شیخ منظور الٰہی کی نثر نگاری پر ایک نظر


چند ہفتے پہلے میں نے ”ایک ادیب بیوروکریٹ کی کچھ باتیں اور یادیں“ کے عنوان سے شیخ منظور الٰہی کے حوالے سے ایک مختصر مضمون قلم بند کیا تھا جو ”ہم سب“ میں شائع ہوا تھا۔ کچھ احباب نے رائے دی کہ اس حوالے سے کچھ مزید لکھا جائے چنانچہ یہ تحریر اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے تاہم یہ صرف ان کی نثر نگاری کا احاطہ کرتی ہے جو دنیائے ادب میں ان کا بنیادی حوالہ ہے۔

نثر نگاری اور انشا پردازی میں منظور الٰہی کو مضامین کی صنف ہی مرغوب ہے۔ انہوں نے متنوع موضوعات پر مضامین تحریر کیے جن میں، تاریخ، تحریک پاکستان، ذاتی زندگی کے شب و روز، سفری احوال، شخصیات، ملازمت کے نشیب و فراز۔ بیوروکریسی کی اندرونی کہانیاں، سیاسی مدوجزر، غرض یہ کہ موضوعات میں بہت تنوع ہے تاہم شخصیت نگاری ان کا مرغوب اور محبوب موضوع ہے۔

ان کی چار کتابیں شائع ہوئی ہیں جن میں ”در دل کشا“ ، سلسلۂ روز و شب ”، نیرنگ اندلس“ اور ”ہم کہاں کے دانا تھے“ شامل ہیں۔ کتابوں کی اشاعت کے درمیان میں طویل وقفے ہیں۔ انہوں نے طویل عمر پائی مگر کتابیں صرف چار لکھیں۔ اس کی وجہ یہی نظر آتی ہے کہ مقدار میں تو انہوں نے کم لکھا مگر جو لکھا اعلٰی معیار کا لکھا۔ وہ بیوروکریسی میں نیک نام تھے تو نثر نگاری میں منفرد، ان کے اسلوب اور طرز تحریر کی ایک خاص چھاپ ہے جو ان کی تحریروں پر نمایاں نظر آتی ہے۔ اسے ہم تخلیقی نثر کہہ سکتے ہیں۔ تخلیقی نثر کی ایک خوبی حسن تحریر ہے۔ تخلیقی نثر لکھتے ہوئے بعض ادیبوں کے ہاں ابہام یا ایہام پیدا ہو جاتا ہے جو ابلاغ کو مجروح کرتا ہے مگر منظور الٰہی کی تحریر کی یہ خوبی خاص طور پر قابل ذکر ہے کہ وہ تخلیقی اور خوب صورت اسلوب میں گندھی ہونے کے باوجود ابلاغ کے جملہ تقاضوں کو پورا کرتی ہے۔

ان کا اسلوب تہہ دار نہیں کہ مفہوم و معانی سمجھنے میں دشواری ہو، وہ رواں، غیر مبہم اور خوب صورت الفاظ سے مزین نثر تحریر کرتے ہیں۔ ان کا انداز کہیں کہیں شاعرانہ ہے مگر وہ قافیہ پیمائی سے گریز کرتے ہیں۔ ان کی تحریروں میں تشبیہ اور استعارے کا استعمال بھی شاذ و نادر ہے۔ وہ سیدھی رواں عبارت تحریر کرتے ہیں جس میں کہیں الجھاؤ نہیں۔ وہ سادہ عبارات تحریر کرتے کرتے اچانک اپنے مخصوص اسلوب میں چند جملے لکھتے ہیں اور آگے بڑھ جاتے ہیں۔

اپنی تحریروں میں وہ اردو اور فارسی کے اشعار اور مصرعے استعمال کرتے ہیں مگر فارسی اشعار اور مصرعوں کا ترجمہ نہیں دیتے لیکن اس سے مفہوم سمجھنے میں کوئی خلل واقع نہیں ہوتا البتہ اگر پڑھنے والے کو فارسی کی کچھ شد بد ہو تو لطف دوبالا ہو جاتا ہے۔ ان کی تحریر میں ایک خاص طرح کی دردمندی اور اعلٰی درجے کی جذبات نگاری ملتی ہے۔ وہ واقعات کو بیان کریں، اپنے ذاتی احوال تحریر کریں، اپنے ماحول کی روداد لکھیں، تاریخی واقعات پر قلم اٹھائیں، کسی کی تحسین و تکریم اجاگر کریں، ہر جگہ ایک خاص طرح کا عجز ہے جو ان کی تحریروں میں جھلکتا ہے۔ وہ کسی بھی طرح کی نرگسیت یا خود پسندی کا شکار نظر نہیں آتے، وہ ہر جگہ شامل بھی ہیں مگر اس انداز میں کہ منظر سے الگ بھی نظر آتے ہیں :

شمع محفل کی طرح سب سے جدا سب کا رفیق

ان کے ایک ہم عصر بیوروکریٹ مختار مسعود بھی بہت عمدہ نثر نگار ہیں اور اگر ان کی نثر اور شیخ منظور الٰہی کی نثر کا موازنہ کریں تو ایسا لگتا ہے کہ مختار مسعود کی تحریریں دماغ کے دروازے پر دستک دیتی ہیں تو منظور الٰہی کی تحریریں دل کے تار چھیڑتی ہیں۔ مختار مسعود کا اسلوب تہہ دار ہے جس کی وجہ سے وہ اکثر اشارے کنائے میں بات کر جاتے ہیں اور قاری کو بعض اوقات سمجھنے میں دشواری ہوتی ہے یا نتائج کے بارے میں وہ اپنے اندازے لگاتا ہے مگر منظور الٰہی کا اسلوب اکہرا ہے جس کی وجہ سے مفہوم و معانی میں کہیں الجھاؤ پیدا نہیں ہوتا۔ وہ اشارے کنائے میں بات نہیں کرتے، جس کی وجہ سے ان کی نثر کا قاری ہر لحظہ ان کے ساتھ ساتھ چلتا ہے۔

ان کی تحریر کی ایک خاص بات اس کی اثر پذیری ہے۔ ابھی میں نے ذکر کیا کہ ان کی تحریر دل کے تار چھیڑتی ہے اور جذبات میں مد و جزر پیدا کرتی ہے۔ ان کی تحریروں کے کچھ حصے ایسے بھی ہوتے ہیں جو نرم دلوں پر کچھ ایسے اثر انداز ہوتے ہیں کہ آنکھیں بے اختیار نم ہو جاتی ہیں اور ان کا اثر تادیر رہتا ہے۔ بے ساختگی، مہذب لب و لہجہ، آداب و مراتب کا خیال ان کی تحریروں کے ایسے اوصاف ہیں کہ وہ ہر جگہ اظہار و بیان میں اپنی اس سطح اور مقام و معیار کو برقرار اور قائم رکھتے ہیں۔

اب ذرا ذکر ان کی کتابوں کا ہو جائے۔ ترتیب کے اعتبار سے دیکھیں تو سب سے پہلی ”در دل کشا“ ، دوسری ”سلسلۂ روز و شب“ ، تیسری ”نیرنگ اندلس“ اور آخری جو ان کی وفات کے بعد شائع ہوئی ”ہم کہاں کے دانا تھے“ ہے۔ پہلی کتاب ”در دل کشا“ میں آٹھ مضامین ہیں۔ ان میں ”عذر گناہ“ ان کے کچھ ذاتی احوال کا آئینہ ہے۔ ”اے گلستان اندلس“ مسلم سپین کی سیاحت، ”برگ خزاں“ اور ”قوس قزح سے فرار“ یورپی ممالک کی سیاحت کا بیان ہے۔ ”سونار دیش“ مرحوم مشرقی پاکستان کی مہک لیے ہوئے ہے۔ ”غروب عظمت“ ان کے والد محترم شیخ محبوب الٰہی کا وفات نامہ ہے۔ ”یاروں نے کتنی دور بسائی ہیں بستیاں“ اپنے اعزہ و اقارب اور احباب کے انتقال پر لکھی گئی اشک آور تحریریں ہیں اور ”قرۃ العین طاہرہ“ بہائی مذہب کے ایک تاریخی کردار کی تخلیقی تصویر کشی ہے۔ اس کتاب کے ویسے تو سارے مضامین ہی قابل ذکر ہیں مگر مجھے ذاتی طور پر ان میں سے دو مضامین بہت پسند ہیں۔ ایک ”عذر گناہ“ اور دوسرا ”یاروں نے کتنی دور بسائی ہیں بستیاں“ ۔ ”عذر گناہ“ میں مضمون نگار کے کچھ ذاتی تجربات اور مشاہدات کی جھلک ہے۔ مثال کے طور پر یہ حصہ دیکھیے :

”کرنیں، لہریں، شگوفے، مدوجزر ( یہ کچھ کتابوں کے نام ہیں ) میرے عنفوان شباب کے ساتھی، ان کی خوشبو ذہن میں بسی ہے۔ وہ ہلکی پھلکی چیزیں تھیں جو مجھے اچھی لگیں۔ میں نے انہیں ناقدانہ انداز سے نہیں دیکھا تھا، وہ عمر بھی ایسی نہیں ہوتی۔ مجھے ان کرداروں سے انس تھا، ان کے ساتھ یگانگی کا احساس تھا۔ شاید ان افسانوں میں وہ بے لوث محبت ڈھونڈ تا تھا جو مجھے نصیب نہ تھی اور یہ سوال ذہن میں گونج جاتا، پس منظر وہی ہے، وہی آسودہ حالی، ڈرائنگ روم، گرمیوں میں پہاڑ پر چلے جانا، پھر اس محرومی کا سبب؟ محبت کے معمے میرے لیے سربستہ راز رہے اور جذبات کا دھارا راستہ نہ پا کر لوٹ کے آتا رہا۔ احساس تنہائی دل پر شب خون مارتا رہا۔ اب یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے وہ شخص جس نے ذہنی کرب سہا، جو الجھنوں میں پڑا رہا کوئی اور تھا۔ مجھ میں اور اس میں مماثلت کم، اختلاف زیادہ ہے“ ۔

اس مضمون میں ان کی شادی سے پہلے کے کچھ جذباتی تجربات کا بیان بھی ہے مگر بے حد شائستہ اور سلجھے ہوئے انداز میں۔ اس ضمن میں وہ شمسہ اور لی زا کا ذکر کرتے ہیں۔ اس ذکر میں وہ انتہائی مہذب اور شائستہ انداز میں اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہیں اور بالآخر ان تجربوں کا نچوڑ وہ جملے ہیں جو انہوں نے اپنی اہلیہ کے نام لکھے :

” تم بنت عم ہو جس نے محبت کی اور اسے دل میں دفن کر دیا۔ تم شمسہ ہو جسے میں نے ’والکینو‘ کا خطاب دیا تھا۔ تمہاری محبت لی زا کی یاد دلاتی ہے جو اس لفظ سے نا آشنا تھی۔ تم سب کچھ ہو اور کچھ بھی نہیں کہ دوئی کا حجاب درمیان سے اٹھ چکا۔ تمہاری محبت میں صہبا کی تندی نہیں، آتش فشاں کی حدت نہیں، تاروں بھری رات کی آسودگی ہے“

اس انداز تحریر میں کہیں بھی ابہام نہیں۔ زبان خوب صورت، ابلاغ کے معیار کے مطابق، کہیں تہہ داری نہیں، کہیں الجھاؤ نہیں، صاف اور رواں تحریر جو قاری کو اپنے ساتھ بہائے لیے جاتی ہے۔ ذاتی احوال کا بیان ہویا قومی و ملی احساس کی ترجمانی، ان کی تحریر میں یہی رنگ نظر آتا ہے۔ ذرا یہ حصہ دیکھیے :

” وہ سہانا خواب کیا ہوا جس میں ہم نے ایک جنت ارضی بنانے کا عزم کیا تھا؟ جس سرزمین کی اساس اخوت اور محبت پر تھی وہاں سونے کے بچھڑے کی پوجا ہوئی، ہل من مزید ہل من مزید کی صدائیں بلند ہوئیں اور خود غرضی ایک مسلک بن گئی۔ وہ قوس قزح کہاں تھی جس کی تلاش میں ہم نکلے تھے؟“ حریفان بزم عشق کہاں رہ گئے، جنہیں میں رفیق سفر سمجھا تھا؟ جانے وہ کن گھاٹیوں میں بھٹک گئے؟ کن جل پریوں کے دام تزویر میں آ گئے؟ احساس محرومی پر سوتے ہوئے دھارے پھوٹ پڑے اور خوابیدہ حسرتیں بیدار ہو گئیں۔

پنہاں ملول بودن و تنہا گریستن

یہ آنسو ان سپنوں کی نذر ہوئے جو شرمندہً تعبیر نہ ہوئے، اس کرب کی نذر تھے جس کا مداوا ہمارے پاس تھا مگر ہم نے بخل سے کام لیا، وہ سر جو قہر مانیوں کے سامنے خم نہ ہوا تھا، آج جھک گیا تھا اور وہ دل جسے دنیاوی رفعتیں مسخر نہ کر سکی تھیں، آج رو رہا تھا ”۔

( جاری ہے )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments