ہم امن پسند اور مندر کی گھنٹی


ویسے تو ہم امن پسند اور روشن خیال لوگ ہیں۔ جن کی ہاتھ اور زبان سے کسی کو تکلیف نہیں پہنچ سکتی۔ جو خود سے تعداد میں کم لوگوں کا محافظ بھی خود کو مانتے ہیں۔ ما سوائے اس کے کہ انہیں جینے، سانس لینے، اپنی مرضی سے شادی کرنے، کمیونٹی میں گھر بنانے دینے کے انہیں ہر طرح کے حقوق دیتے ہیں۔ کیونکہ ہم اچھے اور امن پسند لوگ ہیں۔

ہاں جہاں ہم اقلیت میں ہیں وہاں ہمیں ہر طرح کے بنیادی حقوق اپنی مرضی سے سڑک پہ بھی عبادت کرنے کی آزادی ہونا چاہیے۔ ہم اڑتے جہاز میں بھی صف باندھ لیتے ہیں۔ چلتی ٹریفک کے بیچ و بیچ نیت باندھ کے کھڑے ہو جاتے ہیں اور وہاں پہ موجود اکثریت جو دھتکاری ہوئی اقوام خیال کی جاتی ہیں ہمارے اس شخصی آزادی پہ چوں تک نہیں کرتیں بلکہ حیرت سے دیکھ کے انتظار کرتی ہیں کہ کب یہ اپنی عبادت سے فرصت پائیں اور کب وہ اپنے کام کریں۔

ادھر ہم امن کے داعی ان جہنمیوں کو زبردستی مذہب تبدیل کرواتے ہیں کہ چلو کچھ تو آخرت سنورے، ان کی نا بالغ بچیوں کی شادیاں اپنے بھائی بندوں سے کرواتے ہیں کہ نسلیں تو نیک پیدا ہوں، ان کو بتاتے ہیں کہ نامرادو تھوڑا پیسہ اکٹھا کر لیا تو کیا ہم میں ہی آ بسو گے تو بس دوچار گولیاں برسا دیتے ہیں، آخر کو سمجھانا بھی تو ہوتا ہے، ایسے تو ناہنجار سمجھتے نہیں۔ امریکہ میں بلیک لائف میٹرز کے ٹرینڈ کا حصہ بنتے ہیں لیکن اپنی مٹی کی بات اور ہے یہاں تو پھر ایسے چونچلوں کے لیے وقت نہیں ہے۔ ایک ایسی بھی اقلیت کو سنبھالے ہوئے ہیں جسے نہ تو اقلیت ماننے پہ رضامند ہیں، نہ انسان، نہ اپنے مذہب کا نہ ہی کسی اور مذہب کا۔ پھر بھی انہیں سانس لینے کی اجازت دیے ہوئے ہیں جب تک کہ پتہ نہ چلے کہ ان کی شناخت کیا ہے۔

اس ساری محبت بھری صورتحال میں نجانے یہ کسی کو کیا سوجھی کہ ایمان کی حرارت والوں میں شب بھر میں مندر بنانے کا سوچ لیا۔ یہ بھی کوئی بات ہے بھلا ان کی اکثریت ملک میں تو جمہوریت ہے موئے سیکولر کہتے ہیں خود کو وہاں تو مندر کی گھنٹہ بھی بجے گی، چرچ میں پرئیر بھی ہو گی، مسجد سے اذان بھی بلند ہوگی لیکن یہاں نہیں بالکل نہیں یہاں ایسی کوئی اجازت نہیں۔ ایسے نا اہل نہیں ہیں دل والے کہ یہاں مندر کی گھنٹی بجنے دیں۔ بھئی ہمارے حقوق حقوق ہیں چبھے کانٹا جو کابل میں تو پیر و جوان تڑپ اٹھتے ہیں یک جسم جو ہوئے۔ کسی کی جرات کہ کوئی ہمیں ہمارے کسی بھی کام سے روکے لیکن کسی اقلیت کی جرات کہ وہ ہمارے سامنے چوں بھی کرے۔ کس نے کہا یہاں رہو، کس نے کہا کہ ہماری ہوا میں سانس لو، اس مٹی کا ذرہ ذرہ ہمارا تم ہو خوامخواہ اس میں۔ اس لیے چپ کر کے قوت ایمانی دیکھو۔ زیادہ روشن خیال نہ بنو۔ من مندر کی گھنٹیاں بجاؤ اور پوجا کرو اپنے بھگوان کی۔ یہاں ایسا کام کرنے کی اجازت نہیں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments