نیا پاکستان حقیقت کا روپ دھار رہا ہے


سیاست کا ہنگامہ ہر دم اس قدرکہرام مچائے رکھتا ہے کہ ملک میں جاری بے شمار مثبت سرگرمیاں اور اہم اسٹرٹیجک منصوبے زیر بحث ہی نہیں آتے جو امید کے دیے جلاتے ہیں اور مایوسیوں سے قوم کو نکال سکتے ہیں۔ اس کالم میں چند ایک ایسے منصوبوں کا ذکر کیا جا رہا ہے جو پاکستان کے بڑی معاشی قوت بننے کے خواب کو حقیقت میں بدل سکتے ہیں۔ حال ہی میں کوہالہ اور آزادپتن ہائیڈل پاور منصوبوں کا افتتاح کیا گیا۔ چارارب ڈالر کی لاگت سے تعمیر ہونے والے ان منصوبوں سے اٹھارہ سو میگاواٹ بجلی پیدا ہوگی۔

60 کی دہائی کے بعد پاکستان کوئی بڑا ڈیم تعمیر نہ کر سکا۔ کالاباغ ڈیم پر تنازعہ اس عظیم الشان منصوبے کو لے ڈوبا۔ دیامیر بھاشا ڈیم پر گزشتہ کئی دہائیوں سے بحث ومباحثہ چلتاتھا لیکن عملاً تعمیراتی سرگرمیاں شروع نہ ہوسکیں۔ الحمدللہ! اب اس منصوبے پر ایف ڈبلیو او اور چین کی سرکاری کمپنی پاور چائنا کے اشتراک سے کام شروع ہوچکا ہے۔ واپڈا کا کہنا ہے کہ ڈیم 2028 تک 4,500 میگاواٹ بجلی پیداکرنا شروع کردے گا۔ ان منصوبو ں کی تکمیل سے نیشنل گریڈ میں سستی بجلی کا شیئر کافی بڑی تک بڑھ جائے گا۔ پٹرول کی درآمد پر صرف ہونے والے زرمبادلہ کی بچت ہوگی۔ صنعت اور کاروبار ترقی کرے گا۔ توانائی کے بحران کے باعث سرمایہ بیرون ملک منتقل نہیں ہوگا۔

بجلی کے بحران کے بعد پاکستان کا ایک بڑا مسئلہ سمگلنگ ہے۔ بھارت، افغانستان، ایران اور چین کے ساتھ پاکستان کی سرحدیں ملتی ہیں۔ افغانستان اور ایران کی سرحدوں سے سمگلنگ اورغیرقانونی طور پر آمد ورفت معمول کی بات ہے۔ اعداد وشمار کے مطابق پاکستان کے خزانے کو غیرقانونی طور پر درآمد یا برآمد کی جانے والی اشیا سے تین ارب ڈالر کے لگ بھگ نقصان ہوتاہے۔ صرف ایران سے ساٹھ ارب روپے کا پٹرول سمگل ہوتاہے۔ عالم یہ ہے کہ سمندری راستوں سے بھی سمگلنگ کو روکنے کا کوئی انتظام نہ کیاجاسکا۔

یہ سارا ناجائز کاروبار سرکاری اہلکاروں کی سرپرستی میں پنپتارہا۔ کسٹم پوسٹ پر تعیناتی کے لیے لاکھوں نہیں کروڑوں رشوت دی جاتی۔ اب حکومت نے کسٹمز کی اہم پوسٹوں پر تعیناتی کے لیے سکیورٹی کلیئرنس لازمی قرار دی ہے۔ سکیورٹی کلیئرنس کی معلومات ملک کے تین بڑے خفیہ اداروں کے ساتھ شیئر کرنا لازمی قراردیاگیا ہے۔ سمگلنگ اور دہشت گردی روکنے کے لیے پاکستان نے اربوں روپے خرچ کرکے افغانستان کی مشترکہ سرحد کے ستر فی صد حصے پرالیکٹرک باڑ کھڑی کرکے اسے بند کر دیا ہے۔ رواں برس کے آخر تک بقیہ حصہ پر بھی باڑ لگادی جائے گی۔ ایران کے ساتھ مشترک نو سو کلومیڑ لمبی سرحد پر بھی باڑ لگانے کا کام جارہی ہے۔ حکومت نے تین ارب کی خطیر رقم اس منصوبے کے لیے رواں بجٹ میں مختص کی ہے۔ سمندری راستوں سے ہونے والے سمگلنگ روکنے کے لیے بھی ٹھوس اقدامات کیے جا رہے ہیں۔

پاکستان کا تیسرا بڑا مسئلہ ملک کے اندر بین الصوبائی شاہرات اور ناقص ریلوے نظام کا ہے۔ آج کی تاریخ تک 1973 کلومیٹر موٹرویز مکمل ہوچکی ہیں۔ 1763 کلومیٹر کی موٹرویز پر تعمیراتی سرگرمیاں جارہی ہیں یا نئے منصوبے شروع ہونے والے ہیں۔ ان موٹرویز کی تکمیل سے اگلے چند برسوں میں پاکستان کی تینوں بندرگاہیں کراچی پورٹ، پورٹ بن قاسم اور گوادر پورٹ شاہراہوں اور موٹر ویز کے ذریعے ملک کے باقی حصوں سے مربوط ہوجائیں گے۔ اس منصوبے کو ”نیشنل ٹریڈ کوریڈور پروجیکٹ“ کانام دیا گیاہے۔ اگلے مرحلے میں یہ نیٹ ورک افغانستان، وسطی ایشیائی ممالک اور چین کے صوبے سنکیانگ کے ساتھ پاکستان کو مربوط کردے گا۔

پاکستان ریلوے کا نظام نہ صرف فرسودہ ہوچکا ہے بلکہ ملکی خزانے کو دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے۔ وزیراعظم عمران خان کی حکومت نے ریلوے نظام کو جدید خطوط پر استوار کرنے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ پورے ملک کو تیز رفتار ریلوے نظام کے ذریعے ایک لڑی میں پرویاجاسکے۔ چین کے تعاون سے 7.2 ارب ڈالر کے ’ایم ایل ون‘ منصوبے پر اس برس تعمیراتی کام شروع ہونے کا امکان ہے۔ کراچی تا پشاور 1872 کلو میٹر ریلوے ٹریک اپ گریڈ ہوگا۔ مسافر ٹرین کی رفتار 110 کلومیٹر سے 160 کلومیٹر فی گھنٹہ ہو گی۔

مال گاڑی 120 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلے گی جس کی موجودہ رفتار تقریباً نصف ہے۔ سادہ الفاظ میں ’رکے بغیر پشاور سے کراچی تک کا سفر بارہ تیرہ گھنٹوں میں طے کر لیاجائے گا۔ اگلے مرحلے میں اس ریلوے نیٹ ورک کو افغانستان کے شہر جلال آباد تک توسیع دے کر پورے خطے کو ریلوے اور شاہرات کے نیٹ ورک کے جال کا حصہ بنایاجاسکتاہے۔

سوال یہ ہے کہ اس قدر بڑے روڈ اور ریلوے نیٹ ورک کی تعمیر سے کیا حاصل ہوگا؟ عمومی تاثر یہ ہے کہ یہ سارا انفرسڑکچر چین کے مال بردار ٹرکوں کی گزرگاہ کے لیے استعمال ہوگا اور پاکستانیوں کا دامن خالی رہے گا۔ یاد رہے کہ سی پیک کے تحت نو اقتصادی زون کے قیام کے لیے دونوں ممالک پرعزم ہیں۔ رشکئی اکنامک زون، M۔ 1، نوشہرہ، اور چین خصوصی اقتصادی زون دھابیجی کا اسی سال آغار ہونے کا امکان ہے۔ چار زونز کو مستقبل قریب میں شروع کیا جائے گا۔ چونکہ حکومت کا اب سارا زور تعمیراتی شعبے کو مضبوط کرنے پر ہے لہٰذا توقع ہے کہ ان اکنامک زونوں کی تکمیل کی طرف تیزی سے کام ہوگا۔ یہ روڈ اور ریلوے نیٹ ورک پاکستانی صنعتوں اور اکنامک زونز کی تیار کردہ منصوعات کو ملکی اور عالمی منڈیوں تک تیزی سے پہنچانے کے کام آئے گا۔

ڈی جیٹلائزیشن کیے بغیر ان منصوبو ں کے ثمرات سے استفادہ نہیں جاسکتا۔ چنانچہ چین سے کراس بارڈر کیبل آپٹیکل لائن بچھائی جاچکی ہے جو گلگت بلتستان، خیبر پختون خوا اور پنجاب کو چین کے موصلاتی نیٹ ورک سے براہ راست مربوط کرتی ہے۔ یوں پاکستان کے پاس سمندری کیبل آپٹیکل لائنوں کے علاوہ متبادل موصلاتی نظام بھی دستیاب ہوگیا ہے۔ علاوہ ازیں ڈیجیٹل پاکستان کا ایک منصوبہ بھی تیزی سے جاری ہے۔ اس منصوبے کا مرکز وزیراعظم نے اپنے سیکرٹریٹ میں قائم کیا ہے۔

یہ ہی وہ نیا پاکستان ہے جس کا خواب ہم سب دیکھتے ہیں۔

ارشاد محمود

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ارشاد محمود

ارشاد محمود کشمیر سے تعلق رکھنے والے ایک سینئیر کالم نویس ہیں جو کہ اردو اور انگریزی زبان میں ملک کے موقر روزناموں کے لئے لکھتے ہیں۔ ان سے مندرجہ ذیل ایمیل پر رابطہ کیا جا سکتا ہے ershad.mahmud@gmail.com

irshad-mehmood has 178 posts and counting.See all posts by irshad-mehmood

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments