تحریک انصاف کو سندھ میں پیپلز پارٹی کا مینڈیٹ قبول نہیں


شپنگ کے وفاقی وزیر علی حیدر زیدی نے سندھ حکومت کی طرف سے جاری کی گئی تین جے آئی ٹی رپورٹوں کو غیر مصدقہ اور متنازع قرار دیتے ہوئے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس گلزار احمد سے اپیل کی ہے کہ وہ سو موٹو ایکشن لے کر پیش کردہ رپورٹوں کی اصلیت سامنے لائیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ سندھ حکومت نے اپنے جرائم پر پردہ ڈالنے کے لئے ان رپورٹوں میں رد و بدل کیا ہے۔

وفاقی وزیر کو خاص طور سے عزیر بلوچ کے معاملہ میں جے آئی ٹی رپورٹ پر تحفظات ہیں اور ان کا دعویٰ ہے کہ اس تحقیقاتی کمیٹی میں وفاق کے نمائیندوں نے جو رپورٹ فراہم تھی ، وہ اس سے مختلف تھی جسے سندھ حکومت نے جاری کیا ہے۔ اس طرح وفاقی وزیر یہ دعویٰ کررہے ہیں کہ سندھ حکومت اپنی اعلیٰ قیادت کو بچانے کے لئے جعل سازی کی مرتکب ہوئی ہے۔ عملی طور پر وہ عزیر بلوچ جیسے سماج دشمن عناصر کی سرپرستی کے ذریعے عوام دشمن پالیسیوں پر عمل کرتی رہی ہے۔ فطری طور سے علی حیدر زیدی کا دعویٰ ہے کہ وہ اور ان کی پارٹی ہی اس ملک کی واحد سچائی ہے جو عوام کو پیپلز پارٹی اور اسی قبیل کی دیگر ’جرائم پیشہ ‘ پارٹیوں کے جبر سے نجات دلانے کا تہیہ کئے ہوئے ہے۔ اسلام آباد میں وفاقی وزیر اطلاعات شبلی فراز کے ساتھ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے علی زیدی نے کہا کہ اس معاملہ پر وزیر اعظم عمران خان بھی ان کے حامی ہیں ، اسی لئے شبلی فراز وفاقی حکومت کی نمائیندگی کے لئے ان کے ہمراہ موجود ہیں۔

جان لینا چاہئے کہ جب کسی وفاقی وزیر کو اپنی صداقت ثابت کرنے کے لئے ’گواہ‘ ساتھ لے کر میڈیا سے بات کرنا پڑے تو دال میں ضرور کچھ کالا ہے۔ ایک وزیر کی شعلہ بیانی اور دوسرے وزیر کی شہادت سے پیدا ہونے والی صورت حال سے تو یہی اندازہ ہوتا ہے کہ حکومت مسائل حل کرنے کی بجائے ان میں اضافہ کی شوقین ہے۔ اسے مفاہمت کے نام سے چڑ ہے اور وہ کسی بھی قیمت پر ایسی اکلوتی صوبائی حکومت کو زیر کرنے کے لئے پر عزم ہے جہاں اس کی سیاسی مخالف جماعت کی حکومت ہے۔

یہ معاملہ کسی سچ کو چھپانے سے زیادہ دو پہلوؤں کے حوالے سے قابل غور اور اہم ہوچکا ہے۔ ایک یہ کہ وفاقی حکومت کے ایک نمائیندے نے سندھ حکومت پر الزامات عائد کرکے باقاعدہ محاذ آرائی کا آغاز کیا ہے۔ علی حیدر زیدی نے اپنی حد تک تو یہ اعلان کیا ہے کہ وہ اس معاملہ کو کسی منصب کے حوالے سے سامنے نہیں لائے کیوں کہ ان کے بقول ’منصب آنی جانی شے ہے۔ وہ آج وزیر ہیں ، کل کو شاید وزیر نہ بھی ہوں لیکن وہ اس معاملہ سے پیچھے نہیں ہٹ سکتے‘۔ یوں علی زیدی نے اپنے قائد اور ملک کے وزیر اعظم عمران خان کی سنت پر عمل کرنے کا اعلان بھی کیا ہے ۔ وزیر اعظم بھی قومی اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے مائنس ون کی افواہیں کرتے ہوئے کہہ چکے ہیں کہ اگر مائنس ون ہو بھی گیا تو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ وزیر اعظم اور علی زیدی کی یہ بات درست ہے کہ ایک فرد کے جانے سے کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن انہیں جان لینا چاہئے کہ انہوں نے اپنی سیاست چمکانے کے لئے ملک میں نفرت پیدا کرنے کے جو ہتھکنڈے اختیار کئے ہیں، اس سے پیدا ہونے والا ماحول ضرور ملکی مفادات کے لئے زہر قاتل ثابت ہوگا۔ افسوس کا مقام یہ ہے کہ حکومت بطور ادارہ اور وزیر اعظم سے لے کر وزیر و مشیر اپنی انفرادی حیثیت میں نفرت ، دشمنی اور ضد کی سیاست ترک کرنے پر آمادہ نہیں ہیں۔

اس معاملہ کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ جب ایک وفاقی وزیر کسی بھی تحقیقاتی کمیٹی (جے آئی ٹی) کی رپورٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے اس کا وہ مسودہ پیش کرتا ہے جو بقول اس کے اس کمیٹی میں شامل وفاق کے نمائیندوں نے تیار کیا تھا اور جسے صوبائی حکومت نے جان بوجھ کر نظر انداز کیا اور جاری کی گئی رپورٹ کا حصہ نہیں بنایا تو اس کا واضح مقصد یہ ہے کہ ملک کی سیاسی قیادت ایک صوبائی حکومت کے ساتھ تنازعہ میں سرکاری ملازمین کو ڈھال کے طور پر استعمال کررہی ہے۔ اس طرح دراصل ملکی بیورو کریسی اور اعلیٰ افسران کے درمیان چپقلش کی حوصلہ افزائی کے ذریعے ملک کا انتظام سنبھالنے والے ادارے (بیورو کریسی) کو کمزور کرنے کا اقدام کیا گیا ہے۔ سرکاری اداروں اور افسروں کے درمیان رائے کا اختلاف بھی ہوسکتا ہے اور مختلف معاملات پر کام کرنے کا انداز بھی علیحدہ ہوسکتا ہے لیکن سیاسی قیادت سے ان اختلافات کو پروفیشنل انداز میں دیکھنے اور نمٹنے کی امید کی جاتی ہے۔ ایک وزیر نے وفاقی بیوروکریسی بمقابلہ سندھ بیورو کریسی کا مقدمہ پیش کرکے سندھ حکومت کو نہیں بلکہ ہر سیاسی دور میں خدمات انجام دینے والے سرکاری افسروں کی نیک نیتی اور پیشہ وارانہ صلاحیت پر سوالیہ نشان کھڑا کیا ہے۔ علی زیدی کے اس اعلان سے یہ معاملہ زیادہ سنگین ہوگیا ہے کہ انہیں وزیر اعظم کی مکمل اعانت حاصل ہے ۔

علی زیدی کی بات تسلیم کرتے ہوئے اگر سندھ حکومت کی جاری کردہ رپورٹوں شبہ کیا جاسکتا ہے تو وفاقی وزیر کی پیش کردہ ’رپورٹ یا حقائق‘ کے بارے میں بھی سوالات اٹھائے جاسکتے ہیں۔ جو معاملہ وفاقی اور صوبائی حکومت کو معاملہ فہمی سے طے کرنے کی ضرورت تھی ، اسے سیاسی پروپیگنڈا کا حصہ بنا لیا گیا ہے۔ اس لئے سندھ حکومت اور وفاقی حکومت کے درمیان اختلافات یا تنازعات میں ایک نیا عنصر شامل کیا گیا ہے۔ تاہم یہ نیا طریقہ اس لحاظ سے خطرناک اور مہلک ہے کہ اس میں ایک وفاقی وزیر نے ایک فرد کے طور پر سندھ حکومت اور پیپلز پارٹی کی قیادت پر سنگین الزامات عائد کئے ہیں اور خود کو وفاقی حکومت کے نمائیندے کے طور پر پیش کیا ہے۔

سندھ حکومت سے تحریک انصاف کی ضد صرف اس حد تک نہیں ہے کہ اندرون سندھ پیپلز پارٹی کی مقبولیت کی وجہ سے تحریک انصاف صوبے میں حکومت سازی میں ناکام رہی ہے۔ متحدہ قومی موومنٹ کے بانی الطاف حسین سے ملک کے عسکری اداروں کی ناراضی اور دوری کے بعد تحریک انصاف یہ تصور کئے بیٹھی ہے کہ وہی اس وقت کراچی سمیت سندھ کے شہری علاقوں کی نمائیندہ ہے۔ اس حیثیت میں وہ صوبے پر حکومت کرنے کا اپنا حق بھی فائق سمجھتی ہے۔ حالانکہ اس رویہ کا اظہار ایک فرد ایک ووٹ کے اصول سے متصادم ہے اور دیہی ووٹر کو شہری ووٹر کے مقابلے میں کھڑا کرنے کی کوشش بھی ہے۔ یہ وہی طریقہ ہے جو دنیا کے سارے مقبولیت پسند لیڈر اختیار کرتے ہیں تاکہ عوام کے مختلف گروہوں کے تصادم سے وہ اپنی قبولیت کا راستہ نکال سکیں۔ تحریک انصاف اٹھارویں ترمیم اور قومی اسمبلی میں بلاول بھٹو زرداری کی کارکردگی اور متعدد سیاسی معاملات پر ان کے اصولی مؤقف سے بھی ہراساں ہے۔ پیپلز پارٹی خواہ حکومت کے خلاف کوئی تحریک چلانے میں کامیاب نہ بھی ہو پھر بھی نواز شریف اور مریم نواز کے ہتھیار پھینکنے کے بعد سے صرف پیپلز پارٹی اور بلاول بھٹو زرداری نے ہی تحریک انصاف کو چیلنج کیا ہے۔

سندھ حکومت کی طرف سے جے آئی ٹی رپورٹوں پر تنازعہ کھڑا کرنے والی وفاقی حکومت البتہ نئے پاکستان میں جے آئی ٹی کلچر کے بارے میں اصولی سوالوں کا سامنا کرنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ عمران خان اور تحریک انصاف ملک کا نظام درست کرنا چاہتے ہیں اور اداروں کو توانا کرنے کی بات کرتے ہیں۔ ملک کا انتظام چلانے میں بیورو کریسی کو ایک اہم ادارے کی حیثیت حاصل ہے۔ اصلاح احوال کی حامی کوئی بھی حکومت بیورو کریسی کی رہنمائی تو ضرور کرے گی لیکن وہ اسے خود مختاری دینے سے انکار نہیں کرسکتی۔ ملک میں کسی بھی معاملہ پر ہنگامہ بپا ہونے کے بعد ایک مشترکہ تحقیقاتی ٹیم بنا دی جاتی ہے۔ پاناما کی جے آئی ٹی بناتے ہوئے سپریم کورٹ نے یہ روایت بھی استوار کردی ہے کہ ان کمیٹیوں میں عسکری انٹیلی جنس کے نمائیندے شامل کئے جاتے ہیں۔ حالانکہ سول معاملات میں عسکری اداروں کو مداخلت کا حق دے کر سول بالادستی کے اصول سےانحراف کیاجاتا ہے۔

کسی معاملہ میں جے آئی ٹی کا قیام دراصل ملک کے مسلمہ اداروں مثلاً پولیس، ایف آئی اے اور دیگر سرکاری اداروں کے خلاف فرد جرم عائد کرنے کے مترادف ہے۔ کیا وجہ ہے کہ حکومتیں جے آئی ٹی رپورٹوں پر تو سینگ پھنسا رہی ہیں لیکن ان اداروں کو خود مختاری سے کام کرنے کی آزادی نہیں دیتیں جن کی آزادی و خود مختاری سلب کرنے کے لئے ہی جے آئی ٹی بنائی جاتی ہیں۔ اگر کسی جے آئی ٹی میں پولیس اور دیگر اداروں کے نمائندوں کو ہی شامل کرنا ہوتا ہے تو ادارہ جاتی تحقیقات کیوں قابل اعتبار نہیں ہوتیں؟ یوں بھی ملک میں کتنی جے آئی ٹی یا خصوصی تحقیقاتی کمیٹیوں کی سفارشات پر عمل کروایا جاسکا ہے۔ حال ہی میں شوگر اسکینڈل پر بنائی گئی کمیٹی کی رپورٹ کا احوال سب کے سامنے ہے۔ ایک دو ماہ اس معاملہ پر سیاست کرنے کے بعد اب اسے بھلا دیا گیا۔ یہی حال ساہیوال پولیس مقابلہ کیس کا ہؤا تھا۔ اس معاملہ میں وزیر اعظم سمیت حکومتوں کا کیا ہؤا کوئی وعدہ پورا نہیں ہوسکا۔

 اس سے بھی پہلے تحریک انصاف 2014 کے ماڈل ٹاؤن سانحہ کی رپورٹوں پر تنقید کرتی رہی ہے اور شریف برادران کو اس سانحہ کا اصل قصور وار سمجھتی رہی ہے۔ اس سانحہ کی تحقیقاتی رپورٹوں کو بھی مسترد کیا جاتا رہا ہے لیکن مرکز اور پنجاب میں اقتدار سنبھالنے کے دو سال بعد بھی اس معاملہ میں کوئی پیش رفت تو کجا کسی قسم کی بات بھی کرنا گوارا نہیں کیا جاتا۔ حالانکہ طاہر القادری تو عمران خان کے دھرنا بھائی ہیں۔ دیگر رپورٹوں کی طرح جے آئی ٹی رپورٹ کو صرف سیاست کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔

ان حالات میں تو بہتر یہی ہوگا کہ جے آئی ٹی رپورٹ پر دنگل سجانے کی بجائے یہ طے کرنے کے لئے ہی ایک جے آئی ٹی بنا دی جائے کہ جب سب ادارے موجود ہیں اور ملک میں عوام دوست اور دیانت دار حکومت بھی قائم ہے جو کسی پٹواری کے کام میں مداخلت کو بھی گناہ سمجھتی ہے تو پھر ہر دوسرے معاملہ پر جے آئی ٹی بنانے کا فیصلہ کیوں کیا جاتا ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2742 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments