فیسبک ، وٹس ایپ اور معاشرہ



” میں تمیں زندہ نہیں چھوڑوں گا، میں تمہاری زندگی اجیرن بنا دوں گا، میں تمہاری یا تمہاری بہن، بیٹی کی تصاویر اپلوڈ کر دوں گا، میرے پاس تمہارے گھر کی ویڈیو سٹوریز موجود ہیں اپلوڈ کر کے دنیا کو دکھاؤں گا وغیرہ وغیرہ“ یہ جملے نہیں بھیانک پیغامات ہیں جو نوجوان طبقہ حالیہ دور میں فیس بک، وٹس ایپ، ایمو وغیرہ کے ذریعے دوسروں کو بھیجتا ہے اور ذہنی اذیت سے دوچار کر کے کبھی پیسوں کی ڈیمانڈ اور کبھی اپنے ناجائز مطالبات منوانا چاہتا ہے۔

تصویر کا دوسرا رخ اور بھی زیادہ بھیانک ہے۔ دو فریقین کے درمیان معاملات و تنازعات کے دوران فریقین ایک دوسرے کو فیسبک اور ٹیوٹر کے ذریعے لتاڑتے ہیں، نیچا دکھانا چاہتے ہیں، بات بڑھتی ہے تو گالم گلوچ (ننگی گالیاں)، قتل، اغوا اور دیگر سنگین نتائج کی دھمکیاں دینا شروع کر دیتے ہیں۔ بعض اوقات فیس بک پر اس طرح کے لفظی جنگ و جدل سے یوں لگتا ہے کہ بس یہ فیس بکی غیرتمند مجاہدین لمحہ بھر میں دنیا کو الٹ پلٹ کر دیں گے۔

تصویر کا تیسرا رخ بھی بھیانک ہے سیاسی، مذہبی اور مسلکی اختلافات کو ہوا دی جاتی ہے، سچ کو جھوٹ اور کھوٹ کو سچ ثابت کرنے پر پورا زور لگایا جاتا ہے، عدم برداشت کے رویے لے کر مناظروں اور مباہلوں کے لئے چیلنج کیا جاتا ہے۔ بات یہاں تک محدود رہے تو ٹھیک لیکن جب بھی کسی کے پاس دوسرے کی دلیل کے رد کے لئے دلیل یا دوسرے کے سوال کا جواب نہیں موجود نہیں ہوتا تو گالم گلوچ اور دھونس دھمکی سے کام چلانے کی کوشش کرتے ہوئے معاملات کو بحث مباحثہ کے بجائے سنگین لڑائی جھگڑے تک جا پہنچتی ہے۔ جاہل فریقین ایک دوسرے کو اپنی طاقت دکھانے کے لئے انباکس اور وال پر آتشین اسلحہ کی تصاویر اپلوڈ کر کے دکھانے لگتے ہیں وغیرہ وغیرہ مگر ایک دوسرے کا سامنا یہ لوگ بہت کم ہی کر پاتے ہیں۔

تمامی اختلافات و تنازعات میں مد مقابل کی پگڑی اچھالنا، الزامات لگانا، بہتان باندھنا، بکواس بکنا، گالی اور دھمکی دینا عام ہو چکا ہے۔ باوجود اس کے کہ ”سائبر کرائم سیل“ نے اس حوالے سے سخت قانون سازی پر عمل درآمد شروع کر رکھا ہے، لوگ باز نہیں آتے۔ اس خوش فہمی میں مبتلا کہ ”فیک اکاؤنٹ سے ہمیں پکڑنا مشکل ہوگا“ فیک اکاؤنٹ بنا کر دوسروں کے خلاف کمپین چلاتے ہیں۔ عزت اچھالتے ہیں اور خود کو بڑا ماسٹر مائنڈ سمجھنے لگ جاتے ہیں۔

ایسے میں ہم یہ طے کرنے میں مشکل کا شکار ہیں کہ اپنے معاشرے کے مطابق فیس بک، وٹس ایپ اور دیگر سوشل ویب سائٹس کو نعمت کے درجے پہ تسلیم کریں یا نری زحمت کہیں؟ لیکن جب ان تمام منظر عام پر آئے معاملات کو دیکھتے ہیں تو ہمیں حدود و قیود کی پامالی اور بے دریغ تجاوز کے سوا کچھ نہیں نظر آتا تب ہمیں نعمت نہیں زحمت کہہ کر ان سوشل ویب سائٹس کی تشریح  کرنا پڑتی ہے۔۔۔

اس حوالے سے معاشرے کا تجزیہ کریں تو ہمارا معاشرہ اتنا بگڑا ہوا معاشرہ ثابت ہوتا ہے کہ ہر وہ شے جسے نعمت کا درجہ حاصل ہے اور کرہ ارض پر وہ شے ہمیں فائدہ پہنچانے کے لئے موجود ہے، کو ہم خود، دیدہ و دانستہ طور پر اپنے فوائد کو منہدم کرکے خود اپنے ہی معاشرے کو نقصان پہنچانے کے لئے استعمال کر رہے ہیں، اور اپنی اس بے ہودگی کو فخریہ انداز میں پیش کر کے خود کو خود کا دشمن ثابت کرنے پر بضد ہیں۔

البتہ یہ والدین کی ذمہ داری ہے کہ بچوں کو سوشل میڈیا کا مثبت استعمال سکھائیں، ان کی ایک ایک حرکت پر نظر رکھیں۔ اس کام کے لئے مختلف طریقے اپنائے جا سکتے ہیں۔ روزانہ ایک مرتبہ بچوں کا موبائل فون اور سوشل اکاؤنٹس چیک کرنا، اچھی اور مثبت ایکٹیویٹی پر شاباش تو منفی اور غیر ذمہ دارانہ ایکٹیویٹی پر ان کی ڈانٹ ڈپٹ کرنا وغیرہ۔ بچوں کے اکاؤنٹس کے پاس ورڈ یاد رکھنا، اور باقاعدگی سے ان کے اکاؤنٹس کو روزانہ لاگ ان کر کے چیک کرنا، بچوں کے فیسبک فرینڈز سے بچوں کے بارے رائے لینا اور اس کے مطابق بچوں کی تراش خراش کرتے رہنا۔

لیکن وہ لوگ جن پر کسی کی سرپرستی کارگر نہیں ہے ان پر کون نظر رکھے گا؟  یہ معاشرے کی ذمہ داری ہے کہ ایسے بچوں کو سمجھانے اور انہیں تہذیب و تمیز سکھانے کی کوشش کریں۔ باوجود ان تمام تر مثبت کوششوں کے اگر کوئی معاشرتی امن و امان کو داؤ پر لگائے یا کوئی گالم گلوچ سے ماحول کو آلودہ کرنا چاہے، اس کے خلاف سب مل کر قانونی کارروائی عمل میں لائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments