تمہیں خدا پر بھروسا نہیں!


نیلے شلوار قمیض میں ملبوس درمیانے قد اور موٹے خد و خال کا حامل امجد کافی عرصے سے موقعے کی تلاش میں عتیق صدیقی کی طرف دیکھ رہا تھا لیکن وہ اخبار پڑھنے میں کھویا ہوا لگ رہا تھا۔

’کیا بات ہے امجد؟‘ دبلے پتلے عتیق نے کرسی ڈھلتی ہوئی دھوپ کی طرف کھینچتے ہوئے کہا۔
’نہیں نہیں صاحب جی کوئی بات نہیں۔ میں تو ایسے ہی دیکھ رہا تھا کہ آپ پر اب دھوپ نہیں آ رہی۔‘
’جو بات تم کرنا چاہتے ہو وہ کرو۔‘ عتیق نے اخبار پہ سے نظریں اٹھائے بغیر کہا۔
’صاحب جی! ایک بات کرنی ہے۔‘ امجد کا ماتھا ایک دم پسینے سے تر ہو گیا۔

’اب تمہیں کیا مسئلہ پڑ گیا ہے، پچھلے ہفتے تو تم گاؤں سے واپس آئے ہو۔ اگر ضروری بات نہیں ہے تو رات میں کر لینا۔‘ عتیق مد مقابل کو اپنے پاؤں سے اکھاڑنے میں ماہر تھا۔

’مجھے ایک جگہ نوکری مل رہی ہے پچییس ہزار روپے کی۔ تو میں یہاں اس مہینے کے آخر تک کام کروں گا۔‘

’ہوں!‘ عتیق نے اخبار پر سے نظریں اٹھائیں اور کوئی رد عمل ظاہر نہ کرتے ہوا بولا۔ ’ٹھیک ہے لیکن تم نے کبھی سوچا کہ یہاں تمہیں کتنے فائدے ہیں۔ جو مرضی چاہو کھاؤ پیؤ، دن میں بھی آرام کرو۔ نئی جگہ جاؤ گے پتا نہیں کیسے لوگ ہوں گے۔ تم نے کل کی خبر سنی کہ کسی نے اپنے ڈرایؤر کو مار مار کر زخمی کر دیا۔‘

’جی مجھے یہاں بہت آرام ہے۔ آپ لوگ بہت اچھے ہیں لیکن وہاں مجھے پانچ ہزار روپے زیادہ ملیں گے اور پھر میرا دوست بھی ادھر ہی کام کرتا ہے۔ اس نے بتایا کہ وہ اچھے رحم دل لوگ ہیں۔‘

’ہم نے مشکل وقت میں تمہارا خیال کیا۔‘ پھر عتیق نے امجد کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوئے کہا۔ ’تم پانچ ہزار روپیؤں کے لئے نمک حرامی کر رہے ہو!‘

’نہیں جی! نہیں جی! میں نمک حرامی نہیں کر رہا اسی لئے تو آپ کو پندرہ دن پہلے بتا دیا ہے۔ صاحب جی، میرے لئے پانچ ہزار روپے بڑی بات ہے۔ اس سے میرے بچوں کی فیس نکل آئے گی اور علاج معالجہ کے لئے بھی تھوڑے بہت پیسے بچ جائیں گے۔‘

عتیق ایک دو لمحے خاموش رہنے کے بعد بولا۔ ’کیا تمہیں خدا پہ بھروسا نہیں ہے؟ اگر تمہاری قسمت میں لکھے ہیں تو یہیں سے مل جائیں گے۔‘

’نہیں نہیں صاحب جی! ایسی بات نہیں ہے خدا پہ پورا بھروسا ہے۔ اب خدا ادھر پانچ ہزار روپے زیادہ دے رہا ہے۔‘

عتیق نے ذرا آگے ہو کر راز داری سے کہا۔ ’بندے کا رزق خود چل کر اس کے پیچھے آتا ہے۔ اس بارے میں ذرا سوچو، سوچ کر کل مجھے بتا دینا۔‘

’جی اچھا جی۔ میں آپ کو کل بتا دوں گا۔‘
۔ ۔ ۔
’ہیلو ہیلو!‘
’ہیلو جی اسلام و علیکم۔‘
’گلشن، تمہارا کیا حال ہے اور ذاکر اور شاکر ٹھیک ہیں؟‘

’ہاں، سب خیریت ہے، اللہ کا کرم ہے۔ اور تم کیسے ہو؟ میں ہر دفعہ یہی پوچھتی ہوں کہ کب آؤ گے۔ تمہاری یاد بہت ستاتی ہے۔‘

’بس میں چھٹی ملتے ہی اسی شام بس پکڑ کر رات میں کسی وقت پہنچ جاؤں گا۔ مجھے تم اور بچے کسی لمحہ نہیں بھولتے۔‘

’اوں اوں! تم ہر دفعہ یہی کہہ کر ٹال دیتے ہو۔ تمہیں کیا پتا میرا کیا حال ہے! اچھا تم اس دفعہ پیسے جلدی بھیج دینا ساجد کہہ رہا تھا کہ قرضہ بڑھ گیا ہے۔ اس لئے کچھ پیسے اس کو مہینہ ختم ہونے سی پہلے دینے ہیں تاکہ اگلے مہینے کے آخر میں وہ ادھار سامان دینے میں تنگ نہ کرے۔‘

’ابھی تو پیسے بھیجنا مشکل ہے، صاحب سے پھر پیشگی مانگنے پڑیں گے۔ اچھا میں کسی سے ہزار روپیہ ادھار لے کر تمہیں بھیج دوں گا۔ گلشن مجھے ایک دوسری نوکری مل رہی ہے پانچ ہزار روپے زیادہ ملیں گے۔ میں سوچ رہا ہوں کہ کیا کروں۔‘

’سچ مچ! اللہ تیرا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ تو نے میری سن لی۔ تم یہ نوکری کب سے شروع کر رہے ہو؟‘

’تم نے میری پوری بات نہیں سنی۔ ابھی میں سوچ رہا ہوں کہ صدیقی صاحب کے پاس رہوں یا دوسری جگہ چلا جاؤں۔‘

ابھی امجد بات ختم نہیں کر پایا تھا۔ ’اس میں سوچنے کی کیا بات ہے۔ پانچ ہزار روپے زیادہ ملیں گے! پھر میں ساجد کا سارا پچھلا حساب چکا دوں گی اور اور ذاکر اور شاکر کی فیس بھی وقت پر دیا کروں گی۔ میں کب سے دعائیں مانگتے مانگتے تھک گئی اب میری دعا قبول ہوئی تو تم سوچ میں پڑ گئے۔‘

’لیکن گلشن یہ بھی اچھے بھلے مانس لوگ ہیں۔ جب مجھے فلو ہو گیا تھا تو انہوں نے چھٹئیوں کے پیسے نہیں کاٹے تھے۔ میں ان کو مشکل میں نہیں ڈالنا چاہتا۔ آج کل اعتبار کے لائق ڈرائیور کہاں ملتے ہیں۔‘

’تمہیں ان کا فکر پڑا ہوا ہے جو کھاتے پیتے لوگ ہیں۔ پہلے تم میرے اور بچوں کے بارے میں سوچو۔ خدا خدا کر کے یہ موقعہ ملا ہے اور تمہیں صاحب اور اس کی بیگم کا فکر کھائے جا رہا ہے۔‘

’گلشن تم میری بات سمجھو۔ میرے مقدر کا رزق تو میرے پیچھے پیچھے چل کر آئے گا تو ان لوگوں کو میں کیوں تنگ کروں جہاں میں پانچ سال سے کام کر رہا ہوں۔ مجھے ان لوگوں سے کچھ انسیت سی ہو گئی ہے۔‘

’تمہاری انہی باتوں کی وجہ سے ہم کبھی تنگی سے نکل نہ پائے۔ اپنا فائدہ سوچو پہلے، جذباتی باتیں کرنا بند کرو۔ وعدہ کرو کہ کل تم صاحب کو جانے کا نوٹس دے دو گے۔‘

’میں کل ان کو بتا دوں گا، تم دعا مانگتی رہنا۔‘
۔ ۔ ۔

’امجد، تم نے مجھے بتایا نہیں کہ خدا کے بھروسے پر یہیں رہنا ہے یا کہیں اور چلے جانا ہے۔ مجھے بھی تو کسی ڈرائیور کا انتظام کرنا ہے۔ تم نے ایک دن کا وقت لیا تھا اب تو تین دن ہو گئے۔‘ عتیق نے باہر کی راہداری میں ٹہلتے ہوئے پوچھا۔

’جی صاحب جی، مجھے اللہ پر بھروسا کرنا چاہیے۔ میں کہیں نہیں جا رہا۔‘ پھر امجد ڈرتے ڈرتے بولا۔ ’اگر کچھ تنخواہ بڑھا دیں تو مہربانی ہو گی۔‘

’ہوں! تمہیں پتا ہے کہ آج کل وبا پھیلنے کی وجہ سے سب کاروبار ٹھپ ہے۔ اگر خدا نے چاہا تو اگلے سال ضرور بڑھا دوں گا۔‘

’صاحب جی، ابھی دو ہزار روپے بڑھا دیں۔‘

عتیق نے صحن کی طرف اشارہ کیا۔ ’میں کاروبار بہتر ہوتے ہی تمہاری تنخواہ بڑھا دوں گا۔ تم ان کرسیوں پہ کپڑا پھیر دو۔ پھر ذرا بیکری جا کر بیگم صاحبہ کے لئے چھ سو روپے والا چھوٹا چاکلیٹ کیک لے آنا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments