رابرٹ کلائیو نے الزامات کو ہی توہین سمجھ کر جان دے دی


پندرہویں صدی کے برطانیہ کے بادشاہ ہنری سیون کے زمانے سے ویلز برطانیہ کے قریب ایک امیر جاگیر قائم تھی۔ اس جاگیر کا نام کلائیو فیملی سٹیٹ تھا۔ اس جاگیر کے مالک خاندان کی عوامی اور سیاسی خدمات کی طویل ہسٹری تھی۔ ہنری بادشاہ کے خزانے کا نگران آئرش چانسلر بھی اسی خاندان سے تھا جبکہ سولہویں صدی میں بھی اس خاندان کے افراد برطانوی پارلیمنٹ کے رکن تھے۔ اٹھارہویں صدی کے آغاز میں اس جاگیر کا وارث رچرڈ کلائیو نامور وکیل بنا جس کی آمدنی لامحدود تھی۔

وہ اپنی آمدنی سے ریاست کے خزانے میں حصہ بھی ڈالتا۔ اس نے کئی برس پارلیمنٹ میں اپنے حلقے منٹگمری شائر کی نمائندگی بھی کی۔ اس کے ہاں ایک بیٹا پیدا ہوا جس کا نام رابرٹ کلائیو رکھا گیا۔ وہ رچرڈ کلائیو کے 13 بچوں میں سب سے بڑا تھا۔ نوعمری میں ہی رابرٹ کلائیو کے اپنے ہم عمروں سے لڑائی جھگڑے قابو سے باہر ہونے لگے۔ بہت چھوٹی عمر سے ہی اس کے دل سے لڑائی جھگڑے اور مارکٹائی کا خوف ختم ہو گیا۔ وہ سکول میں بھی ہروقت انتظامیہ کے لیے مصیبت کھڑی کیے رکھتا۔

جب وہ ذرا بڑا ہوا تو اس نے ٹین ایجر لڑکوں کا ایک غنڈہ گینگ بنایا جو تعاون نہ کرنے والے تاجروں کی دکانوں کو توڑ پھوڑ دیتا۔ وہ اکثر سینٹ میری پیرش چرچ کے بلندو بالا ٹاور کی چھت کے ابھرے پتھر پر چڑھ کر بیٹھ جاتا جسے نیچے سے گزرنے والے دیکھ کر بہت خوفزدہ ہوتے۔ وہ سٹینڈ گرائمر سکول کے اونچے ٹاور پر بھی چڑھ جاتا اور نیچے سے گزرنے والوں پر چیزیں پھینکتا۔ بیٹے کی حرکتوں سے تنگ آکر باپ نے اسے مرچنٹ ٹیلر سکول لندن بھیج دیا۔

وہاں بھی باپ کی تدبیر کامیاب نہ ہوئی۔ تنگ آکر ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے لیے اسے ہرٹ فورڈ شائر کے ایک ٹریڈ سکول میں داخل کروا دیا گیا۔ بعد ازاں اس کے والد نے ایسٹ انڈیا کمپنی میں اس کے لیے ایک کمپنی ایجنٹ کی ملازمت تلاش کی اور اسے ہندوستان کے شہر بمبئی بھجوا دیا۔ رابرٹ کلائیو 1744 ء میں ہندوستان کے شہر مدراس کے قریب فورٹ سینٹ جارج پہنچا اور دو سال تک ایسٹ انڈیا کمپنی کی ایک دکان میں سیلزمین کے طور پر کام کیا۔

کسی طرح اس کا کمپنی کی لائبریری میں آنا جانا شروع ہوگیا جہاں اسے مطالعے کا شوق پیدا ہوا۔ اورنگزیب عالمگیر کی موت کے بعد مغل سلطنت زوال کا شکار ہوچکی تھی۔ یورپین کاروباری کمپنیوں نے اس صورتحال کا بہت فائدہ اٹھایا۔ ان میں سب سے آگے ایسٹ انڈیا کمپنی تھی۔ اپنے کاروباری مفادات کو تحفظ دینے کے لیے ان کمپنیوں نے اپنے ملکوں سے فوجی دستے بھی منگوانے شروع کردیئے۔ ایک دوسرے سے زیادہ سبقت لے جانے کے لیے یورپین کمپنیوں کی باہمی لڑائی بھی ہونے لگی۔

اسی دوران فرانسیسی کمپنی نے مدراس میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے علاقے پر حملہ کیا اور قبضہ کر لیا۔ سب برطانوی قیدیوں نے فرانسیسیوں سے معافی مانگی اور آئندہ فرانسیسی فوج کے خلاف جنگ نہ کرنے کا حلف اٹھایا لیکن کلائیو اور اس کے تین ساتھیوں نے یہ حلف اٹھانے سے انکار کر دیا۔ ایک رات گارڈ کی غفلت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے رابرٹ کلائیو اور اس کے دوسرے ساتھی جیل سے فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے اور 50 میل دور ایک مضبوط برطانوی چوکی میں پہنچ گئے۔

وہاں جاکر رابرٹ کلائیو نے فیصلہ کیا کہ وہ کاروباری پیشے سے نکل کر ایسٹ انڈیا کمپنی کی فوج میں شامل ہوگا۔ رابرٹ کلائیو فوج میں داخل ہونے کے بعد اپنی صلاحیتوں اور کامیابیوں کی بنیاد پر تیزی سے ترقی کرنے لگا اور میجر جنرل کے عہدے تک پہنچ گیا۔ پھر اسے برٹش انڈیا کا کمانڈرانچیف بنا دیا گیا۔ اس نے بہت بڑے بڑے معرکے سرکئے۔ جنرل رابرٹ کلائیو کی فتوحات کی وجہ سے ایسٹ انڈیا کمپنی کے خزانے میں ہندوستان کی بیشمار دولت جمع ہونا شروع ہوگئی۔

اس وقت کے رواج کے مطابق فاتح سپہ سالار کو مفتوحہ خزانے میں سے کافی بڑا حصہ ملتا تھا لیکن معروف برطانوی فلیٹ سرجن نے لکھا کہ جنرل رابرٹ کلائیو نے ہمیشہ مفتوحہ خزانے میں سے اپنا حصہ لینے سے انکار کر دیا۔ جنرل رابرٹ کلائیو نے بنگال میں ایسٹ انڈیا کمپنی کی سیاسی اور فوجی بالادستی قائم کی۔ یہ وہی جنرل رابرٹ کلائیو ہے جس نے بنگال کے سراج الدولہ کو شکست دی جس کے بعد پورے ہندوستان میں ایسٹ انڈیا کمپنی کی حکومت کے قیام کا آغاز ہوا۔

اسے ہسٹری میں خوش قسمت سپاہی اور کلائیو آف انڈیا کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ ہندوستان سے واپسی پر وہ برطانوی پارلیمنٹ کا ممبر بنا۔ اس کی تقریریں اور تحریریں برطانوی پارلیمنٹ کی دستاویزات کا اہم حصہ ہیں۔ کچھ عرصے بعد اس نے فرانس میں مستقل رہائش اختیار کرلی۔ اسی دوران اس کے سیاسی مخالفین نے اس پر ہندوستان میں ایسٹ انڈیا کمپنی کی ملازمت کے حوالے سے بدعنوانی کے الزامات لگائے۔ کرپشن کے الزامات کی مالیت صرف چند لاکھ پاؤنڈ تھی۔

رابرٹ کلائیو اپنے اوپر لگنے والے الزامات کا جواب دینے کے لیے رضاکارانہ طور پر فرانس سے واپس آیا۔ اس نے الزامات کے جواب میں کہا کہ ایسٹ انڈیا کمپنی کی تمام دستاویزات اور میرے سینئرز کی رپورٹیں اس بات کی گواہ ہیں کہ میں نے کبھی ایک پیسے کی بھی بددیانتی نہیں کی اور اپنا جائز ذاتی حصہ بھی کمپنی کے خزانے میں جمع کروایا ہے۔ اس کے باوجود میں ایسٹ انڈیا کمپنی کی ملازمت میں وصول کی گئی اپنی تمام تنخواہ رضاکارانہ طور پر دوبارہ برطانوی خزانے کو دیتا ہوں اور اگر یہ بھی قبول نہیں تو میرے آبا و اجداد کی صدیوں سے موجود ساری دولت لے لیں مگر میری عزت مجھے واپس لوٹا دیں۔

وہ رابرٹ کلائیو جسے کلائیو آف انڈیا کہا گیا، جس نے ہندوستان میں برطانوی راج کی بنیاد رکھی، اس نے چند لاکھ پاؤنڈ کے اپنے اوپر لگنے والے جھوٹے الزام کی بے عزتی برداشت نہیں کی اور 49 برس کی عمر میں خودکشی کرلی۔ ہسٹری کے صفحات بتاتے ہیں کہ بدعنوانی کے الزامات کو ہی اپنی توہین سمجھ کر سب کچھ چھوڑ دینے والے ہی عزت دار کہلائے۔ کیا پاکستان میں بھی کسی فوجی یا سول حکمران کی کوئی ایسی مثال ملتی ہے جس نے اپنے اوپر لگنے والے الزامات کو اپنی ذات کی توہین سمجھتے ہوئے خودکشی نہ سہی اپنے عہدے سے حاصل کردہ تنخواہ اور مراعات کو واپس سرکاری خزانے میں جمع کراکر اپنی ذات کی عزت بحال کرنے کی کوشش کی ہو؟ اگر نہیں تو وجہ کیا ہے؟ اگر یہ وجہ تلاش کرلی جائے تو شاید ہمارے برباد حکمرانی ڈھانچے کو مستقبل میں آباد کرنے کی کوئی صورت پیدا ہو سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments