انسانی جان سب سے سستی۔ ۔ ۔


چی گویرا کہتے ہیں کہ
ایک انسانی جان کی قدر و قیمت دنیا کے امیر ترین شخص کی دولت کے لاکھوں گنا سے بھی زیادہ قیمتی ہے۔

انسان زندگی کے بارے میں وہی رائے رکھتا ہے جیسے اسے زندگی نے برتا ہو۔ شعور سنبھالنے سے آج تک میں نے سب سے زیادہ سستی انسانی جان ہی دیکھی ہے۔ حکومتیں آتی ہیں، جاتی ہیں۔ مہنگائی بڑھتی ہے، ٹیکس لگتے ہیں۔ روز مرہ کے استعمال کی اشیاء کی قیمتیں بڑھتی ہیں۔ لیکن انسانی جان سستی ہی رہتی ہے۔ سمجھ لیں حساب کا Inverse proportion ہے۔ چیزوں کی قیمت بڑھتی ہے تو انسانوں کی کم ہو جاتی ہے۔

پاکستان قدرتی وسائل کی دولت سے مالا مال ہے۔ کوئلہ، تانبا، سونا، خام لوہا اور دیگر قیمتی معدنیات کا وسیع ذخیرہ موجود ہے۔ دنیا کی دوسری بڑی نمک کی کان پاکستان میں ہے۔ 185 ارب ٹن کوئلے کے ذخائر ہیں جو تیل کے کم

از کم 4000 ارب بیرل کے برابر ہیں۔ با الفاظ دیگر ہمارے کوئلے کے ذخائر سعودی عرب اور ایران کے مجموعی تیل کے ذخائر کے برابر ہیں۔ ایک ریسرچ کے مطابق 500 ڈالر فی بیرل تیل کی قیمت کے حساب سے بھی ہمارے مذکورہ کوئلے کے ذخائر کی مالیت 30 ٹریلین ڈالر ہے جو پاکستان کی موجودہ جی ڈی پی سے 187 گناسے بھی زائد ہے۔

اب ان کانوں میں کام کرنے والے مزدوروں کی حالت ملاحظہ کریں۔

مزدور سات آٹھ سو کی دیہاڑی کے لئے کان کے اندر جاتے ہیں۔ پھر قسمت اچھی ہو تو باہر آ جائیں گے نہیں تو جان جان آفریں کے سپرد۔

حفاظتی اقدامات جیسی کسی بلا سے کوئی واسطہ نہیں۔
ان مزدوروں کی حیثیت کیڑے مکوڑوں سے بھی بد تر ہے۔ ہر سال سینکڑوں مزدور ہلاک ہوتے ہیں۔

کوئلے کی کانیں بہت گہری ہوتی ہیں جن میں میتھین گیس کی مقدار بہت زیادہ ہوتی ہے اس گیس کی موجودگی میں برقی آلات کے استعمال کی وجہ سے سپارک سے دھماکے ہوتے ہیں۔ جوکہ ہمیشہ جان لیوا ثابت ہوتے ہیں۔

حالانکہ کسی بھی کان میں کام شروع کرنے سے پہلے زہریلی گیس کو چیک کرنا ضروری ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ کان کے اندر آکسیجن کی موجودگی کو یقینی بنانا ہوتا ہے جبکہ ایک کان کے اندر متبادل راستہ بنانا بھی ضروری ہوتا ہے تاکہ کسی ہنگامی صورت میں کان کنوں کو باہر نکالا جا سکا۔ جبکہ ہمارے ہاں کان کا کوئی متبادل راستہ نہیں ہوتا۔

مائنز ایکٹ 1923 کے تحت ضروری ہے کہ کوئلہ کان کے نزدیک ہر وقت ایمبولینس موجود رہے۔ کوئلہ کان کے نزدیک ایک ڈسپنسری اور کوالیفائیڈ ڈاکٹر کا ہونا بھی ضروری ہے۔ اس کے علاوہ کام کے اوقات بھی مقرر ہیں۔ ایک مزدور دن میں صرف آٹھ گھنٹے اور ہفتے میں 6 دن سے زیادہ کام نہیں کر سکتا۔ لیکن یہ قوانین صرف کتابوں تک محدود ہیں۔ عملی زندگی میں لاگو نہیں ہوتے۔

اور دکھ اس بات کا ہے کہ ہوائی جہاز، ٹرین یا کسی خود کش حملے میں جاں بحق ہونے والے افراد کے اہل خانہ کی امداد کی جاتی ہے۔ یہ محنت کش اس سے بھی محروم رہتے ہیں۔ اول تو امداد ملتی ہی نہیں، مل بھی جائے تو 2 یا 3 لاکھ سے زیادہ نہیں ہوتی۔ اور پنشن کا تو تصور ہی نہیں۔ اب لواحقین بھیک مانگ کر گزارہ کریں یا بھوک سے خودکشی کریں فرق نہیں پڑتا۔

مزدوروں کی محنت سے اپنی تجوریاں بھرنے والے ٹھیکیدار اور با اثر افراد ان کی زندگی کی حفاظت کے لئے چند لاکھ خرچ کرنا گوارا نہیں کرتے۔ اس معاملے میں حکومت کی بے نیازی کے تو کیا کہنے۔

پھر کیسے یقین کریں کہ انسانی جان قیمتی ہے؟
ہاں! ایک صورت ہے۔ اگر آپ کا تعلق دولت مند اور با اثر گھرانے سے ہے تو آپ کی جان واقعی قیمتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments