نسیم اللہ شیخ: ہمارے شہر کا زندہ دل آدمی تھا جو نہ رہا


گورنمنٹ سر سید کالج گجرات کے اساتذہ اور طلباء کے علاوہ کچھ جانے پہچانے چہرے کالج کے آفس کے بھی یاد آتے ہیں۔ جن میں نسیم اللہ شیخ، محمد اسلم، محمد اصغر (چاچا اصغر) اور خادم حسین بھی شامل ہیں۔ مگر آج ”ذکر نسیم“ ہو جائے

نسیم اللہ شیخ بڑے خوش وضع، خوش لباس اور دلچسپ شخصیت کے مالک تھے۔ وہ پرنسپل کالج اے۔ یو۔ سہگل مرحوم اور پبلک ماڈل سکول کے پرنسپل شفقت اللہ شیخ مرحوم کے بھانجے تھے۔ وہ کالج سے 1980 کی دہائی کے آخری سالوں میں ہیڈ کلرک بن کر ریٹائر ہوئے۔ دوران سروس وہ زیادہ عرصہ بیرون ملک لمبی چھٹیوں پر رہتے تھے۔

کالج میں ہمارے سیشن 1981 تا 1985 اے۔ یو۔ سہگل صاحب پرنسپل تھے۔ نسیم اللہ شیخ اپنی خوش لباسی سے پروفیسر ہی لگتے تھے۔ اکثر اوقات وہ دیدہ زیب پینٹ کوٹ پہن کر کالج آتے۔ بہت عرصہ میں انہیں کالج کا کوئی پروفیسر ہی سمجھتا رہا۔ 1985 ء میں بی اے کے دوران عمروں میں واضح فرق کے باوجود میری ان سے اچھی شناسائی ہو گئی تھی۔ اس کی واحد وجہ نسیم اللہ شیخ صاحب کی دلچسپ شخصیت تھی۔

مجھے کوئی لاہور کام ہوتا یا انہیں لاہور جانا ہوتا تو ایک دوسرے سے پوچھ لیتے کہ فلاں دن جانا ہے۔ اس طرح کئی بار اکٹھے لاہور اور ایک بار راولپنڈی کا سفر بھی کیا۔ کہتے ہیں نا کہ بندے کی شخصیت کو جانچنے کا سفر بھی ایک اچھا ذریعہ ہے۔ اسی دوران معلوم ہوا کہ وہ بہترین داستان گو تھے۔ بیرون ممالک خصوصاً انگلینڈ اور دیگر ممالک کے اپنے قیام کے دوران کے دلچسپ واقعات سنایا کرتے تھے۔

نسیم اللہ شیخ 22 اپریل 1939 کو گجرات کے محلہ قانون گوئیاں میں شیخ حبیب اللہ اور آمنہ بی بی کے گھر پیدا۔ گورنمنٹ زمیندار کالج گجرات سے اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ سر سید کالج گجرات میں بطور کیشیر بھرتی ہوئے۔ بعدازاں 80 ء کی دہائی کے آخر میں اپنی ملازمت سے بطور ہیڈ کلرک ریٹائر ہو گئے۔

نسیم اللہ شیخ 1963 ء میں رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئے۔ ان کے دو بیٹے اور چھ بیٹیاں ہیں۔ ان کی ایک بیٹی خجستہ نسیم کی شادی گجرات کے ادریس خان درانی مرحوم سے ہوئی تھی۔ وہ آج کل لاہور میں مقیم ہیں۔ ایک بیٹا شیخ فقہیم اللہ اور تین بیٹیاں بجوت نسیم، حمدہ نسیم اور حدیقہ نسیم اپنی فیملیز کے ہمراہ انگلینڈ میں مقیم ہیں۔ (شیخ فقہیم اللہ کا رواں سال دس جون کو انگلینڈ میں انتقال ہو گیا ہے ) شیخ نسیم اللہ کا ایک صاحبزادہ شیخ تکریم اللہ اور دو بیٹیاں مدیحہ نسیم اور نزہت نسیم امریکہ میں رہائش پذیر ہیں۔

1985 میں انہی کے ہمراہ میری لاہور میں گورنمنٹ کالج لاہور کے پروفیسر جاوید اکرام شیخ صاحب سے ملاقات ہوئی تھی۔ مجھے خوب یاد ہے کہ نسیم اللہ شیخ نے مجھے بتایا کہ ان کے بڑے اچھے دوست پروفیسر جاوید اکرام شیخ صاحب (حال مقیم ورجینیا) وحدت روڈ لاہور کی سرکاری رہائش گاہ میں رہتے ہیں۔ ان سے مل کر جانا ہے۔ (ایک لحاظ سے پروفیسر جاوید اکرام شیخ صاحب کا لاہور میں گھر نسیم اللہ شیخ صاحب کا ”سٹے اوور“ یا ”ٹرانزٹ“ مقام ہوتا تھا۔ وہ لاہور آئیں اور ان سے ملے بغیر چلے جائیں ایسا کم ہی ہوتا تھا)

1985 ء میں گرمیوں کے دن تھے۔ جب میں اور نسیم اللہ شیخ ایک دن پنجاب یونیورسٹی میں اپنا کوئی کام نمٹا کر پروفیسر جاوید اکرام شیخ صاحب کے گھر پہنچے تو غالباً دو تین بجے دوپہر کا وقت تھا۔ میں نے شیخ نسیم اللہ صاحب سے کہا کہ ”سہ پہر کا وقت ہے۔ یہ وقت مناسب نہیں ہے ملنے کا۔ پروفیسر صاحب آرام کر رہے ہیں ہوں گے۔ واپس چلتے ہیں پھر کبھی آ کر مل لیں گے“ ۔ شیخ صاحب آگے سے مجھے کہنے لگے۔

”او چھڈ یار کھر والی گل اے“ ۔

اور ساتھ ہی ڈور بیل بجا دی۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے جب جاوید اکرام شیخ صاحب نے دروازہ کھولا تو مجھے محسوس ہوا کہ شاید وہ آرام کر رہے تھے۔ اور ہم نے بے وقت انہیں زحمت دی ہے۔ مگر خلاف توقع پروفیسر صاحب نے خوش دلی سے، ”او آ نسیم اللہ“ کہہ کر ہمیں خوش آمدید کہا۔ بیٹھنے کے بعد نسیم اللہ نے میرا بھی تعارف کرایا۔ پھر دونوں دوستوں میں نئی اور پرانی باتیں شروع ہو گئیں۔ مجھے یہی لگا کہ دونوں صرف دوست ہی نہیں بلکہ پکے ”لنگوٹیے“ ہیں۔

دونوں کو بے تکلف باتیں کرتے سن کر ساتھ والے کمرے میں شاید پروفیسر صاحب کی اہلیہ کو کچھ اندازہ ہو گیا تھا کہ کوئی خاص مہمان ہیں۔ پھر بھی وہیں بیٹھے بیٹھے پروفیسر جاوید اکرام شیخ صاحب نے اونچی آواز سے کہہ دیا کہ

”گجرات توں اپنا نسیم اللہ شیخ تے اودھا دوست آیا اے“ ۔

تھوڑی دیر بعد پروفیسر صاحب اندر گئے اور شربت لے کر آ گئے۔ شربت گلاسوں میں انڈیلتے دیتے ہوئے انہوں نے پوچھا کہ ”کھانا آپ لوگوں نے کھایا ہے کہ نہیں“ ۔ اس سے پہلے کہ میں بولتا کہ سر کھانے کی ضرورت نہیں ہے، نسیم اللہ بول پڑے کہ

” کھانا ابھی کھانا ہے ہم نے“ ۔ پروفیسر جاوید اکرام شیخ صاحب نے خوشگوار مسکراہٹ کے ساتھ اندر جا کر بتایا کہ مہمان کھانا بھی کھائیں گے۔ کیا بے تکلفی اور وضعداری کا مظاہرہ تھا دونوں جانب سے۔ اور وہ بھی بغیر کسی تصنع اور بناوٹ کے۔ پروفیسر جاوید اکرام شیخ صاحب اور ان کی اہلیہ کے اس مہمان نوازی اور پر خلوص رویے نے مجھے بڑا متاثر کیا تھا۔

1985 میں کالج سے نکلنے کے بعد نسیم اللہ شیخ سے بہت کم ہی رابطہ رہا۔ پھر امریکہ آنے کے بعد تو میرا رابطہ ان سے بالکل ہی ختم ہو گیا۔

نسیم اللہ شیخ نے اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد مستقل طور پر امریکہ میں سکونت اختیار کر لی تھی۔ 1993 میں امریکی صدر بل کلنٹن کے دور میں انہیں امریکی شہریت ملی۔ تاہم وہ اپنے بچوں سے ملنے کے لیے اکثر انگلینڈ بھی جاتے رہتے تھے۔ انہوں نے چند سال عراق میں بھی گزارے۔ سیرو سیاحت کے لیے فرانس اور افریقہ کے ممالک میں بھی جاتے رہتے تھے۔ ان کی زندگی کا ایک طویل عرصہ امریکہ میں ہی گزرا۔ میری لاعلمی کہیں یا کچھ اور، مجھے امریکہ میں رہتے ہوئے بھی ان کے متعلق معلوم ہی نہ ہو سکا کہ وہ بھی ادھر قیام پذیر ہیں۔ میرا گمان یہی رہا کہ وہ انگلینڈ منتقل ہو چکے ہیں۔

2008 ء کی بات ہے۔ میں ان دنوں امریکہ سے پاکستان گیا ہوا تھا۔ ایک دن میں اپنے دوستوں دوست ندیم شریف اور احمد سلطان کے ہمراہ شاہ فیصل گیٹ گجرات میں واقع ”مٹھائی محل“ میں بیٹھے ہوئے تھے۔ وہیں بیٹھے بیٹھے میں نے مٹھائی محل کے مالک قیصر سے نسیم اللہ شیخ صاحب کے متعلق دریافت کیا کہ یہیں آس پاس کسی محلے کہیں وہ رہتے ہیں۔ ان کے بارے میں کیا وہ جانتے ہیں؟ قیصر کو جب میں ان کا حلیہ بتایا تو کہنے لگے کہ ان سے زیادہ تو علیک سلیک نہیں ہے تاہم کبھی کبھار وہ اسی چوک میں نظر آ جاتے ہیں۔

حسن اتفاق یہ ہوا کہ تھوڑی دیر کے جب ہم گھر واپسی کے لیے مٹھائی محل سے باہر نکلے تو دفعتاً میری نظر ایک شخص پر پڑی۔ جو مٹھائی محل سے بلدیہ گجرات کی جانب دو دکانیں آگے بجلی کے کھمبے کے ساتھ کوٹ پینٹ پہنے کھڑا سگریٹ پی رہا تھا۔ مجھے پہلا گمان یہی گزرا کہ ہو نہ ہو یہ شخص نسیم اللہ شیخ ہی ہے۔ جس کا میں ابھی قیصر سے اندر ذکر کر کے آیا ہوں۔ قریب جا کر میں نے دیکھا تو وہ واقعی نسیم اللہ شیخ ہی تھے۔

مگر یہ کیا؟ میں نے اکیس بائیس سال پہلے جس خوش گفتار شیخ نسیم اللہ کو دیکھا تھا یہ وہ تو نہیں لگ رہے تھے۔ مگر ان کی ناک پر دائیں جانب بنے مسے کے نشان کی وجہ سے میں تو فوراً انہیں پہچان گیا۔

”شیخ صاحب! شیخ صاحب!

میں نے آگے بڑھ کر انہیں سلام کیا تو وہ مجھے جواب دینے کی بجائے مسلسل میرے چہرے کی طرف تکنے لگے۔ کچھ بول نہیں رہے تھے بس مسلسل میری جانب دیکھے جا رہے تھے۔ بیچ بیچ میں سگریٹ کا کش بھی لگا لیتے۔

ایسے ہی جب ایک دو منٹ گزر گئے تو میں سمجھا کہ شاید انہوں نے مجھے پہچانا نہیں ہے۔ میں نے سر سید کالج کے حوالے سے اپنا تعارف کروایا۔ مجھے مزید حیرانی اس وقت ہوئی جب وہ پھر بھی کچھ نہیں بولے۔ مجھ سے نظریں ہٹا کر پھر اوپر خلا کی جانب گھورنے لگے۔ میں ان کے رسپانس کا انتظار ہی کرتا رہا کہ وہ کچھ تو بولیں گے۔ چلیں یہی کہہ دیں کہ میں نے آپ کو نہیں پہچانا۔ سگریٹ کی راکھ ان کے کوٹ پر پڑی نظر آ رہی تھی۔ مجھے واضح طور پر وہ کچھ حواس باختہ سے نظر آئے یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے وہ اپنی یادداشت کھو چکے ہوں۔ خاموشی کا اتنا اذیت ناک اور طویل وقفہ ان کی جانب سے میں نے پہلی بار محسوس کیا تھا۔ اس حالت میں انہیں دیکھ کر دل دکھ سے بھر گیا۔

نسیم اللہ شیخ! اپنے وقت کا ایک خوش پوش، خوشگوار اور نفیس آدمی جس کو میں جانتا تھا۔ اس کی بجائے اپنے آپ اور دوسروں سے بیگانہ نسیم اللہ شیخ کو اس حلیے میں دیکھ کر میرے اندر دکھ اور درد کی ایک ٹیس سی اٹھی۔ مجھے یوں لگا کہ میرے اندر جس نسیم اللہ شیخ کی یادوں کا بسیرا تھا وہ اندر ہی اندر ڈھے سا گیا ہے۔ کیا ہو گیا ہے اسے؟

یہی سوچتا ہوا مٹھائی محل کے باہر کھڑے دوستوں سے آ کر اور اندر جا کر قیصر سے کہا کہ باہر کھڑے یہی شیخ نسیم اللہ ہیں جن کے بارے میں تھوڑی دیر پہلے میں آپ سے استفسار کر رہا تھا۔ قیصر نے باہر آ کر اور انہیں دیکھ کر کہنے لگے کہ ”اچھا آپ ان کا ذکر کر رہے تھے۔ یہ کسی دوسرے ساتھ والے محلے کے ہیں۔ ہاں کبھی کبھی آتے ہیں چوک میں ایک طرف چپ چاپ کھڑے ہو کر سگریٹ پیتے رہتے ہیں۔ بات چیت بھی کم ہی کرتے ہیں“ ۔

قیصر کی باتیں سن کر اور نسیم اللہ شیخ کی اپنی آنکھوں سے حالت دیکھ کر دکھ سے میری عجیب کیفیت ہو گئی تھی۔ یہی میری ان سے خاموش صورت ملاقات آخری ملاقات ثابت ہوئی۔ اس ملاقات کے چند ماہ بعد ہی نسیم اللہ شیخ اس جہاں فانی سے رخصت ہو گئے تھے۔ جس کا مجھے کافی سالوں کے بعد پتہ چلا۔

گزشتہ ہفتے مجھے لاہور میں مقیم نسیم اللہ شیخ کے نواسے وہاب خان درانی ( وہاب خان گجرات کی معروف درانی فیملی کے چشم و چراغ ہیں۔ وہ سردار قدیر خان درانی مرحوم کے پوتے اور سردار ادریس خان درانی مرحوم کے صاحبزادے ہیں ) نے بتایا کہ ان کے نانا نسیم اللہ کا انتقال 19 ستمبر 2008 کو ہارٹ اٹیک کے باعث گجرات میں ہو گیا تھا۔ وہ 2008 میں ہی امریکہ سے پاکستان واپس آئے تھے۔ اور یہ سفر ان کی زندگی کا آخری سفر ثابت ہوا۔ تاہم مجھے ان کی موت کی خبر کوئی ڈیڑھ سال پہلے پروفیسر جاوید اکرام شیخ صاحب ذریعے ہی معلوم ہوئی تھی۔

شیخ نسیم اللہ اپنی زندگی میں ایک عجیب بات کیا کرتا تھا۔ وہ دوران سفر مجھے ایک بات کہا کرتا تھا کہ ”اسے موت سے ڈر نہیں لگتا۔ مگر موت کے بعد جب تجہیز و تکفین کے مراحل سے گزرتی اور خصوصاً لکڑی کے تختے پر غسل کے لیے بے حس و حرکت پڑی اسے اپنی میت کا تصور آتا ہے۔ تو یہ کیفیت اس کے لیے موت کے خوف سے بھی زیادہ اذیت کا باعث ہوتی ہے“ ۔ میں انہیں کہتا کہ ”شیخ صاحب!“ جب موت کے بعد آپ کو پتہ ہی نہیں ہو گا تو پھر کیسا خوف؟ ”وہ ایک دم سے کہتے کہ“ اپنی اسی بے بسی اور بے اختیاری کا تو انہیں خوف ہے کہ دوسروں کے رحم و کرم پر پڑے جب اپنے جسم پر انہیں کوئی اختیار ہی نہیں ہو گا ”۔

بہرحال نسیم اللہ شیخ مرحوم کا اپنا فلسفہ موت و حیات تھا۔ اب وہ اس دنیا میں نہیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں غریق رحمت کرے۔

نسیم اللہ شیخ مرحوم کے ساتھ بیتے دنوں اور ان کی خوشگوار اور رعنائیوں سے بھرپور متحرک زندگی کی یادیں کبھی کبھی بڑا بے چین کرتی ہیں۔ ماضی کے دریچوں سے آج ان کے متعلق کئی منظر نظروں کے سامنے گھوم گئے۔ سوچا کہ فراغت کے دن ہیں۔ ان کے متعلق اپنی کچھ یادیں تازہ کی جائیں۔ نسیم اللہ شیخ! نہ صرف ہمارے کالج بلکہ شہر کا ایک زندہ دل آدمی تھا، جو نہ رہا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments