پاکستانی عوام کا سیاسی شعور یا فتور


ہر عام کی طرح میرے احباب کی فہرست زیادہ طویل نہیں، چند ہی ایسے مخلص دوست ہیں جن سے نہ صرف قلبی تعلق ہے بلکہ ذہنی ہم آہنگی کی بنا پر جب بھی ملتے ہیں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ قیس کی جنگل کی تنہائی ہی نہیں کٹی بلکہ دیوانوں کی تعداد میں اضافہ ہو گیا ہے۔ وفا اور نمک حلالی کے بحران میں میرے چند دوست ایسے بھی ہیں جن کو ہمارے سیاسی قائدین سے اتنا شدید لگاؤ ہے کہ وہ اپنے محبوب قائدین کی خاطر دن کے اجالے کو رات کہنے سے نہیں چوکتے اور اب بھی اپنی تمام تر تعلیمی و ذہنی قابلیت کے ساتھ موجودہ سیاسی نظام کے کرتا دھرتا حضرات سے اپنی آخری امیدیں لگائے اپنی زندگی کے سنہرے دن کاٹ رہے ہیں کہ شاید ابھی مداری کے چغے میں کوئی ایسا سحر سامری ہو جس کے پھونکنے سے نہ صرف پاکستان کے تمام مسائل حل ہو جائیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ آئی ایم کا قرضہ، بے روزگاری، مہنگائی اور تمام نام نہاد مافیاز کا خاتمہ بھی ہو جائے جن کی وجہ سے واحد اسلامی ایٹمی طاقت ایشین ٹائیگر بن جائے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسی کوئی تعلیمی سند ہو جس سے ہمیں نہ صرف کھوٹے اور کھرے کا علم ہو جائے بلکہ سیاسی مداریوں کی شعبدہ بازی کو سمجھنے میں بھی آسانی ہو؟ دیکھا جائے تو ہماری سیاسی منڈی میں نہ صرف جھوٹ بہت مہنگے داموں بک رہا ہے بلکہ دھڑا دھڑ بک رہا ہے، غریب کا کوئی پرسان حال نہیں، نظام جوں کا توں موجود ہے، ہر آدمی اپنے آپ کو ایک سیاسی تجزیہ کار سمجھتے ہوئے اپنے قریبی دوست پر اپنے نظریات تھوپنے کی کوشش میں مصروف ہے۔ مسلم لیگ (ن) ، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کے جذباتی حامی اپنے اپنے لیڈر کے نظریات کا جس شد و مد سے پرچار کرتے ہیں وہ نہ صرف ناقابل فہم ہے بلکہ کبھی کبھی تو ہنسی کے ساتھ ساتھ رونا بھی آتا ہے کہ جھوٹ پر مبنی نظریات کا کتنی ڈھٹائی اور غیر پیشہ ورانہ انداز میں دفاع کیا جاتا ہے۔

پاکستان کی 72 سال کی تاریخ اٹھا لیں سکندر مرزا سے لے کر وزیر اعظم عمران خان تک ہماری قوم میں ابھی تک وہ سیاسی بیداری نہیں آ سکی جو کسی عظیم قوم کا خاصہ ہوتی ہے یقین نہیں آتا تو ابھی کسی شدید العقائد سیاسی دوست سے کوئی بات اس کی سیاسی جماعت کے خلاف منوا لیں، یقین کریں وہ ایڑی چوٹی کا زور لگائے گا کہ آپ کے دن کی روشنی کی طرح سفید سچ کو جھوٹ ثابت کر سکے اس مقصد کے حصول کے لئے وہ رٹے رٹائے اور من گھڑت اعداد و شمار بھی لائے گا اور اگر وہ غلطی سے آپ کے سامنے موجود نہیں تو وہ ہر ممکن کوشش کرے گا کہ سوشل میڈیا سے مواد نقل کر کے آپ کو بھیج سکے اس کی چھوٹی سی مثال دیتا چلوں کہ چند ماہ پہلے ہمارے کپتان کے منہ سے نادانستہ یہ فقرہ نکل گیا کہ ترک قوم نے ہندوستان پر چھ سو سال تک حکومت کی اس بیان کا دفاع کرنے کے لئے کہیں سے یہ منطق گھڑ کر لائی گئی کہ مغل چونکہ منگول تھے اور منگول خان اعظم چنگیز خان ترک النسل تھے تو ظاہر ہے ہم پر ترکی نے ہی حکومت کی اور میں انگشت بدنداں اس دلیل پر بیٹھا ہنس رہا تھا۔ حالت یہ ہے کہ اگر آپ نے غلطی سے سیاسی حالات سے لطف اٹھانے کی خاطر مذاق میں بھی چند جملے لکھ دیے ہیں تو سیاسی خیر خواہان کی فوج ظفر موج لٹھ لے کر آپ کے پیچھے پڑ جاتی ہے اور گالی گلوچ سے آپ کی تواضع کی جائے گی۔

ہم ایک ایسی بد قسمت قوم ہیں جسے کبھی بھی سیاست کی سمجھ بوجھ اور اپنے حقوق کے بارے میں نہیں بتایا گیا۔ ہمیں نہ تو ایک ایم پی اے اور ایم این کے فرائض کا علم ہوتا ہے اور نہ ہی اپنے حقوق کی خبر، ہمیں تو یہ علم بھی نہیں ہوتا کہ اگر ہم کسی امیدوار کو اپنا قیمتی ووٹ دے رہیں تو کیوں دے رہے ہیں۔ شہروں میں تو الیکٹرانک اور سوشل میڈیا مہم کے ذریعے باقاعدہ الیکشن جیتنے کی فضا بنائی جاتی ہے لیکن دیہی علاقوں میں ہم اپنے خاندان کے بزرگ کے پیچھے کھڑا ہونے پر مجبور ہوتے ہیں یا ہمسائے امیدوار کو یہ سوچ کر ووٹ دیتے ہیں کہ اگر کام پڑ گیا تو دور دراز کا سفر تو نہیں کرنا پڑے گا۔

چہرے بھی وہی رہتے ہیں لیکن ہر بار وہ نئی سیاسی جماعت کا ماسک لگا کر پارلیمنٹ کا حصہ بن جاتے ہیں۔ جیسے ہی الیکشن نزدیک آتے ہیں سیاسی مداری اور گرو اپنا اپنا منجن بیچنے کے لئے نہ صرف سڑکوں پر بلکہ اپنے اپنے خرید کردہ چینلز کے سٹوڈیو پر برا جمان نظر آتے ہیں جہاں ان کی حتی المقدور کوشش ہوتی ہے کہ اپنے کوے کو سفید ثابت کر سکیں اور اس مقصد کے حصول کے لئے وہ سیاسی بازار سے ایسے ایسے ڈرامہ باز جمع کر لیتے ہیں جن کا کام ہی یہی ہے جن میں شیخ رشید، دانیال عزیز، فیاض الحسن چوہان، فواد چوہدری، رانا ثنا اللہ جیسے کئی مقتدر ہستیاں قابل ذکر ہیں۔

کہتے ہیں کہ انتخابات سے پہلے حلقے کا امیدوار ایک بزرگ ووٹر کے گھر گیا اور اسے پانچ ہزار روپے دیتے ہوئے کہا کہ ووٹ مجھے ہی دینا ہے۔ اور یہ پیسے پولنگ والے دن آپ لوگوں کی آمد و رفت کا خرچ ہے۔ غریب بزرگ نے پانچ ہزار کا نوٹ واپس کرتے ہوئے کہا ”بیٹا! ووٹر تو ہم تمہارے ہیں لیکن یہ پیسے رکھ لے، ہمیں ایک گدھا خرید دے، غریب لوگ ہیں، ہمارا روزگار کا ذریعہ بن جائے گا۔ امیدوار نے اپنے دیگر کارکنان کے ذمے لگایا کہ اس چاچے کو گدھا خرید کر دینا ہے۔

بازار میں سستے سے سستا گدھا بھی اسی ہزار سے کم کا نہیں مل رہا تھا۔ امیدوار دوسرے دن چاچے کے پاس گیا اور اسے پانچ ہزار کا نوٹ دوبارہ دیتے ہوئے کہا ”بزرگو! سستے سے سستا گدھا بھی اسی ہزار کا مل رہا ہے۔ تم بس یہ پیسے رکھ لو۔ بزرگ نے امیدوار کو رقم واپس دیتے ہوئے کہا: بیٹا، ایک سستے سے سستے گدھے کی قیمت بھی اسی ہزار روپے ہے اور تو مجھے ایک گدھے کی قیمت سے بھی کم میں خریدنا چاہتا ہے۔

انتخابات کے دن جیسے ہی نزدیک آتے ہیں الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر یہی خبریں چلنا شروع ہو جاتی ہیں کہ فلاں نے فلاں سیاسی جماعت کی اہم وکٹ اڑا دی، الیکٹیبلز کی خرید و فروخت کا دھندا عروج پر ہوتا ہے۔ لیکن ہم عوام وہی تماشائی کے تماشائی ہی ہیں جو پویلین میں صرف نعرے لگانے یا گالوں پہ جھنڈے بنوانے اور جھنڈے اٹھانے کے کوئی کام نہیں کر سکتے بس آوے، آوے اور جاوے جاوے کے علاوہ ہمیں الیکشن کے دنوں میں جھنڈے، پرانے پینا فلیکس ( جن سے ہم نے جانوروں کو سردی سے بچانے کے لئے ان کی رہائش کا کمرہ بنانا ہوتا ہے ) اور گھر کے تمام افراد کے لئے سیاسی جماعت کے مخصوص نشان والی ٹوپیاں بچتی ہیں، یا مشکل سے ایک وقت کا کھانا۔

کہنے کا مقصد یہ ہے کہ دیتے ہیں دھوکا یہ بازی گر کھلے کے مصداق مداری وہی ہیں، میدان وہی ہے، اور تماشائی وہی ہیں لیکن سیاسی جمہورے ہی ادھر ادھر ہو رہے ہیں۔ سب ممکن ہے کی روایت صرف ہمارے ملکوں میں کیوں؟ ہم کب تک شخصیت پرستی کی بنیاد پر ان سیاسی مداریوں کی ڈگڈگی پر ناچتے رہیں گے؟ ہم عوام کب تک ان مداریوں کا بندر اور بکرا بن کر ان کا پیٹ پالتے رہیں گے؟ کسی دوست نے پوچھا کہ اس صورتحال کا کیا حل ہے؟ میری نظروں میں عوامی شعور کو اجاگر کرنے کے لئے سول سوسائٹی اور اساتذہ اپنا کردار ادا کریں۔

خاص طور پر آگاہی مہم چلائی جائے جس میں این جی اوز اور تعلیم یافتہ لوگ عوام کو اپنے ووٹ کی قیمت اور اہمیت سے آگاہ کریں دوسری اہم بات اگر غریب کو انصاف فراہم کیا جائے تو وہ کسی بھی وڈیرے یا چٹی دلال سے نہیں ڈرے گا اور بلا خوف و خطر اپنے ووٹ کا درست استعمال کرے گا۔ مجھ سے کسی دوست نے سوال کیا کہ ہمارے علاقے میں تو وہی پرانے سیاسی چہرے ہیں ہمیں ہمیشہ ان کو ہی ووٹ دینا پڑتا ہے اب اس صورت حال میں ہمیں کیا کرنا ہوگا؟

میں نے کہا ”جب انسان کا لباس پرانا اور میلا ہو جاتا ہے اور وہ نیا لباس خریدنے کی استطاعت بھی نہیں رکھتا تو وہ کیا کرتا ہے؟ وہ اس پرانے لباس سب سے پہلے دھوتا ہے اور اگر کپڑا سفید ہو تو نیل بھی لگاتا ہے، داغ دور کرنے کرنے کے لئے بلیچ کا استعمال بھی کرتا اور کلف لگا کر بڑی شان سے پہنتا ہے۔ اگر ہم یہی کام اپنے سیاسی نمائندوں سے کریں اور وقتاً فوقتاً ان کا آڈٹ کرتے رہیں تو یہ ناممکن ہے کہ مستقبل کے آمدہ الیکشن تک وہ درست انداز میں کام نہ کرے۔ اس لئے آئیے سب مل کر اپنے حقوق کی جنگ سوشل میڈیا پر کاپی پیسٹ کر کے نہ لڑیں بلکہ اپنی آنکھیں کھلی رکھتے ہوئے، اپنے گرد و پیش پر نظر رکھ کرفیصلہ کریں کہ کون سا امیدوار یا سیاسی جماعت ملک و قوم کے لئے مفید ہے۔“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments