شانگلہ گرلز سکول: ملالہ کی اپنی مٹی سے لازوال محبت کا ثبوت


معذرت چاہتا ہوں کہ ایک پرانا زخم کریدنے لگا ہوں۔ اس پرانے زخم سے اٹھے ایک تازہ خوشگوار جھونکے نے آج کا دن یادگار بنا دیا۔ مہاتما بدھا نے کہا تھا، ”میں نے پریشان یا ناخوش لوگوں کی ذہنی کیفیت کا بہ غور جائزہ لیا ہے اور ان کی اذیت میں پنہاں ایک تیز دھار خنجر پایا ہے۔ چونکہ وہ خود میں یہ تیز دھار خنجر دیکھ نہیں پاتے، اس لئے ان کے لئے اپنی تکلیف سے نمٹنا مشکل ہوتا ہے“ ۔ ایسے لوگ اپنے سینے میں پیوست خنجر کو دوسروں کے سینے میں گھونپ کر اپنی تکلیف کم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

ایسے ہی ایک خنجر کا شکار ہوئی ایک چھوٹی سے بچی (جو اب ماشاءاللہ بڑی ہو چکی ہے ) کی ایک ولولہ انگیز کاوش نے آج میرا خون گرما دیا، آنکھوں میں امید کی روشنی بھر دی اور مستقبل امید کا دیا بن کر دل کے نہاں خانوں کو روشن کر گیا۔

یہ 9 اکتوبر 2012 کا ایک سیاہ دن تھا۔ علم کے حصول کے لئے کوشاں بچیاں حسب معمول سکول سے واپس گھر جا رہی تھیں۔ اس دن بچیوں نے امتحان دیا تھا، بچیوں کے درمیان شاید یہی گفتگو ہو رہی ہوگی کہ پرچہ کیسا تھا، کتنے سوالات حل کیے ، کہاں غلطی سرزد ہوئی وغیرہ وغیرہ۔ بس اپنی منزل کی طرف رواں دواں تھی کہ اچانک ایک جگہ روک دی گئی۔ دو نقاب پوش بس کے اندر داخل ہوئے، ان کی آنکھوں میں خون اترا ہوا تھا۔ ہاتھ میں پستول لہراتے ایک نقاب پوش نے دہشت اور نفرت سے بھر پور لہجے میں پوچھا ”تم میں ملالہ کون ہے؟“ ۔ ساری بچیاں خوف سے سہم گئیں۔ اپنی سہیلیوں کو بچانے کے لئے چودہ سالہ بچی نے اپنی جان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے کہا ”میں ہوں ملالہ“ ۔ یہ سننا ہی تھا کہ نقاب پوش نے ایک سیکنڈ ضائع کیے بغیر بچی کے سر میں گولی اتار دی۔

ساری دنیا لرز اٹھی، ہر بندہ کانپ اٹھا۔ ہر معاملے کو نفرت اور تعصب کی نگاہ سے دیکھنے یا سازشی تھیوری سمجھنے والے ایک طرف لیکن خیبر سے کراچی تک ہر صاحب اولاد دہل گیا۔ کوئی کس طرح اتنی سفاکی سے ایک معصوم بچی کے سر میں گولی اتار سکتا ہے؟ کوئی کس طرح ایک کلی کو اتنی بیدردی سے مسل سکتا ہے؟

ملالہ آخر ملالہ تھی۔ چودہ سالہ بچی عزم و ہمت میں اپنے پہاڑوں کے برابر نکلی۔ دہشت اور وحشت کے آگے نہ جھکنے والی بچی نے موت کے آگے بھی سرنگوں ہونے سے انکار کیا۔ اللہ تعالیٰ نے شاید اس بچی سے کچھ بڑا کام لینا تھا۔ زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ملالہ یوسفزئی کو پشاور ہسپتال منتقل کیا گیا۔ دو دن انتہائی نگہداشت وارڈ میں گزارنے کے بعد انہیں راولپنڈی انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی کے انتہائی نگہداشت وارڈ میں ہیلی کاپٹر کے ذریعے منتقل کیا گیا۔ راولپنڈی میں چند دن گزار کر بعد ازاں متحدہ عرب امارات کے بھیجے گئے ایئر ایمبولینس میں کوئین الزبتھ ہاسپٹل برمنگھم منتقل کیا گیا۔

شفایاب ہونے کے بعد ملالہ نے برطانیہ میں ہی رہنے کا فیصلہ کیا۔ ملالہ تاحال برطانیہ میں ہیں جہاں انہوں نے آکسفورڈ یونیورسٹی سے گریجویشن کیا لیکن ان کا دل اب بھی پاکستان کے ساتھ ہی دھڑکتا ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے ملالہ پوری دنیا کے لئے عزم و ہمت اور جذبۂ حریت کی علامت بن گئی۔ دنیا کے کتنے ہی اعزازت ملالہ کی جھولی میں گرتے چلے گئے۔ دنیا کی کم عمر ترین نوبل انعام یافتہ بچی بنی۔ عزت و تکریم کا سلسلہ جاری ہے، اللہ جاری رکھے۔

نوبل انعام سے حاصل کردہ چھ کروڑ روپے ملالہ نے اپنے آبائی علاقے میں ایک سکول کے لئے مختص کیے ۔ شاہ پور شانگلہ میں چھ کروڑ روپے سے نہایت موزوں مقام پر زمین خریدیں گئی جس کی تعمیر کے لئے بعض ازاں مزید رقم فراہم کی گئی۔ یوں شانگلہ گرلز سکول کے نام سے ایک شاہکار ادارہ وجود میں آیا۔

جدید سہولیات سے آراستہ یہ ادارہ ایک بیٹی کا اپنی مٹی سے محبت کا ثبوت ہے۔ میری خوش بختی کہ آج مجھے یہ ادارہ دیکھنے کا شرف حاصل ہوا۔ اندر داخل ہوا تو آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ کیا میں پختونخوا کے ایک پسماندہ علاقے میں ہوں یا یورپ کی کسی درسگاہ کا نظارہ کر رہا ہوں؟ اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آ رہا تھا۔ سکول کا ابھی صرف ایک مرحلہ مکمل ہوا ہے، دو مزید مراحل سے گزر کر یہ تکمیل کو پہنچے گا، تب اس کی حالت کیا ہوگی؟ میں نے چشم تصور سے دیکھا تو میری آنکھیں بھیگ گئیں، دل خوشی سے سرشار ہو گیا۔

سکول اب شہزاد رائے کے زندگی ٹرسٹ کے انتظام و انصرام میں ہے۔ اس وقت سکول میں چار سو پچاس کے قریب بچیاں پلے گروپ سے لے کر آٹھویں جماعت تک تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔ انشاء اللہ یہ ادارہ بہت جلد دسویں جماعت تک تعلیم مہیا کرے گا۔ سکول کی وسعت اور وسائل کالج کی ضروریات کے لئے کافی ہیں۔ اس لئے گمان غالب ہے کہ مستقبل میں علاقے کی بچیوں کو کالج کی تعلیم کے لئے بھی دور جانا نہیں پڑے گا۔ سب کچھ اپنے گھر اپنی دہلیز پر میسر ہوگا۔ سکول کا ہدف چار ہزار بچیوں کے لئے بہ یک وقت تعلیم کی گنجائش پیدا کرنا ہے۔

تمام کی تمام بچیوں کے لئے کوئی ٹیوشن فیس نہیں۔ ستر فیصد سے زائد بچیوں کو مفت کتابیں، مفت یونیفارم حتیٰ کہ مفت ٹرانسپورٹ کی سہولت بھی مہیا کی گئی ہے۔ تیس فیصد صاحب حیثیت لوگوں کو اپنے بچیوں کے لئے کتابوں اور ٹرانسپورٹ کا بندوبست کرنا پڑتا ہے۔

ہم سکول کے ایک انتظامی اہلکار کے پاس بیٹھے تھے کہ وہ فون پر کسی سے بات کرنے میں مصروف ہو گئے۔ بعد ازاں ان صاحب نے بتایا کہ کورونا وائرس کی وجہ سے بچوں کی تعلیم کا بہت حرج ہو رہا تھا، لہذا آن لائن کلاسز کا اجراء کیا گیا۔ اب مشکل یہ پیش آئی کہ زیادہ تر بچیوں کے پاس کمپیوٹر یا انٹرنیٹ کی سہولت موجود نہیں۔ لہذا فیصلہ کیا گیا کہ تمام بچیوں کو سمارٹ فونز اور انٹرنیٹ کی سہولت فراہم کی جائے۔ سمارٹ فون کی خریداری کا مرحلہ طے ہو چکا، ایک یا دو دنوں میں تمام بچیوں کو سمارٹ فون بمع انٹرنیٹ مہیا کر دیے جائیں گے، جس سے تمام بچیاں گھر پر پڑھنے کے قابل ہو جائیں گی۔

دل خوشی سے سرشار ہے اور لب پر دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ
شانگلہ گرلز سکول کو حقیقی تبدیلی کا پیش خیمہ بنائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments