تاریخ بے رحمی سے خود کو دہراتی ہے


کہتے ہیں کہ the more things change the more they stay the same یعنی تبدیلی نظر کے دھوکے کے سوا کچھ بھی نہیں۔ نئے حالات سے جڑی امیدیں صرف ظاہر تک ہی محدود ہوتی ہیں۔ ذرا کریدیں تو معلوم پڑتا ہے کہ یہ سب کبھی پہلے بھی ہو چکا ہے۔ یہی احساس چند روزقبل ریحان فضل کی بی بی سی ہندی کے لئے لکھی تحریر ’سراج الدولہ: وہ شخص جس کے وحشیانہ قتل کے بعد انڈیا میں انگریزوں نے 180 سال تک راج کیا تھا

https://www.bbc.com/urdu/regional-53269050

 پڑھ کر ہوا اور وطن عزیز کی تاریخ اور بالخصوص گذشتہ دس سال کے واقعات ذہن میں گھومنے لگے۔

ذیل میں ریحان فضل کے کالم کی کچھ سطریں ہو بہو نقل کی گئیں ہیں۔ صرف کرداروں اور علاقوں کے نام حذف کئے گئے ہیں تا کہ قارئین خود خالی جگہ پر کریں۔ اس خیال سے کہ یہ مشق نہ صرف ریاست اور عوام کے تعلق کو سمجھنے میں مددگار ثابت ہو گی بلکہ یہ بھی واضح کریگی کہ تاریخ کا وہ کون سا دور ہے جو ’گذرنے ہی میں نہیں آتا۔‘

اگلے ہی دن ۔۔۔۔ نے ۔۔۔۔  کو ایک نوٹ بھیجا جس میں کہا گیا تھا کہ ’میں آپ کو اس فتح پر مبارکباد دیتا ہوں۔ یہ فتح میری نہیں ہے۔ مجھے امید ہے کہ آپ کو ۔۔۔۔ بنانے کا اعلان کرنے کا اعزاز مجھے حاصل ہوگا۔‘

۔۔۔۔ نے ۔۔۔۔  کو مشورہ دیا کہ وہ فوری طور پر دارالحکومت ۔۔۔۔ کی طرف کوچ کر جائیں اور اس پر قبضہ کر لیں۔ انھوں نے آگاہ کیا کہ ۔۔۔۔  کے ساتھ اُن کے کرنل ۔۔۔۔ بھی جائیں گے۔

سر پینڈرل مون اپنی کتاب ’دا برٹش کونکویسٹ اینڈ ڈومینین ان انڈیا‘ میں لکھتے ہیں کہ ’یہ ۔۔۔۔  ہی تھے جنھوں نے ۔۔۔۔  کو تخت پر بٹھایا اور انھیں سلامی دی۔ پھر انھوں نے اعلان کیا کہ کمپنی ۔۔۔۔  کے اقتدار میں کسی بھی طرح مداخلت نہیں کرے گی اور صرف تجارتی معاملات پر نگاہ رکھے گی۔‘

انگریزوں نے اس جنگ کے 180 سال بعد تک یک طرفہ طور پر ہندوستان پر حکمرانی جاری رکھی۔

اگلے کچھ دن بہت تناؤ میں گزرے۔ ۔۔۔۔ کو خوف تھا کہ ۔۔۔۔  اپنے وعدے سے مکر نہ جائیں۔ وہ دونوں ایک دوسرے کو اسی طرح عذاب دینے کی کوشش کر رہے تھے جیسے دو بڑے غنڈے بڑی لوٹ مار کے بعد اس کو بانٹنے کے لیے بیٹھ گئے ہیں۔

 ۔۔۔۔ اس لوٹ مار میں سے اپنا حصہ لینے کے منتظر تھے۔

اسی دوران ۔۔۔۔  اپنے درباریوں اور اہلکاروں سے یہ مشورہ کرتے رہے کہ ۔۔۔۔  کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے۔ اس کے پاس تین متبادل راستے تھے۔ یا تو ۔۔۔۔  کو ۔۔۔۔  میں قید کر دیا جائے یا ملک سے باہر قید کیا جائے یا پھر انھیں سزائے موت دے دی جائے۔

۔۔۔۔ جیتنے کے ایک سال کے اندر ہی ۔۔۔۔  کا جلوہ کم ہونے لگا۔

کچھ عرصہ قبل تک ۔۔۔۔  کی وکالت کرنے والے ۔۔۔۔ نے انھیں ’دی اولڈ فول‘ یعنی بیوقوف بوڑھا اور ان کے بیٹے ۔۔۔۔ کو ’دا ورتھ لیس ینگ ڈاگ‘ یعنی ایک بیکار نوجوان کتا قرار دیا۔

سستی، نااہلی اور افیون نے ۔۔۔۔  کو یکسر تبدیل کر دیا تھا۔

 ۔۔۔۔ نے ۔۔۔۔  کو ایک خط لکھ کر کہا تھا جس شخص کو ہم نے تخت پر بٹھایا وہ مغرور، لالچی اور بات بات پر گالی دینے والا شخص بن گیا ہے۔ اپنے اس رویہ کی وجہ سے وہ اپنے عوام کے دلوں سے دور ہوتا جا رہا ہے۔‘

۔۔۔۔ کے تین سال کے اندر ہی اندر ۔۔۔۔ کے سب سے امیر شہروں میں ایک ۔۔۔۔ غریبی کی دہلیز پر آن کھڑا ہوا تھا۔

 ۔۔۔۔  نے ۔۔۔۔ کو برباد کر دیا۔

اس بربادی کے لیے بہت حد تک خود ۔۔۔۔  ذمہ دار تھے۔

اس کا سارا وقت موسیقی سننے اور خواتین کا رقص دیکھنے میں صرف ہوتا تھا۔

کچھ ہی دن میں یہ واضح ہو گیا تھا کہ ۔۔۔۔  میں ۔۔۔۔ پر حکمرانی کرنے کی صلاحیت نہیں ہے۔ وہ ایک ان پڑھ عرب سپاہی کی طرح تھے جن کا راج پاٹ سے کوئی واسطہ نہیں تھا۔

سر پینڈرل اپنی کتاب ’دا برٹش کونکویسٹ اینڈ ڈومینین آف انڈیا‘ میں لکھتے ہیں کہ ’۔۔۔۔ نے خود ۔۔۔۔ جانے والے جہاز پر سوار ہونے سے پہلے کہا تھا کہ ۔۔۔۔  میں حکمرانی کا دم نہیں ہے۔ ان میں یہ صلاحیت نہیں ہے کہ وہ اپنے لوگوں کی محبت اور ان کا اعتماد حاصل کر سکیں۔ ان کی بدانتظامی نے ۔۔۔۔ کو انتشار کی طرف دھکیل دیا ہے۔‘

جب ۔۔۔۔  نے ۔۔۔۔ بھیجی جانے والی اپنی رپورٹ میں لکھا کہ ’کوئی بھی دلیل اس ولن کے کرتوتوں پر پردہ نہیں ڈال سکتی ہے۔ مجھے یہ کہنے کے لیے معاف کیا جائے کہ ایسے شخص کی ہماری حمایت کسی بھی طرح سے جائز نہیں ہو سکتی۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments