’دی گریٹ گیم‘: قراقرم کی چوٹیوں کے سائے میں روسی اور برطانوی جاسوسوں کی آنکھ مچولی


قراقرم کے پہاڑی سلسلے

19ویں صدی کے آغاز میں جانوروں کا ایک انگریز ڈاکٹر تبت پہنچا۔ کہا جاتا ہے کہ ڈاکٹر ولیم مور کرافٹ سے پہلے اس علاقے سے سنہ 1715 میں دو یورپی پادری گزرے تھے

انڈین فوجی انٹیلیجنس کے سابق چیف جنرل (ریٹائرڈ) امرجیت بیدی نے لداخ کے علاقے میں انڈیا اور چین کی فوجی کشیدگی کے پس منظر میں حال ہی میں کہا تھا کہ انڈیا کو اپنی خفیہ ایجنسیوں کے کردار کا جائزہ لینا چاہیے اور چین کے ساتھ تنازعہ ختم ہونے کے بعد ان کی اصلاح کرنی چاہیے۔

یاد رہے کہ جن پہاڑی سلسلوں میں آج چین اور انڈیا آمنے سامنے ہیں وہاں پہلی بار بڑی عالمی طاقتیں آمنے سامنے نہیں آئی ہیں۔ ماضی میں یہ علاقہ روس، چین اور برطانوی انڈیا کے درمیان ایک بڑی کشمکش دیکھ چکا ہے۔

آج کل انسانی جرات، قابلیت اور ذہانت کے ساتھ ساتھ سائنس اور جدید آلات پر دسترس بھی جاسوسی کے کام میں اہم کردار ادا کرتی ہے، لیکن سائنسی دریافتوں کے دور سے پہلے اُس وقت صورتحال بالکل مختلف تھی۔

اس ماحول کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے ہمالیہ، قراقرم، ہندو کش اور پامیر کے ہی پہاڑی سلسلوں میں چلتے ہیں، لیکن دو سو سال ماضی میں۔

19ویں صدی کے آغاز میں جانوروں کا ایک انگریز ڈاکٹر تبت پہنچا۔ کہا جاتا ہے کہ ڈاکٹر ولیم مور کرافٹ سے پہلے اس علاقے سے سنہ 1715 میں دو یورپی پادری گزرے تھے۔

سنہ 1808 میں برطانیہ سے انڈیا آنے والے ڈاکٹر مور کرافٹ، ایسٹ انڈیا کمپنی کے لیے اعلیٰ نسل کے گھوڑوں کی تلاش میں تھے اور ان کا خیال تھا کہ تبت اور اس سے شمال میں انھیں ایسے جانور مل جائیں گے جو انڈیا میں کمپنی کے کام آئیں گے۔

کوہ ہمالیہ کے دروں کے پار اس برفانی علاقے میں اپنے دوسرے یا تیسرے دورے کے دوران ڈاکٹر مور کرافٹ ایک تبتی اہلکار کے گھر میں موجود تھے۔ ان کے لیے ہر چیز نئی تھی لیکن جس چیز نے انھیں حیران کر دیا وہ وہاں دو یورپی نسل کے کتوں کی موجودگی تھی۔

کتوں نے جب ان کے فوجی اشاروں کو سمجھنے کا ثبوت دیا تو مور کرافٹ نے سوچا اس کا ایک ہی مطلب ہو سکتا ہے کہ یہ کتے پہلے کسی فوجی کے پاس تھے۔ لیکن وہ فوجی کون تھا اور یہ کتے اس علاقے میں کیسے پہنچے تھے؟ ان کے کانوں میں خطرے کی گھنٹیاں بج اٹھیں۔

پیٹر ہوپکرک اپنی کتاب ’دی گریٹ گیم: دی سٹرگل فار ایمپائر ان سنٹرل ایشیا‘ میں لکتھے ہیں کہ مور کرافٹ کے نزدیک اس کا ایک ہی مطلب تھا کہ کوئی روسی بھی اس علاقے میں پہنچ چکا تھا۔ گاؤں والوں سے پوچھ گچھ سے معلوم ہوا کہ انھیں یہ کتے کسی روسی تاجر سے ملے تھے، لیکن مورکرافٹ کو یقین تھا کہ وہ روسی تو ہو گا لیکن تاجر یقیناً نہیں تھا۔

’دی گریٹ گیم‘

علاقے میں کسی روسی کی موجودگی کے امکان سے اس برطانوی ڈاکٹر کو اپنے پرانے خدشات کے درست ہونے کا ثبوت مل گیا کہ روس کسی نہ کسی طرح شمال مغرب کے راستے حملہ کر کے انڈیا کو برطانیہ سے چھیننا چاہتے ہیں۔

ان دو کتوں کا مالک وہ روسی کون تھا اور کیا وہ اکیلا تھا؟ کیا مورکرافٹ کا اس علاقے میں آنے کا مقصد صرف گھوڑے خریدنا تھا؟ روسی سلطنت اپنے ایجنٹ یہاں کیوں بھیج رہی تھی اور برطانیہ کے لیے اس میں پریشانی کی کیا بات تھی؟ ان سب باتوں کی اہمیت کو سمجھنے کے لیے خطے کے آج کے حالات کا مختصر ذکر ضروری ہے۔

روسی اور برطانوی سلطنتوں کے لیے ان پہاڑوں میں کسی مہم جوئی سے پہلے یا کسی ممکنہ یلغار کو روکنے کے لیے معلومات کا ذریعہ تھے ولیم مورکرافٹ اور انھیں ملنے والے یورپی نسل کے کتوں کے روسی مالک جیسے بہت سے نوجوان افسر۔

ان افسروں اور ایجنٹوں نے اپنی زندگی کے کئی سال ہمالیہ، قراقرم، پامیر جیسے پہاڑی سلسلوں اور خطے کے صحراؤں میں بھیس بدل کر گھومتے ہوئے گزار دیے۔

پیٹر ہوپکرک اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ روس اور برطانوی سلطنت کی ایشیا میں اس کشمکش کو ’گریٹ گیم‘ کا نام بھی ایک ایسے ہی نوجوان برطانوی فوجی/جاسوس نے دیا تھا جو خود بھی وسطی ایشیا کی ایک ریاست میں اسی ’گریٹ گیم‘ کا شکار ہو کر جان سے ہاتھ دھو بیٹھا تھا۔ اس نوجوان افسر کا ذکر آگے چل کر کریں گے۔

روس میں کئی نسلوں سے وسطی ایشیا اور اس کے پار کے علاقوں میں دولت کی ریل پیل کی کہانیاں پہنچ رہی تھیں اور ایک طاقتور سلطنت بننے کے بعد اب وہ ان کی حقیقت جاننے کے علاوہ اس علاقے کی تجارت میں حصہ بھی چاہتا تھا۔ دوسری طرف انڈیا میں بہت سے برطانوی اہلکاروں کو خدشات لاحق ہونا شروع ہو گئے تھے کہ شمال میں اونچے پہاڑوں کے باوجود روس وہاں پہنچنے کی کوشش ضرور کرے گا۔

پیٹر ہوپکرک نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ وسیع بساط جس پر سیاسی بالادستی کی یہ پراسرار لڑائی لڑی گئی مغرب میں کوہ قاف کی برف پوش چوٹیوں سے لے کر وسطی ایشیا کے صحراؤں اور پہاڑی سلسلوں سے ہوتی ہوئی مشرق میں چینی ترکستان اور تبت تک پھیلی ہوئی تھی۔ اور اس کھیل کا اصل ہدف کم سے کم لندن اور کلکتہ میں برطانوی اہلکاروں کے ذہن میں اور ایشیا میں تعینات روسی افسروں کے خیال میں صرف ایک تھا: ’برٹش انڈیا‘۔

اس وضاحت کے بعد کہانی کا رُخ ایک بار پھر ولیم مور کرافٹ اور ان کے مدمقابل روسی جاسوسوں کی طرف کرتے ہیں۔

تبت والے روسی کپڑا پہنیں گا یا برطانوی

تبت

تبت

ولیم مورکرافٹ کو جب تبت میں روسی فوجیوں کی موجودگی کا شبہ ہوا تو اس کے بعد سنہ 1825 میں اپنی موت تک وہ کلکتہ میں اپنے افسران کو وسطی ایشیا میں روس کے عزائم کے بارے میں خط لکھ لکھ کر خبردار کرتے رہے۔

کتاب ’دی گریٹ گیم‘ کے مطابق انھوں نے ایک جگہ لکھا تھا کہ ایسٹ انڈیا کمپنی کو فیصلہ کرنا ہے کہ ’ترکستان اور تبت کے لوگ روس کے کپڑے پہنیں گے یا برطانیہ کے اور برمنگھم میں بنے ہوئے لوہے اور سٹیل کے اوزار خریدیں گے یا سینٹ پیٹرز برگ میں۔‘

سنہ 1819 میں مورکرافٹ کی مستقل مزاجی کام دکھا گئی اور انھیں وسطی ایشیا میں بخارا تک دو ہزار میل کے سفر کے لیے گرانٹ مل گئی۔ لیکن اس دورے کے دوران پکڑے جانے یا روس کی طرف سے احتجاج کی صورت میں حکومت ان سے لاتعلقی ظاہر کر سکتی تھی۔

اب ان کے مشن کے راستے میں ایک اور مشکل تھی۔ بخارا تک کا براہ راست راستہ افغانستان سے ہو کر گزرتا تھا جو اس وقت شدید خانہ جنگی کی زد میں تھا۔ ہوپکرک لکھتے ہیں کہ انھوں نے افغانستان کو بائی پاس کرتے ہوئے شمال سے چینی ترکستان میں کاشغر کے ذریعے بخارا جانے کا فیصلہ کیا اور اس کے لیے پہلے لداخ میں لیہہ جانا ضروری تھا۔

کتاب کے مطابق وہ ستمبر سنہ 1820 میں لیہہ پہنچے اور وہ اس علاقے میں آنے والے پہلے برطانوی تھے۔ انھوں نے آتے ہی قراقرم کے پار یارکند میں چینی حکام سے رابطے کی کوششیں شروع کر دیں۔ لیکن انھیں جلد اندازہ ہو گیا کہ یہ کام اتنا آسان نہیں۔

پہلی بات تو یہ تھی کہ یارکند لیہہ سے 300 میل دور تھا اور راستے میں دنیا کے مشکل ترین پہاڑی راستے تھے اور جواب آنے میں کئی مہینے لگ سکتے تھے۔ دوسرا یہ کہ مقامی تاجر جو نسلوں سے وہاں کاروبار کر رہے تھے اور جن کی لیہہ یارکند روٹ پر اجارہ داری تھی، ایسٹ انڈیا کمپنی کے آنے سے بالکل خوش نھیں تھے۔

مورکرافٹ نے ان میں سے کچھ کو کمپنی کا ایجنٹ تعینات کرنے کی بھی کوشش کی لیکن وہ خوش نہیں تھے اور کتاب ’دی گریٹ گیم‘ کے مطابق بعد میں برطانیہ کو معلوم ہوا کہ ان تاجروں نے چینیوں سے کہا تھا کہ جیسے ہی کمپنی کے ایجنٹوں کو اس راستے سے گزرنے کی اجازت ملے گی وہ اپنی فوج لے کر آ جائیں۔

لیہہ میں بھی روسی ایجنٹ بازی لے گیا

لیہ

لیہہ

مورکرافٹ کو ابھی لیہہ میں زیادہ وقت نہیں گزرا تھا کہ ان کا بڑا خدشہ تبت کی طرح یہاں بھی درست ثابت ہو گیا۔ ایک روسی ایجنٹ پہلے ہی علاقے میں قدم جما چکا تھا۔

بظاہر وہ ایک مقامی تاجر تھا لیکن جلد ہی مورکرافٹ کو علم ہوا کہ وہ آدمی، آغا مہدی، دراصل روس کا اہم ایجنٹ تھا جو (تقریباً ساڑھے چار ہزار کلومیٹر دور) سینٹ پیٹرزبرگ میں اپنے آقاؤں کے لیے اہم تجارتی اور سیاسی مشن انجام دیتا تھا۔

آغا مہدی عرف مہکتی رافیلوو کون تھا؟

پیٹر ہوپکرک نے لکھا ہے کہ آغا مہدی نے ایک عام قلی کی حیثیت سے اس علاقے میں کام شروع کیا تھا اور جلد ہی وہ اپنی خوبصورتی کی وجہ سے پورے ایشیا میں مشہور کشمیری شالوں کے تاجر بن گئے اور انھی شالوں کا کاروبار کرتے کرتے وہ سینٹ پیٹرزبرگ پہنچ گئے۔

سینٹ پیٹرزبرگ میں ان کی کشمیری شالوں نے روس کے حکمران ’زار الیگزینڈر کی توجہ بھی حاصل کر لی جنھوں نے اس زبردست تاجر سے ملنے کی خواہش ظاہر کی۔‘

یہاں ایک دلچسپ پیشرفت ہوئی۔ زار الیگزینڈر نے آغا مہدی کو لداخ اور کشمیر کے ساتھ تجارتی تعلقات قائم کرنے کی ہدایات کے ساتھ واپس روانہ کیا۔ ’وہ اس میں کامیاب رہے اور اب کچھ روسی مصنوعات ان علاقوں کے بازاروں میں نظر آنے لگیں۔‘

کتاب ’دی گریٹ گیم‘ میں لکھا ہے کہ جب وہ دوبارہ سینٹ پیٹرزبرگ گئے تو زار نے انھیں ایک چین اور سونے کے میڈل کے ساتھ روسی نام بھی دیا: مہکتی رافیلوو۔

روس کا مہاراجہ رنجیت سنگھ کے لیے پیغام

مہاراجہ رنجیت سنگھ

’روس کے زار کی طرف سے مہاراجہ رنجیت سنگھ کے تاجروں کے ساتھ تجارت کی خواہش ظاہر کی گئی تھی اور لکھا تھا کہ انھیں روس میں خوش آمدید کہا جائے گا’

لیکن اس بار آغا مہدی عرف مہکتی رافیلوو کو ایک نئے اور سیاسی مشن کے ساتھ روس سے واپس بھیجا گیا۔ ان کی منزل اب لداخ اور کشمیر سے سینکڑوں میل جنوب میں پنجاب کی سلطنت میں مہاراجہ رنجیت سنگھ کا دربار تھا۔

ہوپکرک لکھتے ہیں کہ انھیں مہاراجہ رنجیت سنگھ کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کرنے کی ہدایت دی گئی تھی۔ ’ان کے پاس زار کا ایک تعارفی خط تھا جس پر روس کے وزیر خارجہ کے دستخط تھے۔ اس میں روس کی طرف سے رنجیت سنگھ کے تاجروں کے ساتھ تجارت کی خواہش ظاہر کی گئی تھی اور لکھا تھا کہ انھیں روس میں خوش آمدید کہا جائے گا۔‘

کتاب کے مطابق برطانوی ڈاکٹر مور کرافٹ کو جلد ہی اس پیشرفت کا پتہ چل گیا تھا۔ انھیں احساس ہو گیا تھا کہ آغا مہدی میں وہ تمام صلاحیتیں تھیں جو ان کے مشن کے لیے اہم تھیں مثلاً مقامی علاقے کی معلومات اور لوگوں میں مقبولیت اور کاروباری ذہانت۔

ہوپکرک لکھتے ہیں کہ مور کرافٹ نے یہ تمام معلومات گیارہ سو میل دور جنوب میں اپنے افسران کو لکھنے میں دیر نہیں کی۔ لیکن آغا مہدی کی کہانی اچانک قراقرم کے بلند و بالا دروں میں، ان کی موت کے ساتھ،، مہاراجہ رنجیت سنگھ کے دربار میں پہنچنے سے پہلے ختم ہو گئی۔ وہ کیسے ہلاک ہوئے یہ کبھی واضح نہیں ہو سکا۔

تاہم ہوپکرک نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ مورکرافٹ نے لندن اپنے ایک دوست کو خط میں کہا تھا کہ ’اگر رافیلوو کچھ دیر اور زندہ رہ جاتا تو اس نے ایشیا میں ایسی صورتحال پیدا کر دینی تھی کہ یورپ میں کچھ کابینائیں حیران رہ جاتیں۔‘

جیسے آغا مہدی نے روسی سلطنت کے لیے خدمات انجام دیں اسی طرح باقاعدہ روسی فوجی افسر بھی انڈیا اور افغانستان تک جانے والے راستوں کو سمجھنے کے لیے مہمات کا حصہ بنے۔

روسی افسر ترک کے بھیس میں جارجیا سے خیوا کیسے پہنچا؟

سنہ 1819 میں جورجیا کی ریاست میں روسی فوج کے صدر دفتر میں تعینات ایک 24 سالہ روسی فوجی افسر نکولائی مراوی ایو ایک مشن کے لیے روانہ ہوا جو بہت سے لوگوں کے لیے شاید ’خودکشی‘ کے برابر تھا۔ مراوی ایو کا مشن ایک ترک کا روپ دھار کر مشرق میں سنسان میدانوں اور سمندر پار 800 میل دور خیوا میں تھا۔

راستے میں ایک صحرا تو تھا ہی لیکن اغوا کر کے غلام کے طور پر فروخت کیے جانے یا لٹیروں کے ہتھے چڑھنے کا خطرہ بھی تھا۔ ان کا وسطی ایشیا کی ریاست کے خان کو رام کرنا اور مستقبل میں روس کے ممکنہ حملے کے لیے حالات سازگار بنانا تھا۔

ان کے کام میں ان کے برطانوی ہم منصوبوں کی طرح علاقے کے جغرافیہ اور دفاعی صلاحیتوں کے بارے میں معلومات جمع کرنا اور خطے کی دولت کے بارے میں مشہور کہانیوں کی حقیقت معلوم کرنا بھی تھا۔

ہوپکرک لکھتے ہیں کہ ان کے مشن میں ان روسیوں کے حالات معلوم کرنا بھی تھا جنھیں بڑی تعداد میں اغوا کر کے غلام بنا کر ان علاقوں میں بیچ دیا گیا تھا۔ اس ضمن میں ان کی فراہم کی گئی معلومات نے روس کو مستقبل میں وسطی ایشیا کی مسلمان ریاستوں میں فوجی کارروائیوں کا زبردست جواز پیش کر دیا تھا۔

کتاب ’دی گریٹ گیم‘ میں لکھا ہے کہ ناکامی یا پکڑے جانے کی صورت میں اس نوجوان افسر کو معلوم تھا کہ ان کی سلطنت ان سے لاتعلقی کا اظہار کر دے گی۔

جس طرح برطانوی ڈاکٹر ولیم مورکرافٹ شمالی پہاڑی سلسلوں میں متحرک تھے کچھ برطانوی اہلکار جنوبی افغانستان اور بلوچستان کی ریکی میں مصروف تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32192 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp