سماجی فاصلے اور نفسیاتی مسائل کا عفریت


سال 2020 کے آغاز میں کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ چین سے آنے والی چند خبریں ایک عالمی وبا میں منتج ہوں گی۔ کرونا وائرس نے جہاں ہمارے معاشی حالات پر بہت منفی اثرات مرتب کیے ہیں، وہاں ہماری معاشرتی زندگی بھی اس کی وجہ سے مفلوج ہو کر رہ گئی ہے۔

ارسطو نے برسوں پہلے کہا تھا کہ ”انسان ایک سماجی حیوان ہے“ ۔ انسان کو زندگی گزارنے کے لئے ایک دوسرے کے ساتھ اور سماجی رابطے کی ضرورت ہوتی ہے۔ پتھر کے زمانے کا انسان بھی گروہ میں رہنے کے ہنر اور اہمیت جان چکا تھا۔ لیکن کرونا وائرس نے ہمیں ایک ایسی زندگی سے متعارف کروایا ہے جس کا شاید کچھ عرصہ پہلے تک ہم تصور بھی نہیں کر سکتے تھے۔

سماجی دوری اور لاک ڈاؤن نے جہاں زندگی کو چار دیواروں میں قید کیا ہے۔ وہاں اس نے ذہن کے نہاں خانوں میں پنہاں نفسیاتی مسائل کے عفریب کو آزاد کر دیا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق کووڈ 19 کی وجہ سے ذہنی دباو اور اضطراب میں اضافہ ہوا ہے۔ سماجی فاصلوں نے لوگوں کو گھروں میں بند ہونے پر مجبور کر دیا ہے۔ تنہائی، غیر یقینی اور بیماری کے خوف نے لوگوں کو ڈپریشن کا شکار کر دیا ہے۔ معاشی مسائل اور پریشان کن خبروں کی وجہ سے جہاں ایک طرف سگریٹ نوشی اور دیگر نشہ آور ادویات کے استعمال میں اضافہ ہوا ہے تو دوسری طرف گھریلو تشدد کے واقعات بھی زیادہ ہو گئے ہیں۔

پائی ہے ہم نے عجب حریفانہ کشمکش
برہم ہوئے تو اپنے مقابل ہی ڈٹ گئے

ایسے میں ماہرین نفسیات سے رہنمائی حاصل کرنا ناگزیر ہو جاتا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں آج بھی نفسیات دان کے پاس جانے کو باعث شرم تصور کیا جاتا ہے۔ آج بھی بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ ذہنی دباؤ محض کمزور قوت ارادی کا نتیجہ ہے۔ یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ نفسیاتی الجھنوں کا اگر بوقت سدباب نہ کیا جائے تو وہ زندگی کے لیے خطرہ بھی بن سکتی ہیں۔ حال ہی میں بھارتی اداکار سوشانت سنگھ نے مبینہ طور پر نفسیاتی مسائل کا شکار ہو کر خودکشی کر لی۔ اگر وہ بوقت ماہر نفسیات سے رجوع کر لیتے تو شاید ان کی زندگی بچ جاتی۔

اپنی گھریلو روٹین اور طرززندگی میں کچھ تبدیلیاں کر کے ہم خود کو اور اپنے اہل خانہ کو ذہنی مسائل سے کافی حد تک دور رکھ سکتے ہیں :

٭جسمانی ورزش کو اپنی روٹین کا حصہ بنائیں۔ تحقیق سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ورزش جسمانی صحت کے ساتھ ساتھ ذہنی صحت کے لیے بھی بہت مفید ہے۔ چہل قدمی سے دماغ میں ایسی رطوبتیں خارج ہوتی ہیں جو نفسیاتی مسائل سے بچنے میں مدد کرتی ہیں۔

٭ اپنے ذہن کو مثبت سرگرمیوں میں مصروف رکھیں۔ نئی ڈشز بنانا سیکھیں، باغبانی کریں۔ کسی بھی مشعغلہ میں خود کو مصروف رکھیں۔

٭تحقیق سے یہ بات ثابت ہے کہ جو لوگ دوسروں کی بھلائی کے کاموں میں مصروف رہتے ہیں، وہ بہت کم نفسیاتی مسائل کا شکار ہوتے ہیں۔ اپنے اردگرد موجود لوگوں کی مشکلات کو کم کرنے کی کوشش کریں۔ کسی ضعیف یا بیمار ہمسایہ کی راشن یا دوائی لانے میں مدد کر دیں۔ کوئی سفید پوش خاندان اگر آپ کے علاقے میں رہتے ہیں تو متمول خاندانوں کی مدد سے ان کی عزت نفس کا خیال رکھتے ہوئے، ان کی مدد کا انتظام کر دیں۔ آپ دیکھیں گے کہ جیسے ہی آپ بامقصد کاموں میں اپنے آپ کو مصروف کریں گے، آپ کو ذہنی دباؤ میں خاطر خواہ کمی محسوس ہو گی۔ ہمارے ذہن کی ایک بہت دلچسپ خصوصیت یہ ہے کہ اگر اس کو خالی چھوڑ دیا جائے تو یہ ماضی کے ناخوشگوار واقعات اور مستقبل سے وابستہ وسوسوں میں گھر جاتا ہے۔ ایک صحت مند ذہن کے لیے ضروری ہے کہ اس کو تعمیری سوچ اور مثبت اعمال کے ساتھ مصروف رکھا جائے۔

٭ یاد رکھیں سماجی فاصلے کا مطلب سماجی دوری نہیں ہے۔ کوشش کریں کہ فون اور سماجی رابطے کے دیگر ذرائع سے اپنے رشتہ داروں اور دوستوں سے رابطے میں رہیں۔ مثبت تبادلہ خیال جذبات کے اظہار میں مدد دیتا ہے اور ا س طرح ذہنی کشمکش میں کمی واقع ہوتی ہے۔

٭ گھر میں میسر وقت کو اپنے اہل و ایال کے ہمراہ خوشگوار لمحات میں تبدیل کریں۔ بچوں کی ان کی پڑھائی میں مدد کریں۔ سب مل کر باورچی خانے میں نئی ڈشر بنائیں۔ یاد رکھیں، آپ کے بچے آپ کی پرچھائی ہیں۔ اگر آ پ خود کو نفسیاتی طور پر صحت مند رکھیں گے تو آپ کے بچے بھی آپ کو کاپی کریں گے۔

٭ ہمارے تمام جذبات ہماری شخصیت کا حصہ ہیں۔ ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ آج کل کے مشکل حالات میں کسی حد تک پریشانی اور اضطراب کا شکار ہونا قدرتی عمل ہے۔ اپنے جذبات کا احترام کریں اور ان کو قبول کریں۔ بعض اوقات ہمارے جذبات ہمارے لیے پریشان کن نہیں ہوتے لیکن ان کی طرف ہمارا ردعمل انہیں باعث پریشانی بنا دیتا ہے۔

ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ نفسیاتی مسائل بھی کسی اور بیماری مثلاً ذیابیطس، بلڈ پریشر اور کینسر کی طرح ایک حقیقت ہیں۔ اگر آپ یا آپ کے گھر میں کسی کو مسلسل اور شدید ذہنی مسائل کا سامنا ہے تو کسی سایئکاٹرسٹ یا ماہر نفسیات سے رجوع کریں۔ اگر نفسیاتی مسائل کا بروقت علاج نہ کیا جائے تو یہ ایک خوش باش اور مطمئن زندگی گزارنے میں مانع ہو سکتی ہیں۔ زیادہ شدید علامات کی صورت میں یہ زندگی کے لیے خطرہ بھی بن سکتی ہیں۔
اپنی ذہنی صحت کا خیال رکھیں۔ ایک خوش حال زندگی گزاریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments