مسجد سے مندر تک۔۔۔


بلاشبہ اس دنیا میں انسانوں کی آبادی کروڑوں نہیں بلکہ اربوں کی تعداد میں ہے۔ اس سے یہ بات بھی واضح ہے کہ اس دنیا میں جتنے بھی سانس لیتے انسان موجود ہیں ان کا اپنا سوچنے کا نظریہ ہے مگر جو چیز قدرے مشترک ہے اس کا نام مذہب یا عقیدہ ہے۔ اس مذہب اور عقیدے کے نفاذ پر بنی نوع انسان کی ہزاروں سالہ تاریخ میں کئی جنگیں اور فتوحات دیکھنے کو ملتی ہیں۔ اس بات کو اگر سچ مان لیا جائے کہ کسی بھی ریاست یا سلطنت کے قیام میں سب سے بڑا باب بھی مذہب یا عقیدے کا ہوتا ہے تو غلط نہ ہوگا۔ اسی طرح اس بات کے بھی بہت سے مصدقہ دلائل تاریخ کے جھروکوں سے ملتے ہیں کہ پاکستان بھی مذہب یعنی اسلام کے نام پر لیا گیا۔

اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ اس ہجرت سے بہت سے لوگ ناخوش بھی تھے میری بات کی تائید تاریخ کی بہت سی کتابوں میں مل جائے گی۔ یہ لوگ اس لیے ناخوش تھے کہ انہین اپنا آشیانہ جو ان کے باپ دادا سے منسوب تھا اسے چھوڑ کر اب ایک نئی جگہ بسیرا کرنا تھا۔ یہ بات یوں سمجھنا آسان ہے کہ آپ برسوں سے ایک گھر میں آباد ہوں اور اچانک آپ کو معلوم ہو کہ یہ گھر تو کرائے کا تھا اب ہمیں خالی جیب کسی بھی نئی جگہ آباد ہونا ہے۔ پھر کیا تھا انگریز جب برصغیر کو آزاد کر کے گیا اس کے دو ٹکرے ہونے لگے تو لکھنے والوں نے اپنی کھلی آنکھ سے دیکھا کہ آزادی کے لئے ایک ہوکر انگریز سے لڑنے والے مسلماں، ہندو، سکھ اور دیگر مذاہب کے لوگوں نے ایک دوسرے کے مال، مکان، جان اور عورتوں کو کس طرح فتح کیا۔ کچھ لوگ بارڈر نامی لکیر کے اس پار آ بسے اور کچھ لوگوں نے اپنی جگی رکنے پر اکتفا کیا۔

بلاشبہ اس پاکستان میں صرف ہندو ہی نہیں دیگر عقیدے اور مذہب کے لوگوں نے بھی اپنا گھر بسایا شاید اس یقین سے اس ملک کے جھنڈے میں موجود سفید رنگ سے ان کی نمائندگی ہوگی لیکن انہیں شاید یہ نہیں معلوم تھا کہ یہاں بھی مذہب کا کاروبار عروج پر ہے جس کے نام پر کھلے آسماں میں اڑتے گدھ کی طرح نوچ لیا جاتا ہے اور جب کوئی مردہ شکار نہ ملے تو یہ بھوکے گدھ ایک دوسرے کو بھی نوچ کھاتے ہیں۔

میرا موضوع اسلام آباد میں تعمیر ہونے والا مندر ہے کیونکہ ہمارے مذہبی انقلابی اور جہادی اسے اسلام کے قوانین کے خلاف سمجھتے ہیں اور یقیناً ان کے نزدیک مندر کی تعمیر سے اسلام کی مسجد میں دراڑیں پڑنے کا خطرہ بھی لاحق ہے۔ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ جب ریاست ان ہندوں سے ٹیکس وصول کرتی ہے وہی ٹیکس جس سے مسلمانوں کے اسلامی و ریاستی ادارے متروکہ ووقف املاک، مذہنی امور اور محکمہ اوقاف چلتے ہیں تو انہی ٹیکس کے پیسوں سے مندر کی تعمیر پر اعتراض کیوں؟ کیا اس سے کوئی نیا سورج طلوع ہوگا۔

جب ٹیکس کے پیسوں سے سکھوں کو اربوں روپے کا کرتارپور کوریڈار فراہم کیا جا سکتا ہے تو ہندوں کو مندر کیوں نہیں؟ ایک صاحب کو سوشل میڈیا پر بات کرتے سنا کہ ہم مندر کی تعمیر کے خلاف نہیں بلکہ علم اسلام اس لیے بلند کر رہے ہیں کہ جب حکومت ہمارے ٹیکس کے پیسوں سے مسجد نہیں بنا کر دے سکتی تو مندر بھی نہیں بنے گا۔ یقیناً مسجد حکومتی ٹیکس سے نہیں بن سکتی بھلا جس ملک کی پوری معیشت سود پر چلتی ہو اور ان کی معیشت، عزت اور اخلاقیات بیرون ملک گروی پڑے ہوں وہاں مندر تو کیا، مسجد کی تعمیر بھی غلط ہے۔

مجھے حیرت ہے کہ بھلا کسی اسلامی ملک میں مندر کیسے تعمیر ہو سکتا ہے، نہیں بالکل نہیں۔ اگر مندر تعمیر ہوا تو یہاں دودھ میں پانی، شہد میں شیرہ، گھی میں کیمیکل، امتحانات میں نقل، ناپ تول میں کمی، ٹیکس میں چوری، ہوٹلوں میں مردہ گوشت اور نوکری میں رشوت عام ہو جائے گی اور ہم ایسا بالکل نہیں ہونے دیں گے اس لیے اسلامی جمہوری پاکستان کے ہر محلے میں بنے گی تو صرف ایک مسجد تاکہ چندے سے اسلام کا نفاذ عام کیا جا سکے؟ یہ صحیح ہے۔ زبردست

ایک جانب تو ہاتھ میں انگریزوں کی ایجاد موبائل فون لیے اس مقام پر پہنچے جہاں مندر کی تعمیر جارہی تھی اور گویا یوں وہاں بنجر زمین ہر اینٹیں اٹھا اٹھا کر پھینکنے لگے کہ آج تو یہاں سے تیل نکال لیں گے یا پھر شاید ہندوستاں میں بابری مسجد کو گرانے کا بدلہ لے رہے ہوں۔ خیر یہ بات کل بھی درست تھی اور آج بھی مسلمہ ہے کہ مذہبی معاملہ چاہے ہندوستاں کا ہو یاکستان کا ہم ایک ہی زمیں کے ٹکرے ہیں جو ناچاہتے ہوئے بھی مشترک ہیں۔ تم سو مسجدیں گرا دو یا سو مندر، یہ بات اٹل ہے کہ اس سے دنیا میں نہ تو اسلام ختم ہو جائے گا نہ ہندو دھرم۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments