کراچی کے کوچے کوچے میں کچرا


کراچی پاکستان کا پرانا دارالحکومت تھا جیسے بعد میں اسلام آباد منتقل کر دیا گیا۔ کراچی پاکستان کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ کراچی کو منی پاکستان بھی کہا جاتا ہے۔ یہاں پر ہر نسل، رنگ، مذہب سے تعلق رکھنے والے لوگ رہتے ہیں۔ کراچی نے تو سب کو پناہ دے دی مگر وہ خود آج سب سے پناہ مانگ رہا ہے۔ پاکستان کا 65 فیصد ریونیو کراچی دے رہا ہے۔ تمام صوبہ مل کر بھی اس کے مسائل کو حل نہیں کروا سکے۔ کراچی میں دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ کا مسئلہ تو تھا ہی مگر یہاں پر بڑھتا ہوا مسئلہ کوڑا کرکٹ کا ہے۔ 1947 ء میں کراچی کی آبادی چار لاکھ تھی مگر اب دو کروڑ ہو گئی ہے۔

کراچی کے کچرے پر ہر سیاسی جماعت اپنی اپنی سیاست چمکانے میں مصروف ہے۔ کوئی وسائل کا اور کوئی اختیارات رونا رو رہا ہے۔ مئیر کراچی کہتا ہے کہ میرے پاس اختیارات کی کمی ہے۔ سندھ حکومت وفاق سے شکوہ کرتی نظر آتی ہے۔ اگر کوئی حکومت کو ذمہ داریوں کا احساس دلانا چاہے تو اسے جیل میں ڈال دیا جاتا ہے۔ یہاں پر مصطفٰی کمال جیسے لوگوں کا کردار کبھی بھلا نہیں سکتے جس کی کاوشوں سے کراچی کا تھوڑا چہرہ نظر آیا۔

آج کل کراچی ہر نیوز چینل پر چھایا ہوا ہے۔ ہر سیاسی جماعت نے یہاں پر راج کیا مگر کوئی بھی کچرے کے مسائل کو حل نہ کروا سکا۔ کبھی ایم کیو ایم نے عوام کو جھوٹی امیدیں دے کر ووٹ حاصل کیا اور کبھی بھٹو کے نام پر سیاست کر کے عوام کے ساتھ دھوکا کیا گیا۔ پچھلے گیارہ سالوں سے پی پی پی صوبہ میں حکومت کرر ہی ہے مگر کراچی کے لوگوں کو ریلیف دینے میں مکمل طور پر ناکام رہی۔ کراچی میں کچرے کی حالت بد سے بدتر ہوتی جا رہی ہے۔

کراچی جو روشنیوں کا شہر تھا اسے اندھیروں میں دھکیلنے میں سب نے اپنا اپنا حصہ ڈالا۔ کراچی کو صاف ستھرا بنانے کے عزم کے ساتھ کئی بار کوشش کی گئی۔ مگر سیاسی مفادات کی خاطر عوام کے مفادات کو نظر انداز کیا گیا۔ حکمرانوں کی اپنی رنجشوں کی وجہ سے عوام کا جینا محال ہوا ہے۔ کراچی میں کسی بھی جگہ کچرے کو ٹھکانے لگانے کا کوئی بھی انتظام نہیں کیا گیا۔ گلی محلوں میں پڑے ہوئے کچرے کے ڈھیر حکومتی نا اہلی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

سندھ حکومت اس معاملہ کو سنجیدگی سے لینے کی بجائے دوسروں پر کیچڑ اچھالنے میں مصروف ہے۔ کوئی بھی سیاسی جماعت یا کوئی بھی ادارہ ذمہ داری قبول کرنے کو تیار نہیں۔ کے ایم سی اور ایس ایس ڈبلیو ایم بی دونوں ادارے اپنے وسائل کم ہونے کی وجہ سے کراچی کو کچرے سے پاک نہیں کر سکے۔ نالوں میں کچرے کی وجہ سے کراچی کا نکاس آب کا نظام شدید متاثر ہوا ہے۔ بارشوں کی وجہ سے کچرے میں بدبو کے ساتھ ساتھ بہت سی بیماریاں بھی جنم لے رہی ہیں۔ لوگ کئی قسم کی بیماریوں میں مبتلا ہو رہے ہیں۔ کچرے نے کراچی کی عوام کا جینا محال کر دیا ہے۔

کراچی میں روزانہ کی بنیاد پر لاکھوں ٹن کچرا پیدا ہو رہا ہے۔ ایس ایس ڈبلیو ایم بی کے مطابق روزانہ تیرہ ہزار ٹن کچرا لوگ گھروں باہر پھینکتے ہیں مگر چھ سے سات ہزار ٹن کچرا اٹھایا جاتا ہے۔

فکس اٹ نے اپنے وسائل کو استعمال کرتے ہوئے کراچی میں کئی جگہ پر صفائی کا کام سر انجام دیا۔ اب حال ہی میں پی ٹی ای کے وفاقی وزیر نے صفائی مہم کا آغاز کر کے کراچی کی عوام کو ایک اور نئی امید دلائی تھی مگر افسوس اس مہم کا نتیجہ بھی وہی نکلا۔ میڈیا پر کچرے کو لے کر عجیب ڈرامے ہو رہے ہیں مگر کوئی بھی اس معاملے کو حل کرنے کے لیے سنجیدہ نہیں ہے۔ روشنیوں کا شہر دوبارہ سے اپنی اصلی حالت میں آنے کے لیے اپنے مسیحا کا منتظر ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments