’دی گریٹ گیم‘: قراقرم کی چوٹیوں کے سائے میں روسی اور برطانوی جاسوسوں کی آنکھ مچولی


بمبئی سے ہرات اور فارس براستہ نوشکی: دو برطانوی ایجنٹوں کا ہزاروں میل کا سفر

دی گریٹ گیم میں لکھا ہے کہ ففتھ بمبئی نیٹو انفینٹری کے کیپٹن چارلس کرسٹی اور لیفٹننٹ ہنری پوٹنگر سنہ 1810 میں جاسوسی کے مشن پر بھیس بدل کر بلوچستان کے راستے افغانستان اور ایران کے لیے روانہ ہوئے۔ وہ اس لحاظ سے خوش قسمت تھے کہ اس علاقے میں لوگوں نے کبھی پہلے کوئئی یورپی نہیں دیکھا تھا۔

پوٹنگر بمبئی سے روانہ ہونے کے چار ماہ بعد ہرات میں داخل ہوئے۔ ان کے بیس سالہ ساتھی پوٹنگر کی منزل نو سو میل دور فارس میں تھی۔ ان کے راستے میں دو بڑے صحرا تھے اور اس سفر میں انھیں تین ماہ لگے۔

کتاب ’دی گریٹ گیم‘ میں لکھا ہے کہ مغرب کے راستے انڈیا پر کسی حملے کی خوف میں مبتلا برطانویوں کے لیے ہرات کی بہت زیادہ اہمیت تھی۔ یہ شہر مغرب سے انڈیا آنے والے فاتحین کے راستے میں تھا۔ یہاں سے کوئی بھی فوج خیبر یا بولان پاس کے ذریعے انڈیا داخل ہو سکتی تھی۔

ہوپکرک لکھتے ہیں کہ وسیع و عریض صحراؤں اور دشوار گزار پہاڑوں کے بیچ میں یہ شہر ایک زرخیز وادی میں تھا جس کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ یہاں ایک پوری فوج کے لیے پانی اور خوراک موجود تھی۔ کرسٹی کا کام اس بات کی تصدیق کرنا تھا۔

انھوں نے لکھا ہے کہ کرسٹی بمبئی سے روانہ ہونے کے چار ماہ بعد شہر کے مرکزی دروازے میں داخل ہوئے۔ وہ ایک مسلمان مذہبی شخصیت کا بھیس چھوڑ کر اب ایک تاجر کے روپ میں تھے جو گھوڑوں کی خریداری کے لیے نکلا تھا کیونکہ ان کے دستاویزات میں یہی لکھا تھا۔

وہ ایک مہینہ وہاں رہے اور بہت باریکی سے شہر کے بارے میں نوٹس لیے۔ ہوپکرک نے لکھا ہے کہ بلوچستان سے روانہ ہونے کے بعد کرسٹی نے 2250 میل سفر کیا تھا جبکہ پوٹنگر نے 2400 میل سے زیادہ۔

ہوپکرک لکھتے ہیں کہ ان دونوں افسران کے کام میں راستے کے ہر گاؤں اور بستی کی تفصیل نوٹ کرنا، ہر کنویں اور تالاب کا ذکر اور دفاعی نقطہ نظر سے اہم مقامات کا اندراج کرنا شامل تھا۔ ان افسران نے راستے میں ملنے والے قبائل اور ان کی زندگی کے حالات کے بارے میں تفصیلی معلومات اکٹھی کیں۔

جب نیپولین نے روس کے زار کو مل کر انڈیا پر حملے کا مشورہ دیا

نیپولین بوناپارٹ

نیپولین بونا پارٹ فرانس کے حکمران تھے

کتاب ہمالین بیٹل گراؤنڈ میں مؤرخین لکھتے ہیں کہ انڈیا کی دولت کی چکا چوند کئی بار حملہ آوروں کو کھینچ کر یہاں لا چکی تھی اور اس خطے کے لوگوں نے حملوں کے مستقل خوف میں رہنا سیکھ لیا تھا۔

مؤرخین لکھتے ہیں کہ برطانیہ کا انڈیا کے شمال مغرب میں اپنے زیر تسلط علاقوں میں اضافے اور اپنی سلطنت کی حدود کو پھیلانے کے دوران شمال سے جنوب کی طرف مغربی ترکستان کی ریاستوں طرف پیشقدمی کرتی ہوئی روسی سلطنت سے سامنا ہوا۔

’ان دو بڑی طاقتوں کے درمیان ٹکراؤ ناگزیر لگنے لگا اور دونوں کے درمیان ایک دوسرے کے عزائم کے بارے میں شکوک و شبہات نے صورتحال کو زیادہ خطرناک بنا دیا۔‘

ہوپکرک لکھتے ہیں کہ سنہ 1807 میں لندن میں اس وقت خطرے کی گھنٹیاں بج اٹھی تھیں جب خبر پہنچی کہ فرانس کے حکمران نیپولین بونا پارٹ نے روس کے زار ایلیگزیبڈر اوّل کو مل کر انڈیا پر حملہ کرنے کی دعوت دے دی ہے۔ تاہم جلد ہی دونوں میں اختلافات کی وجہ سے بات آگے نہیں بڑھ سکی۔

جب روس نے سوچا کیوں نہ مسلمانوں سے مغلیہ سلطنت کو بحال کرنے کا وعدہ کیا جائے؟

کتاب ’دی گریٹ گیم‘ میں لکھا ہے کہ پیٹر دی گریٹ پہلی روسی زار تھے جن کی نظر انڈیا کی طرف گئی تھی۔ ان کے زمانے میں وسطی ایشیا میں دریائے آکسس کے پار سونے کے بڑے ذخائر کی خبریں آتی تھیں۔ انھوں نے روسی سیاحوں سے انڈیا کے بارے میں سُن رکھا تھا کہ وسطی ایشیا کی ریاستوں کے پار یہ ملک دولت سے مالا مال ہے۔

انھوں نے اپنی زندگی میں بحر کیسپین کے پار تعلقات بڑھانے کے لیے خیوا کی طرف ایک مشن بھی روانہ کیا لیکن وہ ناکام رہا۔

زار پیٹر دی گریٹ کی موت کے کچھ عرصے کے بعد سنہ 1725 میں روس میں ایک کہانی گردش کرنے لگی کہ ان کے عظیم بادشاہ نے بستر مرگ پر وصیت کی تھی کہ ان کے بعد آنے والے حکمران روس کو دنیا کی سب سے بڑی طاقت بنائیں گے اور مؤرخین کے مطابق اس خواب کی تکمیل کی دو چابیاں تھیں: انڈیا اور قسطنطنیہ۔ اس کہانی کے مطابق انھوں نے اپنے بعد آنے والوں کو حکم دیا تھا کہ اس منزل کے حصول تک ان کا کام ختم نہیں ہو گا۔

ہوپکرک لکھتے ہیں کہ پیٹر دی گریٹ کے تقریباً 40 برس بعد کیتھرین دی گریٹ کا زمانہ شروع ہوا اور روس نے ایک بار انڈیا میں دلچسپی دکھانا شروع کر دی جہاں ایسٹ انڈیا کمپنی اب اپنے قدم جما رہی تھی۔

کہا جاتا ہے کہ سنہ 1791 میں اپنے دور کے آخری حصے میں کیتھرین نے انڈیا میں دلچسپی ظاہر کی تھی اور شاید اس کا منصوبہ انھیں غالباً ایک فرانسیسی نے پیش کیا تھا۔ اس فرانسیسی نے کیتھرین کو تجویز پیش کی کہ وہ بخارا اور کابل کے راستے یہ کہتے ہوئے آگے بڑھیں کہ وہ مغلیہ سلطنت کو بحال کرنا چاہتی ہیں۔ تاہم ان کے ایک اعلی اہلکار نے انھیں اس پر عمل کرنے سے باز رکھا۔

یہ اگلی صدی میں انڈیا پر روس کے حملے کے بہت سے منصوبوں کے سلسلے کی پہلی کڑی تھی۔

اور گریٹ گیم شروع ہو گئی

مؤرخ لکھتے ہیں کہ 19ویں صدی میں روس کے حملے کا خطرہ بہت حقیقی تھا۔

’تقریباً چار صدیوں سے روس 55 مربع میل یومیہ یا 20 ہزار میل سالانہ کے حساب سے مشرق کی طرف پیشرفت کر رہا تھا۔ 19ویں صدی کے آغاز پر ایشیا میں روس اور برطانوی سلطنتوں کے درمیان دو ہزار میل کی دوری تھی جو کہ صدی کے اختتام تک کم ہو کر چند سو میل رہ گئی تھی اور پامیر کے کچھ علاقوں میں تو یہ فاصلہ 20 میل تھا۔‘

مؤرخین کے مطابق 19ویں صدی کے وسط تک شاہراہ ریشم کے تاریخی شہر ایک ایک کر کے روس کے قبضے میں جا رہے تھے۔ سنہ 1865 میں تاشقند بھی روس نے فتح کر لیا تھا۔ مزید تین سالوں میں ثمرقند اور بخارا بھی زار کی سلطنت کا حصہ بن چکے تھے۔

برطانیہ کا خیال تھا کہ بلند و بالا ہندو کش اور پامیر کے پہاڑی سلسلے ان کے علاقوں کو ہمیشہ روس کی یلغار سے محفوظ رکھیں گے اور یہی ان کا سب سے بڑا مسئلہ تھا۔

کتاب ’ہمالین بیٹل گراؤنڈ: سائنو انڈیا رائولری اِن لداخ‘(ہمالیائی میدان جنگ: لداخ میں انڈیا چین دشمنی) میں لکھا ہے کہ ان پہاڑی سلسلوں میں گھومتے پھرتے برطانوی ایجنٹوں کی ’سب اچھا ہے‘ کی رپورٹوں نے بھی سلطنت کے محفوظ ہونے کے اس احساس کو تقویت بخشی۔ ان ایجنٹوں کا کام ان دشوار گزار پہاڑوں میں چھپے ہوئے ایسے ممکنہ راستوں کی تلاش تھی جہاں سے روس انڈیا میں داخل ہو سکتا تھا۔

کتاب میں لکھا ہے کہ ایسے ہی ایک برطانوی افسر تھامس گورڈن جنھوں نے سنہ 1873 میں پامیر کے پہاڑی سلسلے میں وقت گزارا تھا لکھا کہ مشرقی (یا چینی) ترکستان اور لداخ کے درمیان بلند و بالا پہاڑ کسی بھی جدید فوج کو اس طرف نہیں آنے دیں گے لیکن پامیر اور گلگت اور چترال میں دروں کے بارے میں کچھ نھیں کہا جا سکتا۔

’ہمالین بیٹل گراؤنڈ‘ کے مطابق اسی طرح کی ایک رپورٹ سر ہنری رالنسن نے سنہ 1876 میں لکھی تھی کہ ’میرے خیال میں اس راستے سے روس کے ساتھ ٹکراؤ کا ذرا بھی خطرہ نھیں۔۔۔ ان دوسرے راستوں کے ہوتے ہوئے کوئی بھی فوج کبھی بھی۔۔۔قراقرم سے پنجاب تک پھیلے ہوئے ان پہاڑوں کے راستے آنے کی کوشش نہیں کرے گی جہاں ایک کے بعد ایک 15 سے 19 ہزار فٹ بلندی والے درے ہیں۔

انڈیا کے شمال مغرب میں یہ علاقہ سب سے دشوار گزار ہے اور نتیجتاً اس علاقے میں دو بڑی سلطنتوں کے ٹکراؤ کا امکان انتہائی کم ہے۔‘

لیکن مؤرخ لکھتے ہیں کہ سنہ 1885 میں روس کی وسطی ایشیا میں پیش قدمی نے برطانیہ کو کشمیر کے راستے روس کے ممکنہ حملے کے بارے ہوشیار کر دیا۔

پھر سنہ 1888 میں جب ایک برطانوی افسر ایلگرنن ڈیورنڈ نے ہنزہ سے واپسی پر لاہور آ کر رپورٹ دی کہ انھوں نے گلگت سے گزرتے ہوئے سُنا تھا کہ ایک روسی افسر ہنزہ میں دیکھا گیا ہے۔ اس کی اطلاع بالکل درست تھی۔

یہ روسی افسر کیپٹن گُرومچیوسکی تھا جو پامیر کے پہاڑی سلسلے اور مشرقی ترکستان کے درمیان راستہ تلاش کرنے میں کامیاب ہو گیا تھا۔

اور یوں پھر جیسا کہ ڈیورنڈ نے کہا ’کھیل شروع ہو گیا۔‘

ہنزہ کے علاقے میں خفیہ پہاڑی راستے کی تلاش جہاں سے ڈاکو آتے تھے

وادی ہنزہ

سنہ 1888 میں ایک برطانوی افسر ایلگرنن ڈیورنڈ نے ہنزہ سے واپسی پر لاہور آ کر رپورٹ دی کہ انھوں نے گلگت سے گزرتے ہوئے سنا تھا کہ ایک روسی افسر ہنزہ میں دیکھا گیا ہے

روسی کیپٹن گرومچیوسکی کی ہنزہ میں آمد اور ان کے ذریعے ہنزہ کے حکمران کا روس کے قریب ہونے کا امکان تو برطانیہ کے لیے تشویش کا باعث تھا ہی اس کے ساتھ ایک اور بڑا مسئلہ بھی تھا: ہنزہ میں ایک خفیہ پہاڑی درہ جہاں سے لیہہ یارکند روٹ پر حملہ کیا جا سکتا تھا۔

ہوپکرک لکھتے ہیں کہ برسوں سے حملہ آور اس خفیہ درے سے آ کر لیہہ اور یارکند کے بیچ سفر کرنے والے تاجروں کو لوٹ کر خفیہ راستے سے غائب ہو جاتے تھے۔

’یہ نہ صرف برطانوی اشیا میں وہاں جو تھوڑی بہت تجارت ہوتی تھی اس کا گلا گھونٹنے کے مترادف تھا بلکہ انڈیا کے دفاع کی ذمہ داران کا خیال تھا کہ اگر لٹیرے یہ راستہ استعمال کر سکتے ہیں تو کل کو روس بھی اسی راستے کے ذریعے آ سکتا ہے۔‘

کلکتہ میں برطانوی نے اس خفیہ درے کی تلاش کا فیصلہ کر لیا اور اس کی ذمہ داری کیپٹن ینگہزبینڈ کو سونپی گئی جنھیں پہلے ہی چین سے ایک نئے راستے سے انڈیا تک کا 1200 میل کا سفر کرنے کے بعد کافی شہرت مل چکی تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp