زمان خان دانش سے مکالمہ کرتے ہیں


بہت پرانی بات ہے۔ جب ٹی ہاوس بند ہوا تو ہم چند دوست ہر اتوار کی شام نیرنگ گیلری میں بیٹھنے لگے۔ نیر علی دادا نے اتوار کی شام وہاں گذارنے کی پر خلوص رعایتوں بھری دعوت عام ہمیں دے رکھی تھی اور ہم برسوں اس سے پورا پورا استفادہ کرتے رہے ۔

زمان خاں سے میرا تعارف وہاں پر ہوا۔ وہ ان دنوں جناب آئی اے رحمان کی ہمراہی میں ہیومین رائٹس کمشن کے سٹاف پر تھے۔ اس سے یقین تو ہو گیا کہ وہ آزاد منش، کھلے ذہن اور انسانیت کے بہی خواہ ہوں گے لیکن کتنے اور کہاں تک ہوں گے، اس کی زیادہ خبر نہ تھی۔

پھر پتہ چلا کہ جز وقتی انگریزی اور اردو اخبارات میں کالم لکھتے ہیں اور ادیبوں، شعرا، مورخین اور سیاسی رہنماؤں کے انٹرویو کرتے ہیں، انٹرویو کو ضابطہ تحریر میں لاتے ہیں اور اسے انگریزی یا اردو روزنامے میں اشاعت کے لئے دے دیتے ہیں۔ ایسے انتڑویوز کا ایک مجموعہ پہلے شائع ہو چکا ہے۔ وہ عمر بھر اشتراکیت کے رضاکار کے طور پر کام کرتے رہے ہیں۔ نیرنگ گیلری والی محفل برسوں ہوئے اجڑ گئی لیکن زمان خاں سے میری دوستی بحال رہی اور آج تک قائم ہے۔ اس دوران گو ٹی ہاوس کھل گیا تھا لیکن بیشتر اراکان کا رہائشی جغرافیہ بدل چکا تھا۰ اس لئے واپسی ممکن نہ رہی –

پاکستان کے بے شمار مسائل ہیں اور تین مسئلے ایسے ہیں جو ہمارے علاوہ دنیا کے بہت کم ممالک ایسے ہیں جہاں وہ اپنے اندر اتنی شدت کو لئے ہوں کہ ملک بکھر جانے کا خطرہ ہو۔

1۔ ایک تو جہالت، ضعیف العتقادی اور توہم پرستی ہے ان کو کچھ لوگ پاکستان میں ذاتی مفادات کی غرض سے بڑھاوا پر تلے رہتے ہیں۔

2۔ پاکستان اب چار صوبوں پر مشتمل ایک فیڈریشن یعنی وفاق ہے۔ جب بنا تھا تو پانچ صوبوں پر مشتمل تھا۔ انچاس برس ہوئے ہیں کہ پانچواں صوبہ مغٰربی پاکستانیوں کی اکثریت پر مبنی افسر شاہی سے ناراض ہو کر ہندوستانی افواج کی مدد سے بنگلہ دیش بن گیا۔ ہماری بقا کا تقاضہ ہے کہ ہم پھر وہی صورت حال پیدا نہ ہونے دیں۔

3۔ نسلی، مذہبی لسانی، جنسی تفاوت اور تضاد شہریوں کے درمیان نفرت کا موجب بن رہے ہیں۔

زمان خاں کے انٹرویوز پر مبنی نئی کتاب بزبان انگریزی ‘بدلتی دنیا پبلشرز’ نے اسلام آباد سے شائع کی ہے جس کا نام Alternative vision۔ Voices of reason ہے۔ [اردو ترجمہ متبادل سوچ /صدائے استدلال] بمقابلہ تمام جانداروں کے انسان کے شرف کا انحصار صرف اس کی ذہنی اور دماغی صلاحیتوں کا مرہون منت ہوتا ہے– پاکستان اور دیگر ممالک کے دانشوروں نے مختلف انسانی مسائل اور ان کے حل کرنے کی راہوں میں درپیش طرح طرح کی رکاوٹوں کو دور کرنے کے لئے متبادل سوچ اور اسلوب عقلی اور گفت و شنید کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ قاری کو مختلف رنگا رنگ عجب ان جانے ان بوجھے قسم کے مسائل اس کے علم می٘ں آتے ہیں۔ ان کو قابو میں لانے کے عزم کو دیکھ کراس میں اپنی مدد آپ کرنے کی ہمت اور حوصلہ پیدا ہوتا ہے۔ انسان کے آگے بڑھنے کی راہ میں نوے فی صد الجھنیں اس کی اپنی یا دوسرے انسانوں کی ہوس اور خود غرضی کی پیدا کردہ ہوتی ہیں۔ کچھ رکاوٹیں فطرت کی لائی ہوتی ہیں، ان کے لئے ممکن ہے کہ سائنس مدد کرے۔ انسان گروہوں میں بٹ کر رہنا پسند کرتا ہے اور یہ اس کا پرانا اس کی فطرت میں سمویا طریق ہے۔ وہ جانتا ہے کہ، ایک اکیلا تھک جاتا ہے ساتھی ہاتھ بڑھانا۔۔۔ مورخ آپ کو بتاتے ہیں کہ ماضی میں کیا کچھ اور کیسے ہوا۔ انٹرویوز میں سیاست دان اپنا پروگرام بتاتے ہیں اور ساتھ میں مخالفین کے ظلم اور بے انصافیوں کی داستانیں بھی سناتے ہیں۔ جیسے ملک کا ادب اور شاعری دیکھ کر پتہ چلتا ہے  کہ وہ لوگ کتنے مہذب ہیں –ظلم پر ان کا کیا ردعمل ہوتا ہے۔ ایسے حالات میں ان کے تخیل کی پرواز کیا نہج یا رخ اختیار کرے گی۔

میں نے اس کتاب کو نہایت دلچسپ پایا اور یہ حالات حاضرہ کو جاننے کا اچھا ذریعہ ہے۔ اپنے اور بہت سے دیگر ممالک کے خصوصی اور مشترکہ مسائل سے آگاہی پائی۔ ان ممالک کی اندرونی اور خارجہ پاکیسیوں سے متعارف ہوا۔ اور یہ حالات حاضرہ کو جاننے کا اچھا ذریعہ ہےاپنے اور بہت سے دیگر ملکوں کے خصوصی اور مشترکہ سائل سے آگاہی پائی۔ ان ممالک کی اندرونی اور خارجہ پالیسیوں سے متعارف ہوا۔

طاہر محمد خان اور شیر محمد مری کے انٹرویوز سے پتہ چلا کہ بلوچستان کی موجودہ صورت حال کیا ہے اور بلوچوں کے پاکستان کے بارے میں کیا خیالات ہیں۔ نواب اکبر خان بگٹی اپنی موت کے بعد بلوچستان کی صوبائی سیاست میں ایک ہیرو کے طور پر ابھرا ہے۔ بلوچی زبان میں اس کی بہادری کے بارے میں گیت گائے جاتے ہیں۔ طارق علی خان کے انٹرویو سے معلوم ہوا کہ اقوام متحدہ کے 190 ممالک رکن ہیں اور ان میں سے 121 ملک ایسے ہیں جہاں پر امریکی فوج موجود ہے۔ تپن کے بوس نے بتایا ہے کہ کشمیر کی لائن آف کنڑول کے دونوں اطراف میں ایسے پرانے سیاسی مسلمان کشمیری خاندان آباد ہیں جن کے پاس ہندو پاک موجود جھگڑے کے نتیجہ میں بے اندازہ دولت اکھٹی ہو رہی ہے۔

یہ کتاب زمان خاں نے متوسط طبقے کے لئے مرتب کی ہے۔ بہت بڑے لوگوں کو اس کی ضرورت نہیں ہے۔ بہت نچلے طبقے کو اس کتاب کے سمجھنے کی ضرورت تو ہے لیکن محنت طلب کام ہوگا اور ان کے پاس روز گار کمانے کے بعد اتنا وقت کہاں بچتا ہے کہ وہ اس پر مغز ماری کر سکیں ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments