مسجد ،مندر، گرجا گھر، میوزیم


بچپن کی دھندلی یادوں میں کچی دیواروں والی ایک مسجد ہے، جس میں روشنی کے لیے مٹی کے تیل کی لالٹین تھی، وضو کے لیے مٹی کے بدھنوں میں پانی بھرا رکھا تھا اور نمازیوں میں ابو اور ہم تین چار بچے ہی ہوتے تھے۔

اسی مسجد کی جگہ پھر ایک پختہ مسجد بنی۔ آج بھی وہاں امام صاحب کے پیچھے دو ایک نمازی ہی ہوتے ہیں۔ ہاں مسجد سے ملحقہ سرائے کے دونوں کمروں میں ٹیلی ویژن دیکھنے اور کیرم بورڈ کھیلنے والوں کا جم غفیر اکٹھا رہتا ہے۔

ان ہی یادوں میں تین مندر بھی ہیں۔ ایک مندر سبزی منڈی کے چوک میں تھا۔ صدیوں کی کائی جم کے سیاہ ہوا یہ مندر اب وہاں نہیں ہے۔ وقف کی اس زمین پر کئی لوگ قابض ہیں۔ مندر بابری مسجد کے غم میں منہدم کر دیا گیا تھا۔

دوسرا مندر ہماری ایک عزیزہ کے گھر سے ملحق تھا۔ ان کے بڑے کمرے کی سلاخ دار کھڑکیوں سے مندر کا صحن اور بھگوان کرشن کی شکستہ مورتی نظر آیا کرتی تھی۔ مندر پر کب دکانیں بن گئیں اور کب اوقاف کی یہ زمین ہتھیا لی گئی، کچھ پتا نہ چلا۔

تیسرا مندر ماڈل ٹاؤن ڈی بلاک میں ہے۔ کبھی بھیا کبابی کے کباب کھانے جائیں تو جین طرز تعمیر کے اس مندر کا کچھ حصہ نظر آتا ہے لیکن ظاہر ہے عبادت اس مندر میں بھی نہیں ہوتی۔

یہ تین مندر تو مجھے یاد ہیں۔ آپ سب کو بھی کتنے ہی مندر اور گردوارے یاد ہوں گے، جن کو کسی بھی طرح کی عبادت کے لیے استعمال کرنے کی بجائے یا تو ویران چھوڑ دیا گیا یا پھر ان کی قیمتی زمین ہتھیا لی گئی۔

سب جانتے ہیں کہ پاکستان کے طول و عرض میں بے شمار مندر موجود تھے۔ یہ سب کے سب وقف املاک کے زمرے میں آتے ہیں۔ یہ ہی کہانی انڈیا میں مسجدوں کی ہے۔ کہانی یہ ہی ہوتی ہے صاحبو! سب زمانوں اور سب زمینوں میں فاتح اور مفتوح کی۔

مسجد، مندر، گردوارہ، گرجا گھر سب اس وقت تک ہی آباد رہتے ہیں جب تک ان میں عبادت کرنے والے موجود ہوتے ہیں۔ اس کے بعد یہ ایسی املاک بن جاتی ہیں جن پر قبضہ کرنے کو ہر شخص للچاتا ہے اور سوائے چند انسانی اخلاقیات کے ماننے والوں کے انھیں کسی کا ڈر نہیں رہ جاتا۔

وہ عبادت گاہیں جو مفتوح علاقوں میں ہوتی تھیں، وہاں تو سیاسی مصلحتوں اور عوامی جذبات کو دیکھتے ہوئے خاص طور پر یا تو انھیں مسمار کر دیا جاتا تھا یا اپنے مذہب کی عبادت کرائی جاتی تھی۔

یہ تاریخ اور سیاست کے سخت فیصلے ہیں۔ دنیا کی سیاست ایک بار پھر رخ بدل رہی ہے ۔ طیب اردوعان کے عزائم کسی اور ہی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔ دنیا کے امن کے لیے ان کے یہ فیصلے درست ہوں گے یا غلط، یہ کہنا قبل از وقت ہے۔

آیا صوفیہ سے ذرا ہی دور سلطان احمد جامعہ مسجد موجود ہے یعنی نمازیوں کے لیے اسی علاقے میں ایک بڑی جامعہ مسجد موجود ہے۔ ظاہر ہے یہ ایک سیاسی فیصلہ ہے۔ عین اسی طرح کا، جس طرح کا فیصلہ عمران خان صاحب نے مندر کی تعمیر اور کرتار پور کا بارڈر کھولنے کے لیے کیا۔

سیاسی فیصلوں اور سیاست کے لیے بنائی گئی عمارات کی عمر لمبی نہیں ہوتی اور کون جانتا ہے سلطان محمد فاتح کا فیصلہ درست تھا، اتا ترک کا فیصلہ بہتر تھا یا آج اردوعان کی دانش دور رس ہے۔

آیا صوفیہ

بہت سے فیصلے آنے والا وقت کرتا ہے۔ مسجدیں، مندر، چرچ، آباد رہنے چاہیے۔ انسان کو انسان سے نہ سہی ایک دوسرے کے خدا سے، ایک دوسرے کی عبادت گاہوں سے ضرور محبت کرنی چاہیے۔

عبادت گاہوں کو سیاست دان آباد نہیں کرتے۔ میں نے کتنے ہی لوگوں سے سنا کہ انھوں نے مسجد قرطبہ میں کس طرح چھپ کے نماز ادا کی۔ مسجد قرطبہ آج ہر مسلمان کے دل میں آباد ہے۔ جب مسجدیں، مندر اور چرچ بند کر دیے جاتے ہیں تو وہ دلوں میں آباد ہو جاتے ہیں۔ دلوں میں بسی ان عمارتوں میں جو عبادت کی جاتی ہے وہ فوراً ہی بام قبولیت تک پہنچ جاتی ہے۔

دنیا کی بساط پر سیاست کے مہروں میں ایک بڑا مہرہ مذہب کا بھی ہوتا ہے۔ صدر طیب اردوعان نے اپنی کم ہوتی ہوئی مقبولیت واپس حاصل کرنے کے لیے ایک ایسا فیصلہ لیا ہے جو انھیں عالمی دباؤ سے دوچار کر سکتا ہے لیکن یہ بھی ان کے لیے ملکی سیاست کی سطح پر فائدہ مند ہو گا۔ یہ سیاست ہے۔

اسی طرح کی سیاست ہمیں نریندر مودی کرتے نظر آتے ہیں۔ اکثریت کے پسندیدہ فیصلے جو ملکی سیاست میں تو بہت مقبولیت دلا دیتے ہیں لیکن عالمی سطح پر ملک تنہا رہ جاتے ہیں۔

آج عالمی سیاست اور خطے میں انڈیا کی صورت حال پر نظر ڈالیں تو مودی کے مقبول فیصلے اور ڈرامائی طرز سیاست ہی اسے خطے میں تنہا کرنے کا باعث بنی۔

اردوعان کی سیاست ترکی کو کہاں لے جائے گی؟ مذہبی طبقے اور لبرلز کے درمیان ایک نئی جنگ چھڑے گی یا سیکیولر ترکی، ایک مذہبی ترکی بنے گا؟ بہت کچھ واضح ہے اور جو آج بھی عیاں نہیں وہ بھی کافی حد تک سامنے ہی ہے۔

جس طرح آیا صوفیہ کا چرچ سے مسجد میں تبدیل ہونا اور پھر مسجد سے میوزیم میں تبدیل ہونا تاریخ کے اہم موڑ ثابت ہوئے، اسی طرح آج اس کا میوزیم سے مسجد میں تبدیل ہونا صاف صاف بتاتا ہے کہ ترکی بدل رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32192 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp