ہم اختلاف میں عدم برداشت کے قائل اور متشدد کیوں ہو چکے ہیں؟


ڈاکٹر خالد سہیل۔ ۔ ۔ وجاہت صدیقی
وجاہت صدیقی کا فلسفیانہ محبت نامہ

ڈاکٹر صاحب تسلیمات

آپ سے بطور قاری دیرینہ تعلق ہے۔ ہم سب پر آپ کی فکر انگیز تحریریں، جن میں آپ قارئین کی رائے بخوشی طلب کرتے اور جواباً رہنمائی فرماتے رہتے ہیں، فکر کے نئے دریچے وا کرتی ہیں۔ آپ کی انہی نوازشات نے تجربات، مشاہدات، مطالعہ اور غور و فکر کی جانب اس قدر راغب کیا کہ پھر آپ ہی کی ترغیب پر نفسیات سے متعلق پہلی تحریر ”احساس کمتری اور خود یابی“ کے عنوان سے مرتب کر سکا جو ہم سب پر شائع ہوئی۔

ڈاکٹر صاحب میں کافی عرصہ سے یہ محسوس کر رہا ہوں کہ ترقی یافتہ معاشروں کی نسبت ترقی پذیر معاشروں میں جہاں متعدد امور میں بالغ النظری اور مفاد عامہ کی فکر پر تعصب، سطحیت اور خودنمائی غالب ہے وہیں سنجیدہ فکر رکھنے والے خواتین و حضرات بھی اس اثر سے محفوظ نہیں۔ ہمارے وہ احباب جو معاشرے میں رائج غلط روایات اور چلن پر انگلی اٹھاتے ہیں ان کی اکثریت غلطی کی جڑ کی نشاندہی اور اس پر صائب رائے دینے کے بجائے اپنے اپنے تعصبات کی عینک سے اسے ”اجاگر“ کرتی نظر آتی ہے۔ اپنے موقف پر گویا ان کا اپنا یقین بھی متزلزل ہوتا ہے جبھی فکر انگیز اور منطقی دلائل کے بجائے تضحیک و تمسخر کا سہارا لیا جاتا ہے۔ جہاں مذہب پرست لبرل خیالات کا غیر منطقی انداز میں تمسخر اڑاتے ہیں وہیں لبرل خیالات رکھنے والے اپنے موقف کی قوت اجاگر کرنے کے بجائے مذہب کی تضحیک اہم سمجھتے ہیں جسے یہ آزادی فکر اور آزادی اظہار سے تعبیر کرتے ہیں تو وہیں اس پر مذہب پرست طبقہ کے ایسے ہی اظہار کو خود تنگ نظری سے تعبیر کرتے ہیں۔ اس قضیہ میں خود نمائی اور خود ستائش کا عنصر منطق پر غالب نظر آتا ہے۔

ڈاکٹر صاحب آخر کیا وجہ ہے کہ ہم نکتہ نظر کے اختلاف کے ذیل میں باہمی احترام و تکریم کو ”ناجائز“ تصور کرتے ہیں۔ ہم دوسروں کو قائل کرنے کے لیے ان کا دل جیتنے پر ان کی فوری توجہ کو کیوں فوقیت دیتے ہیں جبکہ یہ روش جہاں منطقی لحاظ سے غلط ہے وہیں معاشرتی تناؤ کو بھی جنم دے رہی ہے جس سے فکر کا تعمیری عنصر کہیں گم ہو گیا ہے اور اس کی جگہ عناد و ضد نے لے لی ہے۔ ڈاکٹر صاحب یہ سوچ اس قدر جڑ پکڑ چکی ہے کہ (میری نظر میں ) ایسے نام نہاد مفکرین کی گویا فوج ظفر موج پیداء ہو چکی ہے۔ سوشل میڈیاء نے اس دوڑ کو گویا مہمیز دیا ہے، جو طوفان بدتمیزی سوشل میڈیاء پر ہو رہا ہے اس سے لگتا ہے کہ فکر پر شہرت کا شوق غالب ہے۔

آپ اس سلسلہ میں اگر اپنی قیمتی آراء سے رہنمائی فرمائیں تو یقیناً یہ کوشش بہت سوں کا قبلہ درست کرنے کے لیے مددگار ہوگی۔

نیک تمناؤں کے ساتھ
خیر اندیش
وجاہت صدیقی

ڈاکٹر خالد سہیل کا جواب

وجاہت صدیقی صاحب!

یہ میری خوش بختی ہے کہ میرے کالموں کو آپ جیسا ذہین، متوازن طبع اور دانشور قاری ملا۔ میں، ہم سب، پر آپ کے کمنٹ بڑی دلچسپی سے پڑھتا ہوں اور جس طرح آپ دوسروں سے مکالمہ کرتے ہیں اس سے محظوظ ہوتا ہوں۔ آپ کا میرے نام فلسفیانہ محبت نامہ آپ کے مجھ پر اعتماد کی عکاسی کرتا ہے۔

میں آپ کے خط کا جواب ایک اعتراف سے کرنا چاہتا ہوں۔ میں اپنی زندگی کا وہ دور بھولا نہیں جب میں بھی کافی غصیلا دہریہ ہوتا تھا اور مذہبی اور روایتی لوگوں سے الجھ پڑتا تھا اور بعض دفعہ وہ اختلاف نظریاتی جنگ کی صورت بھی اختیار کر جاتا تھا۔

یہ میری خوش قسمتی کہ میرے مزاج کا جلال دھیرے دھیرے جمال میں بدلا اور میری شخصیت میں نرمی اور حلیمی پیدا ہوئی۔ مجھے اس مثبت تبدیلی پر یقین اس دن آیا جب ایک سیمینار میں لیکچر کے بعد ایک غصیلے دہریے کی بیوی نے مجھے کہا کہ میں ایک محبت کرنے والے انسان دوست ہوں اس کے شوہر کی طرح غصیلا دہریہ نہیں ہوں

Dr Sohail, you are a loving humanist, not an angry atheist like my husband

ایک ماہر نفسیات ہونے کے ناتے جب میں نے اپنا احتساب اور تجزیہ کیا تو مجھے احساس ہوا کہ میں مشرق کے جس معاشرے میں پلا بڑھا تھا میں نے وہاں کا غصہ، نفرت، تلخی اور شدت پسندی اپنی شخصیت میں جذب کر لیے تھے۔ مجھے یہ احساس ہوا کہ انسانی ذات کے دو حصے ہیں

پہلا حصہ نظریہ اور دوسرا حصہ شخصیت

جب میں نے اپنی زندگی کا نظریہ بدلا اور مذہبی سے لا مذہبی ہوا تو میری شخصیت نہیں بدلی۔ مجھے شخصیت کو بدلنے کے لیے بہت محنت اور ریاضت کرنی پڑی۔ اب میرے فلسفہ حیات اور شخصیت دونوں کی بنیاد انسان دوستی ہے۔

مجھے یہ بھی احساس ہوا کہ انسانیت کی خدمت کرنے والے انسان دوست بھی تین طرح کے ہیں
پہلا گروہ مذہبی انسان دوستوں کا ہے جس کی مثال مارٹن لوتھر کنگ ہیں
دوسرا گروہ روحانی انسان دوستوں کا ہے جس کی مثال کرشنا مورتی اور بلھے شاہ ہیں
تیسرا گروہ سیکولر انسان دوستوں کا ہے جس کی مثال چارلز ڈارون اور سٹیون ہاکنگ ہیں

میں خود تو سیکولر ہیومنسٹ ہوں لیکن ان تمام مذہبی اور روحانی انسان دوستوں کا احترام کرتا ہوں جو خدمت خلق کرتے ہیں۔

میں نے ہسپتالوں میں کئی ہندو ڈاکٹروں، عیسائی نرسوں اور یہودی سوشل ورکروں کے ساتھ مل کر مریضوں کا خیال رکھا ہے۔ ہم اپنے نظریاتی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر مریضوں کی خدمت کو قدر مشترک سمجھتے ہیں۔

دوسروں کی رائے کے احترام کے بارے میں لکھتے ہوئے مجھے کینیڈا کے موجودہ وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو کے والد پیر ٹروڈو یاد آ رہے ہیں۔ وہ ایک سیاسی رہنما ہی نہیں ایک دانشور بھی تھے۔ زندگی کے آخری دنوں میں برطانوی جرنلسٹ رابرٹ فراسٹ نے ٹی وی پر ان کا تین گھنٹے کا انٹرویو لیا اور ان کی تمام تر سیاسی اور غیر سیاسی خدمات کو سراہا۔ آخر میں فراسٹ نے ٹروڈو سے پوچھا

”آپ کی نگاہ میں آپ کی زندگی کی سب سے بڑی کامیابی کیا ہے؟“

ٹروڈو کافی دیر تک گہری سوچ میں ڈوبے رہے پھر کہنے لگے، میری زندگی کی سب سے بڑی کامیابی یہ ہے کہ تیس برس کی عمر میں میں نے جان لیا کہ میری رائے ایک عام رائے ہے وہ کوئی حتمی رائے نہیں ہے،

My opinion is just AN opinion, it is not THE opinion

پیر ٹروڈو کا انٹرویو سنتے ہوئے مجھے اپنے والد صاحب بھی یاد آ گئے جو فرمایا کرتے تھے کہ دل جیتنا دلیل جیتنے سے زیادہ اہم ہے۔

اب میں سمجھتا ہوں کہ اختلاف الرائے کو خوش آمدید کہنا اور دوسرے انسانوں کی رائے کا احترام کرنا ایک مہذب انسان اور قوم بننے کے لیے ناگزیر ہے۔ یہی رویہ جمہوری معاشرہ قائم کرنے کی بنیاد ہے۔

مکالمہ اور ڈائلاگ قائم رہے تو جمہوریت زندہ رہتی ہے۔

جب کسی قوم کے خاندانوں، سکولوں اور اسمبلیوں سے ڈائلاگ رخصت ہو جائے اور مونولاگ داخل ہو جائے تو اس ملک سے جمہوریت رخصت ہو جاتی ہے اور آمریت داخل ہو جاتی ہے چاہے وہ آمریت مذہبی ہو سیاسی ہو یا عسکری۔ یہ کسی بھی قوم کے مستقبل کے لیے اچھا شگون نہیں ہے۔

میرا تمام والدین اور اساتذہ کو مشورہ ہے کہ وہ اپنے بچوں، بچیوں، طلبہ و طالبات سے مکالمہ کریں اور اچھے رول ماڈل ثابت ہوں تا کہ وہ سوال کرنا سیکھیں اور اختلاف الرائے کے لیے حوصلہ پیدا کریں۔ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ آپ کے بقول ہم اختلاف میں عدم برداشت کے قائل اور متشدد ہو چکے ہیں۔

اب میرا موقف ہے کہ دنیا میں اتنے ہی سچ ہیں جتنے انسان اور اگر ہم چاہتے ہوں کہ دوسرے لوگ ہمارے سچ کا احترام کریں تو ہمیں بھی دوسروں کے سچ کا احترام کرنا ہوگا۔ یہی مہذب انسانوں اور قوموں کا شیوہ اور روایت ہے۔

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 681 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments