ایک عورت پانچ عاشق – ہندی لوک کہانی


تاجروں کے خاندان کی ایک بیٹی کی شادی ایک ایسے مرد سے ہوئی جو سیر و سیاحت کا بہت شوقین تھا۔ ایک مرتبہ وہ سفر پر روانہ ہوا اور طویل عرصہ تک اس کی کوئی خبر نہ آئی۔ اس کی بیوی انتظار اور احساس تنہائی کے ہاتھوں تاجروں کے ایک نوجوان خوبرو بیٹے کی محبت میں گرفتار ہو گئی۔ دونوں ایک دوسرے کی محبت کے اسیر تھے ایک دن اس نوجوان کا کسی آدمی سے جھگڑا ہو گیا۔ اس آدمی نے پولیس پر رپورٹ لکھوائی۔ سربراہ پولیس نے اس نوجوان کو گرفتار کر کے جیل میں ڈال دیا۔ جب یہ خبر تاجر کی بیوی یعنی اس نوجوان کی محبوبہ تک پہنچی تو اس نے اپنے سب سے قیمتی کپڑے زیب تن کیے اور غصے میں آگ بگولا سربراہ پولیس کی خدمت میں پہنچی پہلے وہ آداب بجا لائی اور پھر ایک تحریری رنجش پیش کی کی۔ درج تھا :

”جس شخص کو قید میں ڈالا گیا ہے وہ میرا عزیز بھائی ہے وہ بے گناہ ہے اس کے خلاف جھوٹی شہادت پیش کی گئی ہے اور اسے ناجائز طریقے سے مقید کیا گیا ہے وہ میرے نان نفقے کا ذمہ دار ہے اور اس کے بغیر میں لاوارث ہوں اس لئے میں یہ درخواست کرتی ہوں کہ ا سے جلد سے جلد رہا کیا جائے۔“

جب وہ گزارش والی شہر کی خدمت میں پیش کی گئی تو اس نے ایک نظر عورت پر ڈالی۔ نظر کا کیا ڈالنا تھا کہ وہ اپنا دل کھو بیٹھا۔ والی شہر نے عورت سے کہا ”تم میرے گھر میں ٹھہرو جب تک ہم اس نوجوان کو قید خانے سے منگوائیں جب وہ آ جائے گا تو ہم اسے تمہارے ہمراہ بھیج دیں گے۔“ اس عورت نے کہا ”میرا خدا کے علاوہ کوئی نگہبان نہیں ہے۔ میں ایک اجنبی عورت ہوں اور کسی نامحرم کے گھر داخل نہیں ہوتی۔“

والی شہر بولا ”جب تک میرے گھر نہیں جاؤ گی میں اس مرد کو رہا نہیں کر سکتا۔ ہمارا تنہائی میں ملنا بہت ضروری ہے۔“

وہ عورت جو والی کا در پردہ پیغام سمجھ رہی تھی بولی ”اگر ایسی ہی بات ہے تو آپ میرے گھر کیوں تشریف نہیں لاتے۔ وہاں آپ آرام بھی کر لیں گے اور ہم گفتگو کے لیے بھی وقت نکال لیں گے۔“

” تمہارا گھر کہاں ہے؟“ والی فوراً بولا

اس عورت نے اپنے گھر کا پتہ دیا، وقت کا تعین کیا اور بڑی بے نیازی سے آگے بڑھ گئی۔ اس کے بعد وہ قاضی شہر کے پاس پہنچی اور کہنے لگی ”اے قاضی! ہمارے نگہبان“

” کیا بات ہے؟“ قاضی نے پوچھا
”اگر آپ میرے بارے میں انصاف کریں گے تو خدا آپ کو اجر عظیم بخشے گا۔“
” تمہارے ساتھ کس نے نا انصافی کی ہے؟“

” میرا ایک بھائی ہے جو معصوم ہے اسے والی شہر نے سربراہ پولیس کے کہنے پر جیل میں ڈال دیا ہے اس کے خلاف جھوٹی شہادتیں پیش کی ہیں میری آپ سے درخواست ہے کہ اسے رہا کرنے میں مدد کریں“

جب قاضی نے اس عورت کے حسن کو دیکھا تو بس دیکھتا ہی رہ گیا۔ اس کو اپنے جذبات پر قابو نہ رہا، بولا ”تم میرے گھرمیں میری ملازماؤں کے پاس انتظار کرو، میں والی کو پیغام بھیج کر تمھارے بھائی کو منگوا تا ہوں۔ تمہاری باتوں نے میرا دل موہ لیا ہے“

وہ عورت اس مرد کے دل کا بھید بھی جان گئی۔ بولی ”اگر آپ نے کچھ وقت گزارنا ہے تو میرے گھر آئیے جہاں ملازمائیں مخل نہیں ہوں گی اور ہم تخلیے میں بات کرسکیں گے۔“

” تمہارا گھر کہاں ہے؟“ قاضی فوراً بولا۔
عورت نے اسے اپنے گھر کا پتہ بتایا اور اسے بھی وہی وقت بتایا جو والی شہر کو بتا چکی تھی۔

اس کے بعد وہ وزیر کی خدمت میں پیش ہوئی اور اسے بھی اپنی بپتا سنائی، وزیر نے بھی اس کے حسن کو دیکھ کر ملاقات کا بہانہ تلاش کیا۔ عورت نے اسے بھی اپنے گھر آنے کی دعوت دی اور اسی وقت بلایا جس وقت اس نے باقی لوگوں کو دعوت دی تھی۔

اس کے بعد وہ بادشاہ کی خدمت میں حاضر ہوئی، اپنی رام کہانی سنائی اور نظر کرم کی گزارش کی۔ بادشاہ وقت نے اس کی باتیں سنیں تو اس کا دل محبت کے تیروں سے چھلنی ہو گیا۔ بادشاہ نے پوچھا ”تمھارے بھائی کو کس نے قید کیا ہے؟“

” سربراہ پولیس نے۔“ اس نے جواب دیا۔
بادشاہ نے یہ مشورہ دیا کہ وہ اس کے ساتھ محل میں چلے۔ کچھ دیر استراحت کرے تاکہ وہ قاضی کو پیغام بھجوا کر اس کے بھائی کو رہا کروا سکے۔

عورت بولی ”یہ آپ کی ذرہ نوازی ہے کہ مجھے محل میں آنے کی دعوت دی لیکن یہ مجھ پر اور بھی احسان ہوگا اگر آپ ناچیز کے غریب خانے پر تشریف لائیں۔ مجھے امید ہے کہ آپ میری اس درخواست کو رد نہیں کریں گے۔“

بادشاہ نے اس کی دعوت قبول کرلی۔ عورت نے بادشاہ کو اپنے گھر کا پتہ بتایا، اور اسے بھی اسی وقت بلایا جس وقت اس نے باقی تین مردوں کو دعوت دی تھی۔

جب وہ عورت بادشاہ سے باتیں کر کے فارغ ہوئی تو ایک ترکھان کے پاس گئی اور اس سے ایک ایسی الماری بنانے کی درخواست کی جس کے چار حصے ہوں، ہر خانہ دوسرے کے اوپر ہو اور علیحدہ سے مقفل ہو سکے پھر اس نے ایسی الماری بنانے کی اجرت پوچھی۔ ترکھان بولا ویسے تو اس کی اجرت چار دینار ہے لیکن میں تم سے اتنا متاثر ہوا ہوں اگر تم مجھ پر مہربان ہو جاؤ تو میں یہ الماری بطور ہدیہ پیش کر دوں گا۔ ”

عورت نے حامی بھر لی اور بولی ”لیکن چار کے بجائے پانچ خانے بنانا۔“ اور اسے خاص اس دن لانے کو کہا جس دن سب مہمانوں نے آنا تھا۔ ترکھان نے اسے رکنے کو کہا اور تھوڑی ہی دیر میں الماری تیار کر دی۔ عورت اسے لے کر گھر چلی گئی اور ترکھان کو بھی اسی دن، اسی وقت کی دعوت دے آئی۔ گھر پہنچ کر عورت نے چند کپڑے نکالے اور انہیں مختلف رنگوں میں رنگوا کر سنبھال کر رکھ دیا۔ اس کے بعد اس نے دعوت کے لیے شراب، پھولوں، پھلوں اور عطر کا انتظام کرنا شروع کر دیا۔

جس دن سب مہمانوں نے آنا تھا اس عورت نے اپنے قیمتی کپڑے زیب تن کیے، عطر لگایا، گھر میں عمدہ قالین بچھائے اور سب مہمانوں کی آمد کا انتظار کرنے لگی۔ اتفاق سے سب سے پہلے قاضی نمودار ہوا۔ عورت نے اسے بڑے احترام سے خوش آمدید کہا، قدم بوسی کے لیے رکی اور اسے ہاتھ سے پکڑ کر صوفے پر بٹھا دیا۔ پھر وہ اس کے پہلو میں لیٹ کر اٹکھیلیاں کرنے لگی۔ پھر وہ بولی ”آپ اپنے کپڑے اور پگڑی اتار کر سکون سے بیٹھئے میں آپ کے لیے کچھ کھانے پینے کا سامان لاتی ہوں اور اسے رنگین کپڑے دے دیے۔

قاضی نے ابھی عورت کے دیے ہوئے کپڑے رنگین کپڑے پہنے ہی تھے کہ کسی نے دروازے پر دستک دی۔ قاضی نے پوچھا ”دروازے پر کون ہے؟“

” میرا شوہر“ عورت بولی۔ قاضی کے ہاتھ پاؤں پھول گئے۔
”میں کہاں جاؤں اور کیا کروں؟“ قاضی بولا۔
”فکر نہ کرو“ عورت بولی، ”میں تمہیں اس الماری میں چھپا دوں گی۔“

” جو مناسب سمجھو کرو“ قاضی بو کھلایا ہوا تھا۔ عورت نے قاضی کا ہاتھ پکڑا، اسے الماری کے سب سے نچلے خانے میں دھکیلا اور مقفل کر دیا۔

پھر وہ دروازے تک گئی تو دیکھا والی شہر تھا۔ وہ قدم بوسی کے لیے جھکی اور اسے بڑے پریم سے اندر لے آئی۔ پھر وہ اس کے قریب بیٹھ کر بولی ”حضور والا اسے اپنا ہی گھر سمجھیے اور بڑے سکون سے سارا دن یہاں گزاریے میں آپ کی خدمت کے لیے حاضر ہوں۔ میں آپ کو یہ رنگین کپڑے دیتی ہوں تاکہ آپ استراحت کرسکیں۔ یہ لباس شب خوابی ہے۔“ کپڑے تبدیل کرنے کے بعد وہ راز و نیاز میں مصروف ہو گئے۔ جب والی نے قربتوں کی لو بڑھانی چاہی تو عورت بولی ”اگر آپ میرے بھائی کی رہائی کے احکام مجھے لکھ دیں تو میرے دل کو سکون ہو اور میں آپ کی صحبت سے زیادہ محفوظ ہو سکوں“

والی نے قلم اٹھایا اور جیل کے افسر کے نام پیغام لکھا ”جو نہی یہ پیغام آپ تک پہنچے اس شخص کو رہا کر دیا جائے جس کو یہ لینے آئی ہیں۔“
عورت نے وہ رقعہ سنبھال کر رکھ لیا اور اس کی آغوش میں دوبارہ سمٹ آئی۔

والی ابھی اپنی تشنگیوں کے بارے میں سوچ ہی رہا تھا کہ کسی نے دروازے پر دستک دی۔ اس نے پوچھا ”یہ کون ہے؟“

عورت بولی ”میرا شوہر“
” میں کیا کروں؟“ اس نے بوکھلا کر پوچھا۔
” آپ اس الماری میں چھپ جائیں، میں اس سے نپٹ کر لوٹتی ہوں“ اس نے والی کو الماری کے دوسرے خانے میں مقفل کر دیا اور دروازہ کھولنے لگی۔

دروازے پر وزیر تھا۔ اسے وہ پیار سے اندر لائی۔ اس کی تعریفیں کیں۔ اس کے بھی کپڑے بدلوائے اور ابھی ہم آغوش ہونے ہی والی تھی کہ کسی نے پھر دستک دی۔ وزیر گھبرا گیا۔ اس نے اسے بھی الماری کے تیسرے خانے میں بند کیا اور دروازہ کھولنے گئی۔

اس دفعہ بادشاہ سلامت تھے وہ بادشاہ کی قدم بوسی کے لئے جھکی اور اس کا ہاتھ پکڑ کر اندر لے آئی۔ اس نے بادشاہ کو خصوصی جگہ پر بٹھایا اور بولنے لگی۔

” میری کتنی خوش قسمتی ہے کہ آپ نے میری کٹیا کو رونق بخشی۔ آپ سکون سے کچھ وقت گزاریں۔ میں نے ہلکے پھلکے کپڑے بنوائے ہیں انہیں پہن کر دیکھئے“ اس نے بادشاہ کے قیمتی کپڑے اتروا کر سادہ رنگین کپڑے پہننے کو دیے۔ وہ عورت ابھی بادشاہ سے گفتگو ہی کر رہی تھی کہ دروازہ کھٹکھٹانے کی آواز آئی۔ بادشاہ نے پوچھا ”یہ کون ہے؟“

”میرا شوہر“ عورت بولی۔
بادشاہ غصے میں آ گیا ”اس سے کہو اپنی مرضی سے چلا جائے ورنہ اسے طاقت سے واپس بھیج دیا جائے گا۔“
عورت بولی ”فکر کی بات نہیں، میں اسے پیار سے واپس بھیج دوں گی۔ آپ ذرا مصلحت سے کام لیں۔“
”کیا مطلب؟“ ڈاکٹر نے پوچھا۔
اس نے بادشاہ کا ہاتھ پکڑا اسے چوتھے خانے میں بند کیا اور واپس آنے کا وعدہ کر کے دروازے کی طرف چل دی۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 681 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments