کراچی: کچھ الفاظ بارانِ زحمت کے نام


سنا تو ہمیشہ باران رحمت ہی ہے لیکن افسوس کے ساتھ تجربہ ہمیشہ زحمت کا ہی رہا ہے۔ جی ہاں پاکستان بالخصوص کراچی میں آج سے مون سون کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے۔ شہر کے اکا دکا علاقوں کے علاوہ زیادہ تر جگہوں پر تو بس بوندیں ہی گریں مگر سڑک پر پانی کچھ ایسے کھڑا ہے جیسے اسے بس بارش کا انتظار تھا اور بوندیں گرتے ہی جانے کہاں کہاں سے نمودار ہو کر سڑک پر آ کھڑا ہو گیا ہے۔ بجلی جانا تو خیر ویسے ہی سالوں سے روز کا معمول ہے البتہ بارش کے قطرے گرنے سے اس میں جو تیزی آتی ہے وہ بھی آ چکی ہے اور سب سے افسوسناک بات یہ کہ محض پہلے ہی دن شہر میں بارش کی وجہ سے ہونے والے واقعات کے سبب پانچ افراد اپنی زندگی کی بازی ہار گئے۔

دیکھا جائے تو یہ مسئلہ بنیادی طور پر مقامی حکومتوں کے دائرہ کار میں آتا ہے۔ سب سڑکوں کی مرمت، نالوں اور گٹر کی بروقت صفائی تاکہ کسی بھی ہنگامی صورتحال میں پانی سڑکوں پر نہ کھڑا رہے، ٹوٹی پھوٹی عمارتوں کی مرمت، بجلی کے لٹکتے خطرناک تاروں اور بجلی کے ارد گرد قائم گھروں اور دکانوں کا خاتمہ کرنا ہر لحاظ سے سب سے پہلے مقامی حکومتوں کی ہی ذمے داری ہے مگر وہاں سے تو موسم کے آغاز سے قبل ہی کراچی کے میئر جناب وسیم اختر صاحب کی جانب سے وسائل کی کمی کا رونا رو کر عذر تراشا جا چکا ہے۔

ہماری آج تک سمجھ نہیں آ سکا کہ جب کسی عہدے دار کے پاس وسائل ہی نہیں ہوتے تو وہ کرسی کے پیچھے ہلکان کس لئے ہوتے ہیں؟ پھر ہم صوبائی حکومت کی کارکردگی کا جائزہ لیتے ہیں تو وہاں بھی نام بڑے اور درشن چھوٹے والا معاملہ ہے اور رہی سہی کسر شہر میں وبائی تباہکاریوں نے پوری کردی۔ سندھ حکومت جو پہلے ہی زبانی جمع خرچ پر کام چلانے پر اکتفا کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے کورونا کی صورتحال سے نبرد آزما ہونے کے بعد تو موسمی مسائل سے بالکل ہی لاتعلق ہے۔ رہ گئی وفاقی حکومت تو ان کے پاس اتنی فرصت ہی کب ہے کہ وہ عوام کے مسائل پر کان دھریں بلکہ صوبائی حکومت کی نا اہلی ثابت کرنے کا وفاق کے پاس شاید ہی اس سے بہتر کوئی موقع آئے۔

جب اس سلسلے میں شہر میں بجلی فراہم کرنے والے نجی ادارے کے الیکٹرک سے سوال کیا جاتا ہے تو وہ بھی کچھ سچے کچھ جھوٹے بیانات دے کر بری الزمہ ہو جاتے ہیں عام طور پر کے الیکٹرک کی جانب سے یہی کہا جاتا ہے کہ عوام جو کنڈا سسٹم استعمال کرتی ہے بارش کے دنوں میں وہی ان کی موت کا سبب بنتا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ اس بے بس لاوارث عوام کا کوئی پرسان حال نہیں۔ ہر سال ہی یہی واقعات پیش آتے ہیں جن میں قیمتی جانوں کا زیاں ہوتا ہے اور متعلقہ ادارے ایک دوسرے پر الزام دھر کر اپنی جان چھڑا لیتے ہیں۔

اس سارے معاملے کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم تو اپنے بہن بھائیوں سے یہی التماس کریں گے کہ خدارا اپنی قیمتی جانوں کی حفاظت خود کریں۔ بارش کے دوران اور اس کے بعد بھی بجلی کے کھمبوں، تاروں، بجلی کے بٹنوں حتیٰ کے عام دیواروں سے بھی دور رہیں کیونکہ بارش کی وجہ سے دیواریں گیلی ہوجاتی ہیں اور اکثر صرف دیوار چھونے کی وجہ سے ہی کرنٹ کے ذریعے اموات ہوتی ہیں۔

بارش کے دوران باہر نکلنے سے پرہیز کریں کیونکہ سڑکوں پر ہانی کھڑا ہونے کی صورت میں یہ بھی پتہ نہیں چل پاتا کہ کوئی گٹر یا نالہ ہے اور اس میں گر جانے کی وجہ سے بھی حادثات رونما ہوتے ہیں۔

کسی خراب، ٹوٹی ہوئی عمارت یا دیوار کے نیچے نہ رہیں نیز اگر گھر کی چھت کو مرمت کی ضرورت ہو تو بارش سے قبل ہی کروالیں تا کہ کسی بھی ممکنہ حادثے سے بچ سکیں۔ غیر ضروری طور پر کھڑکیاں اور دروازے نہ کھولیں کیونکہ بارش کے موسم۔ میں اکثر موذی جانور اور کیڑے مکوڑے گھروں میں داخل ہو جاتے ہیں۔ مچھر، مکھیوں سے خصوصی طور پر بچیں خصوصاً چھوٹے بچوں کے لئے مچھر دانی کا استعمال کسی بھی قسم کے انفیکشن اے بچنے کے لیے یقینی بنائیں۔

ابلا ہوا پانی اور تازہ غذا استعمال کریں کیونکہ ہوا میں نمی کے باعث باسی خوراک میں بیکٹیریا تیزی سے نمو پاتے ہیں۔ ہر قسم کے زخم کی خصوصی نگہداشت کریں اور ایک فرسٹ ایڈ کٹ تیار شدہ حالت میں گھروں میں رکھیں جو خدانخواستہ مشکل میں کام آ سکے۔ ہر قسم کی احتیاطی تدابیر سسے بچوں کو آگاہ کریں تاکہ وہ بڑوں کی غیر موجودگی میں بھی اپنی حفاظت کرسکیں۔

ایک سب سے اہم بات کے دنیا اس وقت ایک وبائی صورتحال سے گزر رہی ہے اس دوران ہماری ذرا سی بے احتیاطی ہماری اور ہمارے پیاروں کی زندگی کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتی ہے لہذا جتنی احتیاط کر سکتے ہیں ضرور کریں۔ بکرا عید کے جانور لینے، ان کا خیال رکھنے اور ذبیحہ کے دوران بھی صفائی اور تمام ایس او پیز کا بہت زیادہ خیال رکھیں خاص طور پر چھوٹے بچوں کو ہر ایسی چیز سے دور رکھیں جس سے ان کو کسی بھی قسم کی بے احتیاطی کا اندیشہ ہو۔

بے شک عوام کی جانوں کی حفاظت کرنا حکومت وقت کی بنیادی ذمے داری اور فرض ہے لیکن یہ ذہن میں رکھیں کہ خدانخواستہ ہمارے کسی جانی نقصان سے حکومت یا بے حس عہدیداروں کو کوئی فرق نہیں پڑے گا اس لئے اپنی اور اپنے تمام پیاروں کی قیمتی جانوں کی حفاظت کے لئے خود ہی بندوبست کر لیں۔ اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments