ایدھی: جمانہ بڑا جالم ہو گیا ہے


آہ بابائے انسانیت۔ جمانہ بڑا جالم ہو گیا ہے۔ آج بابائے انسانیت ایدھی صاحب کی برسی پر معاشرے کی بے حسی پر ایدھی فاؤنڈیشن میں گزرے ایام کے چند لمحے ذہن میں گردش کر رہے ہیں جن لمحوں میں بندہ کو اس عظیم انسان کو قریب سے دیکھنے کا شرف حاصل ہوا۔ تو سوچا کیوں نہ ٹیڑھے میڑے الفاظ میں ایک دو لمحوں کو آپ احباب کے پیش خدمت عالیہ کروں۔ لیکن رکھیے۔ کچھ بھی لکھنے سے پہلے احباب سے عرض کرتا چلوں کہ آپ بھی آگے بڑھنے سے پہلے دل میں تہیہ کر لیں کہ آپ مکمل مضمون پڑھنے کے بعد مجھے ان القابات سے نہیں نوازیں گے جن القابات سے ان کو نوازا گیا کیونکہ میں سیدھا سادہ سنی مسلمان ہوں۔ ڈر بھی بڑا لگتا ہے۔ اور نہ ہی ایدھی جیسا سینہ رکھتا ہوں جو ان تمام القابات سے متصف ہونے کے باوجود انسانیت کی خدمت کرتا رہا ان کے لیے بھیک مانگتا رہا اور کھلاتے کھلاتے مر گیا۔

ہر شخص کسی بھی شخص کے بارے اپنا نظریہ رکھتا ہے لیکن خدارا اس نظریے کی بنیاد پر کفر و اسلام کی عمارتیں کھڑی نہ کریں۔ یہ کوئی مئی 2011 کی بات ہے۔ ہمیں وائرلیس پر مہران بیس کراچی پہنچنے کا کہا گیا۔ وہاں پہنچ کر معلوم ہوا کہ بیس پر دہشتگردوں نے حملہ کیا ہے۔

سیکورٹی اہلکاروں نے ہمیں بیس سے دور کھڑے رہنے کا کہا رات بھر فائرنگ کا سلسلہ جاری رہا۔ جیسے ہی کوئی سویلین زخمی ہوتا تھا۔ سیکورٹی اہلکار اسے ہمارے حوالے کرتے تھے۔ اگلی صبح کوئی 9 ساڑھے 9 بجے ایدھی صاحب حالات کا جائزہ لینے آئے تو ایدھی کے رضاکار ان کے ہاتھ تھامنے آگے بڑھے ایک ہاتھ تھامنے کا شرف بندہ کو حاصل ہوا اور دوسرے ہاتھ کو رضاکار افتخار شاہ ( جو ابھی بھی ایدھی فاؤنڈیشن میں رضاکار ہیں۔ ) نے تھاما۔

میڈیا والوں نے جیسے ہی ایدھی صاحب کو دیکھا تو دوڑے دوڑے آئے اور سوالات کی بوچھاڑ کردی۔ ایدھی صاحب انتہائی رنجیدگی کے عالم میں بالکل آہستگی کے ساتھ ایک ہی جواب دیے جا رہے تھے۔ اور دو ہی الفاظ میں کیا ہی کمال کا جواب تھا۔ جمانہ ( زمانہ) بڑا جالم ( ظالم) ہو گیا ہے۔

میں آج بھی سوچتا ہوں کہ زمانہ نہیں تو زمانہ والے واقعی ظالم ہو گئے ہیں۔ اور ایدھی صاحب کا مراد بھی شاید زمانہ والے ہی تھے۔ کیونکہ اس معاشرے میں جو بھی شخص ملک، قوم اور انسانیت کے لئے جو بھی خدمات سر انجام دیتا ہے۔ اس کے بدلے کوئی اس کو ہدف تنقید اس لیے بنا رہا ہوتا کہ وہ اس کا ہم عقیدہ نہیں ہوتا۔ کوئی اسلام کی خورد بین سے اس کے الحاد کی پیمائش لے رہا ہوتا ہے تو کوئی اسے لبرل اور لادین بنا کر غازی اسلام بن جاتا ہے۔ یہ کوئی نہیں سوچتا کہ جو بندہ عبدالستار کو عبدل ستار لکھے لیکن وہ انسانیت کے لیے بھیک مانگے اور وہی بھیک خود جمع کرنے کے بجائے انسانوں کو کھلاتے کھلاتے مر جائے اس فقیر کا ان جھمیلوں سے کیا لینا دینا؟ اس مسئلہ پر قرآن مجید کے حوالے بحث کی جا سکتی ہے لیکن مضمون کی طوالت کی ڈر سے پھر کبھی سہی۔

البتہ ناچیز نے بابا ایدھی کو فرض جمعہ کے دوران انسانیت کی خدمت کرتے دیکھا۔ ۔ ۔ استغفراللہ۔ اور فجر کی اذان سے 20 منٹ پہلے مسجد جاتے ہوئے بھی دیکھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سبحان اللہ۔ میں تو اس بندہ فقیر پر عقیدہ اور الحاد کی خوردبین لگا کر الحاد کا کیڑا ڈھونڈنے والے ماہرین کے بارے یہی کہتا ہوں کہ شاید انہیں پاکستان میں بندہ مزدور اور بندہ غریب کی اوقات کا ادراک نہیں۔ اور نہ ہی وہ سرکاری اداروں خاص کر سرکاری ہسپتالوں کی اذیت سے باخبر ہیں۔

اور اگر پھر بھی وہ اپنی ضد پر قائم ہیں تو ان سے عرض ہے کہ وہ سرکاری ہسپتالوں میں بکرے کا گوشت بالکل نہ کھائیں کیونکہ یہ اکثر اس ”ملحد“ کے ادارے سے ان ہسپتالوں کو مہیا کیا جاتا ہے۔ ایمبولینس کا استعمال بالکل نہ کریں کیونکہ پاکستان میں اس کافرانہ فعل کی بنیاد اسی ”ملحد“ نے رکھی ہے۔ خدا نخواستہ سرکاری ہسپتالوں خاص کر سول ہسپتال کے کسی ایسے وارڈ میں جائیں جہاں اے سی کا بندوبست ہو تو فوراً نکل جائیں کیونکہ یہ ایر کنڈیشنز اور چلرز اسی ”ملحد“ کے ادارے کی جانب سے مہیا کیے گئے ہیں۔

سی ٹی سکین مشین کا استعمال تو وہاں قطعاً نہ کریں اور زیادہ بس نہ چلے تو بس اتنا ہی کریں کہ ان کے دسترخوان پر جو غریب کھانا کھاتے ہیں ان کے کھانے کا انتظام یہ لوگ خود ہی کر لیں۔ ساتھ ساتھ اس سوال کا جواب بھی تلاش کریں جس بندہ کا خدا پر ایمان نہ ہو وہ کیونکر اتنی مشکلات کو شکست دے کر اتنا عظیم کام سر انجام دے سکتا ہے؟ اس عظیم کام کے لیے اللہ پر ایمان کے علاوہ اور کون سا جذبہ محرکہ ہو سکتا ہے؟ بس جمانہ بڑا جالم ہو گیا ہے۔ کہا سنا معاف۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments