چینی من بھاتا نہیں صحت بھاتا کھاتے ہیں


ہم پاکستانی صرف زبان کے چٹخارے میں یقین رکھتے ہیں لیکن چینی عوام جو کچھ کھاتے ہیں، اس کے طبی فوائد اور جسم پر اس کے اثرات سے پورے طور پر آگاہ ہوتے ہیں۔ اکثر دعوتوں میں جب چینی میزبان ہماری طرف کوئی ڈش بڑھاتے تھے تو اس کے طبی فوائد سے آگاہ کرنا نہیں بھولتے تھے۔ ویسے عام مزے مزے کے چینی کھانوں کے علاوہ طبی یا ادویاتی کھانوں کا ایک الگ مکتب ہے۔ بس یوں سمجھ لیں کہ یہ کھانے نہیں روایتی چینی ادویات ہوتی ہیں۔ ادویاتی کھانے پکانے کی ترکیبیں صدیوں سے نسل در نسل منتقل ہوتی چلی آ رہی ہیں۔ 206 قبل مسیح سے چین میں فوڈ تھیراپی یا غذا کے ذریعے علاج ہوتا رہا ہے۔

ہم نے تو یہ سب کچھ 1985 سے اگلے آٹھ سالوں تک دیکھا لیکن ابھی انٹرنیٹ پر اپریل 2020 ء میں لکھا ہواگیون وان ہنسبرگ کاسفری مضمون Travel article نظر سے گزرا تو معلوم ہوا کہ کہ آج بھی یہ کھانے چینیوں اور غیر ملکیوں میں اسی طرح مقبول ہیں۔ ہمارے قیام کے دوران لونگہوا میڈیکل ریستوراں بیجنگ میں اپنی نوعیت کا پہلا ریستوراں تھا جہاں لذیذکھانوں کے ساتھ ساتھ روایتی چینی ادویات کے ذریعے آپ کی بیماری کا علاج بھی کیا جاتا تھا۔

وہاں انواع و اقسام کے صحت بخش کھانے ملتے تھے، کچھ تو ایسے تھے جو کبھی صرف شاہی دستر خوانوں کی زینت بنا کرتے تھے۔ اس ریستوراں کے کھانوں میں مختلف قسم کی جڑی بوٹیوں کا عرق استعمال کیا جاتا تھا جو کمزوری، بھوک اڑ جانا، دل کی بیماری، بلند فشار خون، ذیا بطیس اور کئی نسوانی اور مردانہ بیماریوں کے لئے تیر بہدف ثابت ہوا۔ ایک کھانے میں جنوبی چین میں پائے جانے والی خاص چیونٹیاں شامل کی جاتی ہیں۔ یہ ڈش گٹھیا کے مریضوں کے لئے مفید ہے۔ تب ہی کینیڈا اور جاپان کے کاروباری حضرات نے ریستوراں والوں سے درخواست کی تھی کہ وہ اپنے باورچی ان کے ممالک میں بھیجیں۔

کھانے کی باتیں تو ہو گئیں، اب ذرا روح کی غذا موسیقی یا گانے بجانے کی باتیں ہو جائیں۔ بیجنگ ووکل میوزیکل ریسرچ انسٹیٹیوٹ کا نام سن کر آپ کے ذہن میں یہی آئے گا کہ یہ گانا یا موسیقی سکھانے والا کوئی ادارہ ہو گالیکن آپ کو یہ سن کر حیرت ہو گی کہ یہاں گانا سکھانے کے ساتھ ساتھ بیماریوں کا بھی علاج کیا جاتا ہے۔ گلے اور سانس کی نالی سے متعلق امراض کے علاج کے لئے یہاں مختلف طرح کی ورزشیں کرائی جاتی ہیں۔ اس ادارے کے قیام میں مرحوم چو این لائی کی کوششوں کا بھی دخل رہا ہے۔

یہ ادارہ کئی مشہور گلو کاروں کے گلے کی خرابیوں کا علاج کر چکا ہے۔ اس وقت یعنی 2020 ء میں موسیقی کے اساتذہ اور پروفیشنل موسیقاروں کے لئے چین بھر میں گیارہ کنزرویٹریز اور آرٹ انسٹیٹیوشن موجود ہیں جہاں چینی موسیقی کے ساتھ ساتھ مغربی موسیقی بھی سکھائی جاتی ہے۔ بیجنگ کی سنٹرل کنزرویٹری آف میوزک اور شنگھائی کنزرویٹری کو ان اداروں میں سب سے زیادہ ممتاز مقام حاصل ہے جہاں بہترین طلبہ کو داخلہ ملتا ہے۔

بیماریوں اور ان کے علاج کی بات چلی ہے تو کچھ سماجی بیماریوں یعنی سماجی جرائم کا بھی ذکر ہو جائے۔ دینگ سیاؤ پنگ نے سماجی جرائم کے خلاف ایک تین سالہ مہم کا آغاز کیا۔ یہ مہم ٹیکسی بزنس مافیا، ریت نکالنے کا کاروبار کرنے والوں، سی فوڈ اور باسکٹ کا کاروبار کرنے والوں کی لوٹ مار کے خلاف تھی۔ 2019 ء میں آپ کو جگہ جگہ بینرز نظر آتے تھے جن میں شہریوں پر زور دیا جاتا تھا : ’بدی کی کالی قوتوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکو‘ ۔

ایک سال کے اندر اندر دس ہزار گینگسٹرز کو گرفتار کر کے عدالتوں میں پیش کر دیا گیا تھا مگر جب ہم 1985 ء میں چین پہنچے تو سماجی جرائم کی نوعیت مختلف تھی۔ چینی حکام ایسے لوگوں کا پتا چلانے کی کوشش کر رہے تھے جو غیر قانونی طور پر فوج اور پولیس کی وردیاں تیار کر کے فروخت کر رہے تھے اور بعض جگہ پر ان وردیوں کو مجرمانہ کارروائیوں میں بھی استعمال کیا گیا تھا۔

اس وقت حکام کی رائے میں چین میں ہونے والے جرائم کی ذمہ داری پورنوگرافی اور تشدد پر مبنی فلموں اور کتابوں پر عاید ہوتی تھی۔ عوامی عدالت عالیہ کے نائب صدر کے مطابق 1985 ء میں حکام نے اٹھارہ ہزار پورنوگرافک وڈیو کیسٹس اور دو لاکھ تیس ہزار سے زائد اسی قسم کی اشیا پکڑی تھیں۔ اخبار پیپلز ڈیلی اور چائنا ڈیلی کے مطابق جنوبی چین میں سو بچوں کا سروے کیا گیا تو پتا چلا کہ نوعمر لوگوں کی مجرمانہ سرگرمیوں کا سبب زہریلے پورنرگرافک مضامین تھے۔

اسی طرح ایک اور سروے کے نتیجے میں پتا چلا کہ چین کے ریلوے روٹس پر ہونے والے تیس فی صد مجرمانہ حملے اور دیگر جرائم بری فلمیں دیکھنے اور فحش مواد پڑھنے کا نتیجہ تھے۔ لیو چھن کا کہنا تھا کہ کچھ حکام پورنو گرافی کی روک تھام میں غفلت برت رہے تھے۔ چین میں پورنوگرافک وڈیو کیسٹس زیادہ تر جنوبی صوبوں کے ذریعے آتے تھے۔

جرائم کی باتیں ہو گئیں۔ اب کچھ ثقافت اور فیشن کی رنگا رنگ باتیں ہو جائیں۔ ہماری نسل تو ماؤ کیپ اور ماؤ سوٹ پہننے والی چینی نسل کے ساتھ جوان ہوئی تھی۔ لیکن کھلے دروازے کی پالیسی کے بعد نوجوان فیشن کرنا سیکھ رہے تھے اور شوخ ٹی شرٹس، نئی تراش کے لباس، دلکش بلاؤز اور نیلی جینز پہننے لگے تھے اور چینی لڑکیوں کی ایک مختصر سی تعداد نے میکپ کی مصنوعات استعمال کرنا شروع کر دی تھیں۔ دسمبر 1985 ء میں چین میں ہونے والے فیشن ڈیزائن کے پہلے مقابلے کے انعام یافتگان کو ایک تقریب میں انعامات دیے گئے۔

یہ انعامات ”طلائی قینچیوں“ کی شکل میں تھے تا کہ ڈیزائنر حضرات ملبوسات کی صنعت کے لئے ایک شوخ اور رنگین مستقبل تراش سکیں۔ چین میں اپنی نوعیت کے اس پہلے مقابلے میں بائیس افراد نے انعامات حاصل کیے تھے۔ اس کے علاوہ اسی سال جولائی میں پیرس کے فیشن شو میں حصہ لینے والے چینی ڈیزائنرز کو بھی انعامات دیے گئے۔ پیرس کے مقابلے میں حصہ لے کر چینی ڈیزائنرنے عالمی فیشن کی دنیا میں قدم رکھ دیا تھاکیونکہ فیشن کا سب سے سخت مقابلہ پیرس ہی میں ہوتا ہے۔ بہر حال اس وقت تک چین فیشن کی دنیا میں نووارد ہی تھا۔ چینیوں کا کہنا تھا کہ وہ مغربی اسٹائل کی خاطر اپنی روایات کو خیر باد نہیں کہیں گے بلکہ دونوں کا امتزاج تیار کریں گے۔

ملبوسات کی بات چل نکلی ہے تو یہ بھی بتاتے چلیں کہ چینی سلک کی بیرونی دنیا خاص طور پر امریکہ میں بہت مانگ ہے۔ امریکی ڈیزائنر چینی سلک سے نت نئے ملبوسات تیار کرنے میں بے حد دلچسپی رکھتے ہیں۔ دنیا بھر میں خواتین کے ملبوسات کی تیاری میں ممتاز مقام رکھنے والی امریکی ملبوسات کی ایک کمپنی نے اس زمانے میں شنگھائی میں اپنی ایک شاخ کھولی تھی۔ اس کمپنی نے چین سے دس ملین ڈالر کے ملبوسات خریدنے کا معاہدہ کیا تھا لیکن ڈیزائن اور پیٹرن وہ خود فراہم کرتی تھی۔

پاکستان کے ویمن ڈویژن اور اپوا جیسی دیگر تنظیموں کی طرح چین کی ویمنز فیڈریشنوں نے بھی ٹیکنیکل ٹریننگ کورسز، لیکچرز اور نائٹ اسکولز کا آغاز کیا تھا تاکہ عورتوں کو مختلف ہنر سکھائے جا سکیں۔ آل چائنا ویمنز فیڈریشن کو اس بات کا احساس تھا کہ اقتصادی اصلاحات کے تقاضوں کو پورا کرنے اور عورتوں کے مقام کو بہتر بنانے کے لئے عورتوں کی ہنر مندی میں اضافہ کرنا ضروری ہے۔ اس وقت تک عورتوں کے 23 اسکول، کالج اور تربیتی مراکز تھے۔

اس کے علاوہ وہ سروس ٹریڈز، فصلیں اگانا، مرغ بافی، مچھلیاں پالنا، بنائی اور دوسرے مختصر مدت کے تربیتی کورسز میں بھی داخلہ لے سکتی تھیں۔ چینی عورتیں جو بھی ہنر سیکھتی تھیں، اسے عملی زندگی میں بھی استعمال کرتی تھیں۔ یوں وہ شہری اور دیہی اقتصادی اصلاحات میں اہم کردار ادا کر رہی تھیں۔ دیہی علاقے میں عورتیں فصلیں اگانے، مویشی بافی اور مینو فیکچرنگ کے شعبوں میں سرگرم عمل تھیں۔ شہروں میں عورتوں کی فیڈریشنوں نے بے روزگار نوجوان خواتین کو منظم کر کے ریستوراں، ہوٹل، دکانیں، کنڈر گارٹن اور سروس ٹریڈز میں کام کے مواقع فراہم کیے تھے۔

عائلی تعلیم اور فیملی کونسلنگ بھی عروج پر تھی۔ کئی صوبوں میں عائلی تعلیم کے ادارے قائم کیے جا چکے تھے۔ کئی جگہوں پر والدین، حاملہ خواتین اور نو بیاہتا جوڑوں کے لئے کورسز شروع کیے گئے تھے۔ اس کے علاوہ والدین کے لئے ایک ریڈیو کورس بھی شروع کیا گیا تھا۔ میں سمجھتی ہوں کہ پاکستان میں بھی اس طرح کے کورسز اور فیملی کونسلنگ کی اشد ضرورت ہے۔ (جاری ہے )

اس سیریز کے دیگر حصے1985 کا چین: دانشور کی بحالی اور معیشت کی نموچینی ٹی وی پروگرام اور فلمیں

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments