مندر بننے دیں یا کرنسی نوٹوں پر مولانا عبد العزیز کی تصویر چھاپ دیں


بھارت میں ہٹلر ثانی مودی صاحب کی حکومت ہے۔ بھارت میں مسلمانوں پر بے انتہا مظالم ہو رہے ہیں۔ کیا دہلی میں کوئی مسجد نہیں ہے؟ وہاں صرف مندر بنانے کی اجازت ہے؟ نہیں جناب! دہلی میں بہت سی نئی اور پرانی مساجد ہیں۔ لندن برطانیہ کا دارالحکومت ہے۔ ہم ہمیشہ سنتے آئے ہیں کہ انگریز مسلمانوں کے خلاف سازش کرتے رہے ہیں۔ کیا لندن میں کوئی مسجد نہیں ہے؟ نہیں جناب! لندن میں بہت سی مساجد ہیں۔

یہ حقیقت ہے کہ اسرائیل نے عربوں کے حقوق غصب کیے ہیں۔ انہوں نے یروشلم پر زبردستی قبضہ کر کے اسے اپنا دارالحکومت بنانے کا اعلان کیا ہے۔ کیا یروشلم میں کوئی مسجد نہیں ہے؟ جناب انٹرنیٹ پر چیک فرمائیں یروشلم میں بہت سی نئی اور پرانی مساجد ہیں۔ اور مساجد کے امام صاحبان اسرائیلی حکومت سے تنخواہیں بھی وصول کر رہے ہیں۔

ہمارے وطن کا دارالحکومت اسلام آباد ہے۔ ہم بالکل متعصب نہیں ہیں۔ دنیا مانے یا نہ مانے اکثر پاکستانی اس بات پر مکمل یقین رکھتے ہیں کہ ہمارے ہاں مکمل مذہبی آزادی ہے۔ ہمارے جیسا فراخدل کوئی نہیں ہے۔ لیکن ہمارے دارالحکومت میں صرف ایک مندر کی تعمیر شروع ہوئی تو شور قیامت برپا ہو گیا۔ نظریہ پاکستان کی بنیادیں متزلزل ہو گئیں۔ کچھ علماء کی دنیا اندھیر ہو گئی۔ کل کو جب ہم دنیا میں نکل کر انہیں بتائیں گے کہ بھارت کشمیریوں پر کتنا ظلم کر رہا ہے اور مسلمانوں کے حقوق غصب کر رہا ہے۔ تو دنیا ہم پر ہنسے گی نہیں تو کیا کرے گی۔

علیحدہ ملک کا مطالبہ تو 1940 میں کیا گیا۔ شروع ہی سے مسلم لیگ کے مطالبات میں ایک مرکزی مطالبہ یہ تھا کہ ہم کسی آئین کو تبھی قبول کریں گے جب ہر کسی کو عبادت اورمذہبی رسومات ادا کرنے کی، اپنے مذہب کا پراپگنڈا کرنے اور اس کی تعلیم دینے کی مکمل آزادی ہو گی۔ آپ ریکارڈ ملاحظہ فرما سکتے ہیں کہ مسلم لیگ نے 1925 اور 1928 اور 1931 میں اس مضمون کی قراردادیں منظور کیں۔ اسی طرح قائد اعظم کے چودہ نکات میں سے ساتواں نکتہ یہ تھا کہ مکمل مذہبی آزادی دی جائے۔ ہر کسی کو اپنا عقیدہ رکھنے، اپنے مذہب کے مطابق عبادت کرنے اور مذہبی رسومات ادا کرنے، اپنے مذہب کا پراپیگنڈا کرنے اور اپنے مذہب کی تعلیم دینے کی آزادی ہو۔ کیا عقل اس بات کو قبول کر سکتی ہے کہ ہم یہ کہیں کہ ہم تمام مذاہب کو عبادت اور مذہبی رسومات ادا کرنے کی اجازت تو دے رہے ہیں لیکن انہیں اپنی عبادتگاہ بنانے کی اجازت نہیں دے سکتے۔

جب 11 اگست 1947 کو قائد اعظم نے یہ اعلان کیا تھا کہ آپ سب اپنی مساجد، اپنے مندروں اور اپنے گرجوں یا جو بھی آپ کی عبادت کی جگہ ہے جانے کے لئے آزاد ہیں۔ تو کیا اس کا یہ مطلب تھا کہ اے ہندو مذہب سے وابستہ لوگو! تمہیں اپنے مندروں میں جانے کی آزادی تو ہے لیکن ہم تمہیں مندر بنانے نہیں دیں گے۔

مذہبی سیاسی پارٹیاں سب سے زیادہ قرارداد مقاصد کا حوالہ دیتی ہیں۔ اس میں لکھا کہ مذہبی اقلیتوں کو اپنے مذہب پر عمل کرنے، عقیدہ اور عبادت کی آزادی حاصل ہو گی۔ ہمارے آئین میں بنیادی انسانی حقوق کے باب کی شق 20 میں لکھا ہے کہ ہر شخص کو اپنے مذہب پر عمل کرنے کی آزادی حاصل ہوگی۔ کیا کوئی ذی ہوش اس بات کو تسلیم کر سکتا ہے کہ پاکستان میں عبادت اور مذہب پر عمل کرنے کی تو آزادی ہے لیکن عبادتگاہ کی تعمیر پر پابندی لگانے میں کوئی حرج نہیں۔

جب خواجہ آصف صاحب نے دلیری سے قومی اسمبلی میں اس مسئلہ پر آواز اٹھائی تو کچھ ”صاحبان جبہ و دستار“ کا رد عمل پوری دنیا میں پاکستان کا تماشا بنانے کے لئے کافی تھا۔ ایک ممبر نے فرمایا کہ پرانے مندروں کی مرمت کی تو اجازت ہے لیکن نئے مندر بنانے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ اور ہم خون دے دیں گے لیکن اس کی اجازت نہیں دیں گے۔ معلوم نہیں ان صاحب کو یہ خوش فہمی کس طرح ہو گئی کہ اسمبلی کو بنیادی انسانی حقوق سلب یا کم کرنے کا اختیار ہے۔ میرا مشورہ ہے کہ جذبات کے گھوڑوں پر سوار یہ حضرات آئین میں بنیادی حقوق کے باب کی شق نمبر 8 کا آغاز پڑھ لیں۔ اس میں لکھا ہے کہ:

” مملکت کوئی ایسا قانون وضع نہیں کرے گی جو بایں طور عطا کردہ حقوق کو سلب یا کم کرے اور ہر وہ قانون جو اس شق کی خلاف ورزی میں وضع کیا جائے اس خلاف ورزی کی حد تک کالعدم ہوگا۔“

ان گزارشات کا مقصد یہ ہے کہ پارلیمنٹ کو بھی اس بات کا اختیار نہیں ہے کہ وہ بنیادی انسانی حقوق کو سلب یا کم کرنے کا قانون منظور کرے۔ اور اپنے عقیدہ کے مطابق عبادت کی آزادی ان حقوق میں شامل ہے۔ کیا ہم نے کبھی یہ سوچا ہے کہ آزادی سے بہت قبل، ہندوستان میں یہ آواز کس نے بلند کی تھی کہ قانون ساز اسمبلی کو اس بات کا اختیار نہیں ہونا چاہیے کہ وہ کسی مذہب سے وابستہ لوگوں کی مذہبی آزادی کو کم کر سکے؟ 1931 میں دوسری راؤنڈ ٹیبل کانفرنس کے دوران یہ آواز مسلمانوں نے بلند کی تھی۔ اور اس موضوع پر قائد اعظم محمد علی جناح اور دوسری طرف مسٹر آینگر، مسٹر جوشی، تیج بہادر سپرو اور ڈاکٹر امبید کار کے درمیان دلچسپ بحث ہوئی تھی۔

قائد اعظم کا نکتہ یہ تھا کہ آئین میں یہ گنجائش رکھنی چاہیے کہ کسی مذہبی گروہ کی مذہبی آزادی کو کم کرنے کے بارے میں قانون ساز اسمبلی میں کوئی قرارداد پیش ہو رہی ہے تو اگر اس مذہبی گروہ کے نمائندے اسمبلی میں موجود ہیں اور ان میں سے دو تہائی اسمبلی میں یہ اعلان کر دیں کہ یہ قانون یا بل ہماری مذہبی آزادی کو نقصان پہنچا رہا تو یہ بل رک جانا چاہیے اور اسے منظور نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن جو مذہبی گروہ اس سے متاثر ہو رہا ہے اس پر لازم ہوگا کہ وہ اپنی شکایت ایک ٹریبونل میں پیش کر کے یہ فیصلہ کر ائے کہ یہ بل ان کی مذہبی آزادی کو سلب کر رہا ہے کہ نہیں۔ اگر یہ ٹریبونل یہ فیصلہ دیتا ہے کہ یہ بل اس گروہ کی مذہبی آزادی کے لئے نقصان دہ ہے تو یہ بل نہ پیش ہو سکتا ہے اور نہ منظور ہو سکتا ہے۔ اگر کسی مذہبی گروہ کے نمائندے اسمبلی میں موجود نہیں تو وہ از خود عدالت سے رجوع کر سکتے ہیں۔

(India Round Table Conference. Second Session P 777-780)

عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ملک کی پارلیمنٹ کے پاس اختیار نہیں کہ وہ کسی کے بنیادی انسانی حقوق کو غصب کر ے۔ آخر میں ایک بات کا ذکر کرنا ضروری ہے۔ میرے خیال میں اس صورت حال کی سب سے زیادہ خوشی بھارت، یورپ اور امریکہ میں ان گروہوں کو ہے جو کہ اس بات کی تیاری کر رہے ہیں کب موقع ملے اور وہ مسلمانوں کی آزادی پر اپنی طبع آزمائی کریں۔ کل کو یہی گروہ یہ مطالبہ کریں گے کہ بھارت، امریکہ اور یورپ وغیرہ میں مسلمان اپنی پرانی مساجد کی مرمت تو کر سکتے ہیں لیکن نئی مساجد تعمیر نہیں کر سکتے۔ پاکستان میں بہت تھوڑے ہندو آباد ہیں لیکن بھارت میں اتنے ہی مسلمان رہتے ہیں جتنے پاکستان میں موجود ہیں۔ پاکستان میں گنتی کے امریکی، یورپی یا انگریز رہ رہے ہوں گے لیکن لاکھوں پاکستانی ان ممالک میں آباد ہیں۔ اگر ہم قائد اعظم کا پاکستان بنانا چاہتے ہیں تو کرنسی نوٹوں پر ان کی تصویر چھاپنا کافی نہیں بلکہ ان کے نظریات پر عمل بھی کرنا ہوگا۔ ورنہ دوسرا راستہ یہ ہے کہ کرنسی نوٹوں پر بھی مولانا عبد العزیز کی تصویر شائع کردیں تاکہ روز روز کی بحث ختم ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments