیوار کا کوی ایک کونہ بھی ناموں سے خالی نہ تھا۔ معلوم ہوا کہ پجھلے سالوں میں یہاں بہت سی پرچیاں اور نوٹ بھی محبت کرنے والے لکھ کر لگا جاتے تھے۔ شاید اس خیال سے کہ سنگ دل محبوب موم ہو سکے۔ لیکن اب انہیں شہر کی انتظامیہ نے اتار دیا ہے۔

اس گھر سے ایک کلومیٹر کے فاصلے پر جولیٹ کی قبر ہے۔ تھکاوٹ سے برا حال ہورہا تھا۔ جولیٹ کے لئے یہیں سے نیک تمنائیں بھیجیں اور کھانے کی تلاش شروع کی۔ جولیٹ کے گھر اور اسٹیشن کے درمیان ویرونا ایرینا ( Verona Arena) کے نام سے پہلی صدی عیسوی کا بنا ایمپی تھیٹر (Ampitheater) موجود ہے اور آج بھی قابل استعمال ہے۔ بڑے میوزک کنسرٹ یہیں منعقد ہوتے ہیں۔ اس کے قریب موجود ریستوران میں کھانا کھا کر وی رونا اسٹیشن واپس پہنچ گیا۔ نمازیں ادا کی۔ کافی کا کپ لے کر ریسٹ روم میں آ بیٹھا۔ روم کا نقشہ کھول کر اپنے آنے والے دن کی تیاری کرنے لگا۔

ٹرین اطالیہ کی نائٹ کوچ میں چھ چھ افراد کے لئے ڈبے بنائے گئے ہیں۔ عام طور پر اس طرح کی نائٹ ٹرین مجھ جیسے جہاں گردکے لئے بہت موزوں ہے۔ وقت اور پیسہ کی مناسب بچت ہو جاتی ہے۔ ہوٹل کے بجائے رات ٹرین میں گزاری جائے اور دن میں شہرکا طول و عرض ناپا جائے۔ قسمت دیکھیے، میرے اس کمپارٹمنٹ میں ایک بنگلہ دیشی، ایک انڈین اور مجھ سمیت دو پاکستانی تھے۔ رات گہری ہوگئی تھی۔ ٹرین تاریکی کا دبیز پردہ چیرتی روم کی طرف فراٹے بھرتی جارہی تھی۔

آسمان بالکل صاف اور تاروں سے بھرا تھا۔ ساڑھے گیارہ بجے سے ایک بجے رات تک میں نے بہت تسلی سے آرام کیا۔ رات ایک بجے دو لحیم شحیم جرمن خواتین اسمیں مزید سوار ہوئیں۔ تھکاوٹ کی وجہ نیند آنکھوں میں اتری ہوی تھی۔ صبح کے ساڑھے پانچ بجے آنکھ کھلی۔ ٹرین ٹھیک چھ بج کر دس منٹ پر روم کے ٹرین اسٹیشن ( Tiburtina ) پر پہنچ گئی تھی۔ یہاں سے میں نے انڈر گراونڈ ٹرین (Metro) لی اور روم کے مرکزی ٹرین اسٹیشن Termini پہنچ گیا۔

روم کامرکزی ٹرین اسٹیشن ٹرمینی (Termini Rome) اور پیرس کا گاردی نورڈ (Gare du nord Paris) میری سفری یادداشتوں کے بہت اہم اور خوب صورت سنگ ہائے میل ہیں۔ ان کے ساتھ بعد کے سالوں میں بہت گہرا رشتہ قائم ہوا۔ بارہا ان دونوں ٹرین اسٹیشنوں کے قرب و جوار میں رکنے اور یہاں سے سفر کرنے کے نادر مواقع میسر آئے۔ Termini ٹرین اسٹیشن کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ یہاں روزانہ آٹھ سو گاڑیاں آتی اور جاتی ہیں۔ اسٹیشن کے سامنے ہی روم کامرکزی بس ٹرمینل ہے۔ ریسٹ ایریا میں جاکر منہ ہاتھ دھویا، کپڑے تبدیل کیے اور ناشتہ کے لئے Termini اسٹیشن کے ایک ریستوران میں آ بیٹھا۔ گرم کروسان (Croissant) اور کافی کے کپ کے ساتھ دن کا آغاز ہورہا تھا۔

روم ایک دفعہ دیکھنے والا شہر نہیں ہے۔ لیکن اگر امریکن شہریوں کی طرح things to do والی لسٹ لے کر seen ہی لکھنا ہے تو وہ بات اور ہے۔ جس طرح شاندار کتاب یا بڑی فلم ہمیں ہر دفعہ پڑھنے اور دیکھنے پر نئے لطف سے ہمکنار کرتی ہے۔ اسی طرح خوبصورت اور شاندار شہر بھی اپنے چھپے خزانوں سے ہمیں سرشار کرتارہیتا ہے۔ میرے نزدیک جس شہر کو پسند کرتے ہیں اس کی feel اور اس کے ساتھ مانوسیت پیدا نہ ہو تو بات بنتی نہیں اور اس کے لئے یقیناً وقت دینا پڑتا ہے۔

میری آل ٹائم فیورٹ فلم گلیڈایٹر ( Gladiator ) ہے۔ اس فلم سے وابستگی نے روم اور Colosseum سے واقفیت کو شوق میں بدل دیا۔ Termini ٹرین اسٹیشن کے قریب ہی تاریخ کا یہ عظیم ترین شاہکار کلائسیم واقع ہے۔ ٹرمینی ٹرین اسٹیشن سے روم کی تقریباً تمام اہم تاریخی اہمیت کی حامل جگہوں تک رسائی بہت آسان ہے۔

‏Colosseum سے ویٹیکن سٹی تک کا علاقہ حیرت انگیز عجائبات و نوادرات سے بھرا ہوا ہے۔ روم میں دیکھنے کو بہت کچھ ہے۔ تاہم میری لسٹ میں Colosseum، کلیساسینٹ پیٹر، تریوی فاونٹین، پینتھن (Pantheon) اور Piza Novona زیادہ دل کو کھینچتے ہیں۔ روم میں قدم قدم پر تاریخ راستہ روکتی ہے۔ سڑک کے ہر موڑ پر جاذب نظر تاریخی عمارات، دیدہ زیب فواروں، اور عظیم الشان یادگاروں (Monuments) سے واسطہ پڑتا ہے۔ گاہے اطالوی نسوانی حسن بھی دیکھنے والوں کا ہوش اڑا لے جاتا ہے۔ تاہم میں نے شروع سے یہ بات پلے باندھ رکھی ہے کہ مسافر کے لئے سفر میں محبت اور دوستی سے پرہیز ہی بہتر ہے۔

موسم میں آج کافی حدت تھی۔ نقشہ سے ویٹیکن کا روٹ معلوم کیا اور انڈرگرانڈ ٹرین جسے یہاں میڑوکہا جاتا ہے، سوار ہوگیا۔ میڑو نے 15 منٹ بعد ویٹیکن کے قریب ترین اسٹیشن پر اتار دیا۔ صبح کے نوبج رہ تھے میں عیسائیت کے مرکز وٹیکین کے سینٹ پیٹر سکوآئر پر موجود تھا۔ کلیسائے سینٹ پیٹر کے تہہ خانے میں 28 پوپ بشمول سینٹ پیڑ مدفون ہیں۔ تاریخ، آرٹ اور آرکیٹیکچر کے بے مثال شاہکار یہاں جمع ہیں۔ میں اس سے پہلے بھی یہاں آ چکا ہوں۔

اس دفعہ میں نے خاص طور پر ویٹیکن میوزیم اور Sistine Chapel میں مائیکل انجلیو کا آرٹ ورک دیکھنا ہے۔ تاریخ اور آرٹ سے دلچسپی رکھنے والوں کو یہاں ضرور آنا چاہیے۔ یورپ نے اپنے ماضی کو محفوظ کیا ہے۔ عجائبات و نوادرات کی حفاظت کی ہے۔ خاص و عام کے لئے ان کی نمائش کا اھتمام و انتظام کیا ہے۔ یہ سب انتہائی شاندار اور قابل تعریف ہے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ بہترین مارکیٹنگ کی صلاحیتوں کے ساتھ ان تمام مقامات سے گراں قدر آمدن بھی حاصل کر رہے ہیں۔ مجھے یہ جان کر حیرت ہوئی کہ صرف روم کے تریوی فوارے ( Travi Fountain ) میں ایک سال میں ڈالے جانے والے سکوں کی مالیت چودہ لاکھ یورو سے زائد ہے۔ جبکہ پیرس کے ایک عجائب گھر ”لوور میوزیم“ (Louvre Museum) کی سالانہ آمدن 112 ملین یوروکو چھو رہی ہے۔

ایک ہم ہیں کہ لیا اپنی ہی صورت کو بگاڑ
ایک وہ ہیں جنہیں تصویر بنا آتی ہے

دن ڈھل چکا تھا۔ شام کے سائے آھستہ آھستہ اندھیرے میں تبدیل ہورہے تھے۔ خوبصورت سڑیٹ لیمپ قندیلوں کی صورت جگہ جگہ روشن ہورہے تھے۔ میں روم کے گنجان آباد علاقہ میں، اٹھارہویں صدی ( 1725 ء) کی بنی مشہور زمانہ اسپینش سیڑھیوں پر بیٹھا ہوں۔ سیاحوں کی بڑی تعداد سارا دن کی بھاگ دوڑ کے بعد ان سیڑھیوں پر سستانے کے لئے جمع ہوتی ہے۔ یہ سیاحوں کا روم میں میٹنگ پوائنٹ ہے۔ جہاں میں بیٹھا ہوں یہاں سے ایک فلیٹ اور اس پر بنی اٹالین کھڑکیاں میری آنکھوں کے سامنے ہیں۔ دوکھڑکیوں کے درمیان ایک جھوٹا سا کتبہ لگا ہے۔ جس پر اس مفہوم کی عبارت ہے ”اس فلیٹ میں انگریزی زبان و ادب پر انمٹ نقوش چھوڑنے والے باکمال شاعر جان کیٹس (John Keats) نے اپنی 25 سالہ زندگی کی آخری سانسیں لی ہیں۔“ میں خوبصورتی کے دل آویز شاعر کو یاد کرتا ہوں۔

فسوں خیز روم، صدیوں پرانی سنگ مرمر کی سیڑھیاں اور بے مثال شاعرکیٹس کی یاد۔
اس شام اور کیا چاہیے۔
آسماں حد نظر
راہ گزر راہ گزر
شیشہ مئے شیشہ مئے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments