مذہبی تحریک کا سماجی کردار


1981 ء میں قائم ہونے والی مذہبی جماعت بنام ”دعوت اسلامی“ دنیا کے دو سو سے زیادہ ممالک میں دین اسلام کی اشاعت میں مصروف عمل ہے۔ دینی موضوعات پر کتب و رسائل کے اجراء اور ماہنامہ ”فیضان مدینہ“ کے نام سے رسالہ کی باقاعدہ اشاعت نے گھر گھر دین کے پیغام کو پہنچانے میں اہم کردار ادا کیاہے۔ پاکستان کی علاقائی زبانوں میں کتب و رسائل کی اشاعت کا سلسلہ جاری ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ دنیا کی تیس سے زائد زبانوں میں کتب و رسائل کے تراجم کیے جاتے ہیں۔

اس جماعت کا ذرائع و ابلاغ کا ایک اپنا منفرد اور وسیع نظام ہے۔ دعوت اسلامی ”مدنی چینل“ کے ذریعے دنیا کی تین بڑی زبانوں انگریزی، عربی اور اردو سمیت بنگالی زبان میں بھی تبلیغ قرآن و سنت کے مشن پر گامزن ہے۔ اس کے علاوہ اس تحریک نے رفتہ رفتہ پورے ملک میں دینی و عصری تعلیم و تربیت کے لیے ادارے قائم کیے۔ ابتدائً ”مدرسۃ المدینہ“ کے نام سے مدارس قائم کیے، پھر ”جامعۃ المدینہ“ کے نام سے دینی تعلیم کے لیے جامعات قائم کیے، پھر مناسب وقت پر بچوں کے لیے ”دارالمدینہ“ کے نام سے اسکولنگ سسٹم کا آغاز کیا، اور اب یونیورسٹی کے قیام کی تیاری ہے۔ الغرض دعوت اسلامی معاشرے کو ایسے افراد دینے کے لیے کوشاں ہے جو ڈاکٹر، انجینئر، جج، وکیل ہونے کے ساتھ ساتھ بہترین قاری قرآن اور عالم بھی ہوں۔

گزشتہ چند مہینوں سے اس تبلیغی جماعت کا کردار سماجی تنظیم کے روپ میں بھی سامنے آیا۔ اگرچہ پہلے بھی زلزلہ و سیلاب جیسی ناگہانی آفات میں دعوت اسلامی پیش پیش رہی ہے لیکن گزشتہ چند مہینوں پہلے اس کا باقاعدہ شعبہ بنا دیا گیا ہے۔ کورونا وائرس کی وبا کے بعد سے سماجی سرگرمیوں میں تیزی دیکھی گئی۔ لاک ڈاؤن کی وجہ سے متاثر ہونے والے خاندانوں کی کفالت کی ذمہ داری اٹھائی گئی۔ گھر گھر باعزت طریقے سے راشن پہنچانے کا انتظام کیا گیا۔

بیواؤں، یتیموں اور مسکینوں کی مدد کی گئی۔ اس کے ساتھ ساتھ دیہاڑی دار اور مزدور طبقے کی مالی معاونت کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ جب کورونا سے اموات کا سلسلہ شروع ہوا تو ان کے کفن دفن کے لیے اس تحریک نے بھر پور تحریک چلائی۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب میت کے ورثاء بھی میت کو ہاتھ لگانے سے ڈر رہے تھے، میت کو اچھوت سمجھا جا رہا تھا، اس وقت دعوت اسلامی نے تجہیز و تکفین کا بیڑا اٹھایا اور اسلامی طریقے سے میت کی تجہیز و تکفین کے انتظامات کیے۔

اسی طرح لاک ڈاؤن کی وجہ سے تھیلیسیما سے متاثرہ ہزاروں معصوم بچے زندگی اور موت کی کشمکش میں تھے۔ ہزاروں بچوں کی زندگی کا سوال تھا۔ پاکستان میں تھیلیسیمیا سے متاثر بچوں کی تعداد ایک لاکھ بتائی گئی ہے جن میں سے 23 ہزار بچوں کا تعلق سندھ سے ہے۔ ڈاکٹر ثاقب حسین انصاری کے مطابق پاکستان کے ان ایک لاکھ بچوں کی اکثریت کو 17 دن بعد خون لگانا ضروری ہوتا ہے، مگر ان میں سے دس فیصد یعنی دس ہزار بچوں کو سات دنوں میں خون لگتا ہے جبکہ دو فیصد یا دو ہزار بچوں کو ہر دو دن بعد خون دینا ضروری ہوتا ہے۔

سندھ میں تھیلیسیمیا سے متاثر بچوں کے علاج اور انہیں باقاعدگی سے خون دینے کے لیے 13 اضلاع میں 27 مراکز قائم ہیں جو کراچی، حیدرآباد، ایک سکھر، بدین، شہید بینظیرآباد اور میرپورخاص شمال میں ہیں۔ لاک ڈاؤن کی وجہ سے خون کے عطیات میں واضح کمی دیکھی گئی۔ خون کا موجود اسٹاک ختم ہونے کے بالکل قریب تھا۔ ایسی ایمرجنسی کی صورتحال میں دعوت اسلامی نے ایک اور انقلابی قدم اٹھایا۔ فوری طور پر تھیلیسیمیا سے متاثرہ مریضوں کے لیے خون کے عطیات جمع کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا۔

اس پیش رفت کو پوری دنیا میں خوب سراہا گیا۔ اسی طرح جب یہ معلوم ہوا کہ کورونا سے صحتیاب ہونے والے شخص کا پلازما دوسرے مریض کو صحتیاب کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے تو فوراً ہی لاکھوں کی رقم کے عوض پلازما کی خرید و فروخت کا گھناؤنا کاروبار شروع ہو گیا۔ اس موقع پر بھی دعوت اسلامی نے مثبت کردار ادا کرتے ہوئے اور انسانیت کی خاطر صحتیاب مریضوں کے پلازمے جمع کر کے عطیہ کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا۔ دعوت اسلامی کے اس اقدام کو بھی خوب پذیرائی ملی۔

کالم کا مقصد: ہر شخص کسی نہ کسی تنظیم یا تحریک سے وابستہ ہوتا ہے۔ اگرچہ وہ اس کا لاکھ انکار کرے لیکن اس کا قلبی جھکاؤ کسی نہ کسی تحریک کی جانب لازمی ہوتا ہے۔ تحسین و تنقید کا سلسلہ اسی قلبی جھکاؤ کی وجہ سے ہوتا ہے جو کہ ایک فطری کیفیت ہے۔ لیکن بغض و عناد کی وجہ سے بلاوجہ تنقید یا اندھی عقیدت میں غلو سے افراط و تفریط پیدا ہوتا ہے اور اس سے معاشرے کا توازن خراب ہوتا ہے جبکہ اس معاملہ میں معتدلانہ رویہ اختیار کرنا معاشرے میں حسن پیدا کرتا ہے۔

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ہر شخص کی اپنی پسند اور نا پسند ہوتی ہے۔ کسی بھی تنظیم یا تحریک سے سو فیصد اتفاق ضروری نہیں ہے، ہو سکتا ہے کہ بعض حضرات کے لیے یہ تنظیم لائق نفرت ہو۔ یہ بھی ممکن ہے کہ بعض لوگ اس تنظیم کا نام سنتے ہی خوشی سے جھوم جاتے ہوں۔ اسی طرح ہر تحریک میں اچھائیوں کے ساتھ ساتھ چند قابل اصلاح امور بھی ہوتے ہیں جن کی اصلاح ناگزیر ہوتی ہے۔ اہل علم و دانش اور عقل و شعور رکھنے والے حضرات کا وتیرہ ہوتا ہے کہ وہ چند معمولی اصلاح طلب امور کی وجہ سے پوری تنظیم کے معمولات اور سرگرمیوں پر کیچڑ نہیں اچھالتے بلکہ قابل تحسین امور کی تحسین کرتے ہیں اور اصلاح طلب امور پر توجہ دلاتے ہیں۔

تنظیم کی اچھائیوں پر تعریف و تحسین کرنا انصاف کا تقاضا ہے۔ آپ کے دل میں اس تحریک کے متعلق محبت کا بیج ہو یا نفرت کا۔ آپ ا سے پسند کرتے ہوں یا نہ کرتے ہوں، لامحالہ اس بات کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ اس تحریک نے نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا کے اکثر ممالک میں ایک انقلاب برپا کر رکھا ہے۔ اس تحریک پر محض حسد، ہٹ دھرمی اور بغض و عناد کی وجہ سے بے جا اعتراض اور خوامخواہ تنقید چاند پر تھوکنے کے مترادف ہے۔ ایک انسان میں اتنا ظرف ہونا چاہیے کہ وہ کسی فرد، تحریک یا تنظیم کے مثبت کردار کو قدر کی نگاہ سے دیکھ سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments