لڑکیو، یوں محبوب کی تلاش میں تماشا نہ بنو


باز آ جاؤ کے زمانہ بڑا برا برباد چل رہا ہے، یہ دھوکہ یہ فریب یہ محبت کے جھوٹے کھیت کھلیان جہاں بیویوں کی سسکیوں سے محبت کی پیاس بجھانے کی ناکام کوششیں کی جاتی ہیں، کامیاب تو ایسے لوگ ہوتے ہیں نہیں کے وہ شرافت کے ”ش“ اور مہذب کے ”ب“ سے پاک ہوتے چلے آرہے ہوتے ہیں، یعنی کیا؟

ارے ایک بار آزمائش بار بار فرمائش۔ کیا کبھی سنا نہیں آپ لوگوں نے یعنی ایک لڑکی ”یا قربان“ ہوئی اگلی خود بخود پروان چڑھتی ہیں، ایک ہی مزاج ایک انداز، ایک ہی سوچ کی عکاس یہ لڑکیاں مردوں کو پیار کا پاگل پن سکھاتی ہیں اور خوب دل کے ننھے ننھے جھوٹ اور فریب کی آگ میں پرورش پاتے خیالات کو تسلی دیتی ہیں۔

اب کی بار، ہماری باری، باقی بھاڑ میں جائے دنیا ساری۔

یہ کیا ایک لڑکی ہے؟ جو اپنے حسن سے خود فریب کھاتی پھرتی ہے، نا اسے اپنے جسم سے لگاؤ ہوتا ہے نا اپنی ذات کے تحفظ سے یہ صرف توجہ کی ماری گھر سے باہر، باہر سے بازار اور بازار سے اپنا وجود برائے فروخت کرنے نکلتی ہے کے شاید کوئی اچھا گاہک اسے مل جائے اور اسے اس کے حسن ظن کے عوض ایک اچھا حسین حسن پرور انسان ملے جو اس کے حسن کو اس کے معیار کے سانچے میں ڈھالنے کا ہنر رکھتا ہو، محبت کا فریب اور فریب سے اپنا جیب خرچ بچانے والا یہ نیا نویلا مطلوب محبوب آپ کو اپنے دل میں داخل ہونے کا راستہ خود دکھاتا ہے، وہ کیسے وہ ایسے۔

کیا حسن ہے کیا جمال ہے، کمال ہی کمال ہے۔

بس لڑکیاں ہوجاتی ہیں مہربان اور اس مہربانی میں وہ محبوب کی میزبانی کرنے کا سوچتی ہیں ضروری نہیں وہ آپ کو دعوت پر گھر بلائیں، اپنی امی سے ملوائیں، وہ تو پہلے آپ کو آزمائیں گی کے ہنڈیا کھانے کے قابل ہے یا آگ میں جلانے کے قابل۔

کچھ تبادلہ خیال ہوگا، کچھ باتیں بتائی جائیں گی، کچھ سننے سے پہلے جال بنا جائے گا، لڑکی پاگل نہیں ہوتی آپ کی مرضی سے آپ کے مرض کا علاج کرے وہ تو خود لاعلاج مرض سے دوچار، اپنی شناخت کے حصول میں در در بھٹک کر مرد کو ایسی مار مارنا چاہتی ہے کہ وہ نا گھر کا رہے نا گھاٹ کا۔ اصل میں وہ خود اپنا آپ تلاش کر رہی ہوتی ہے اور اسے اپنے آئینے میں صرف ایک مرد محبوب کے درجے پر فائز کرنا ہوتا ہے۔ یہ اس کا حق ہے کیونکہ وہ حسینہ ہے، مہ جبینہ ہے، تو دل کو سکون دینا ہوگا۔

کوئی ساتھی جو ساتھ نبھائے نہ نبھائے روز کال ملائے، مفت محبت کے مرغوب مشوروں سے آپ کے حسن کو داد دے اور پھر دل کا غبار آنکھوں سے اشکبار ہو جانے کے بعد ”مفرور محبت کے حضور“ کا تمغہ لیے ہوا میں تحلیل ہو کر خیالات کے دیس میں دفن ہو جائے۔

یہی ہیں وہ آدمی جو دھوکے باز، دو نمبر گھٹیا پیمانوں پر اپنی نفسانی خواہشوں کی ہوس کو جلا بخشتے ہیں۔ یہی بیویوں سے جھوٹ بول بول کر دیر سے گھر آتے ہیں اور پیار کی میٹنگز نمٹاتے ہیں۔ یہ کہلاتے ہیں مرغن محبوب جن میں فریب اور جھوٹ کا بگھار لگا ہوتا ہے۔ یہ گھر میں اور اور باہر زیر غور آنے کے لیے اپنی شادی کو چھپاتے ہیں، آفس میں لڑکیوں پر اخلاقی اقدار کا سرمہ بنا کر ان لڑکیوں کی آنکھوں میں سجاتے ہیں جو خود اپنے وجود کی تلاش میں سرگرداں، تو نہیں تو کوئی اور، کوئی اور نہیں تو کوئی نہ کوئی زیر غور لاکر اپنے حسن کو جمال کو ، جسم کے خدو خال کو ایسے استعمال کرتی ہیں جیسے بازاروں میں سامان تجارت بیچنے کے لیے سجایا جاتا ہے۔

تم کون ہو، کیوں ہو اور کیا کرنے چلی ہو؟ ذرا سوچ کر چپل پیر میں ڈالو، ان زلفوں کے اسیر بازاروں میں نہیں عزت کے گھرانوں میں ملتے ہیں، اور گھرانے شرافت کے آئینہ دار ہوتے ہیں۔ یوں محبوب کی تلاش میں تماشا نہ بنو۔ تمھارا رستہ ناہموار ہے اور ناہموار راستوں پر صرف ٹھوکریں ملتی ہیں۔ محبوب کی ٹھوکریں اور فریب کے ساتھی، بار بار محبت اور ہاتھ خالی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments