ایک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا


زندگی کے گزرے لمحات پر نظر دوڑائیں تو غم اور خوشی ہنسی اور آہوں کا ایسا امتزاج نظر آتا ہے کہ لبوں پر مسکراہٹ ہوتی ہے اور دل غمگین ہو جاتا ہے۔ اسی طرح دل خوش ہوتا ہے تو آنکھوں میں آنسو چھلک جاتے ہیں۔ زندگی کے واقعات کچھ اس انداز سے یاد آنے لگتے ہیں کہ دھوپ میں بارش کی طرح غم اور خوشیاں اکٹھی یاد آنے لگتی ہے۔ کسی کے ساتھ گزرے حسین پلوں کی یاد چہرے پر مسکراہٹ لاتی ہے تو کسی کے بچھڑ جانے کی یاد دل کو اداس کر جاتی ہے۔ یہ دھوپ چھاؤں کا موسم بڑا عجیب ہوتا ہے۔

سر رمضان انصر کے بارے میں لکھنے کا خیال کافی عرصے سے میرے ذہن میں تھا۔ مگر کبھی لکھنے کی ہمت ہی نہ ہوئی۔ سمجھ ہی نہ آئی کہاں سے شروع کروں اور کہاں پے ختم کروں۔ کیوں کے ان کی کہانی ان کی زندگی ختم ہونے پر بھی ختم نہیں ہوتی۔ ان کی کہانی آج تک میرے ساتھ ساتھ چل رہی ہے۔ میری ہر سانس میں ان کی کہانی سانس لیتی ہے۔ سر رمضان انصر صاحب جن کو ہم استاد انصر کے نام سے پکارتے تھے ان کی شخصیت کے ہر پہلو کو احاطہ تحریر میں لانا شاید میرے لیے ممکن نہیں ہوگا۔

میں نے ان سے سکول میں کبھی نہیں پڑھا کیوں کے جب میں نے مڈل سکول میں داخلہ لیا تھا تب ان کا تبادلہ وہاں سے کہیں اور ہو گیا تھا۔ ہاں البتہ مجھے ان سے ٹیوشن پڑھنے کا اعزاز حاصل ہے۔ میں اپنے کزن بلال اور اس کے بھائی زاہد کے ساتھ پہلی دفعہ ان کے پاس پڑھنے گیا۔ ہم نے سر سے کہا کہ ہمیں ٹیوشن فیس میں کچھ رعایت دی جائے تو سر نے کہا، ایک کی پوری، ایک کی آدھی، اور ایک کی بالکل معاف۔ ہم خوش ہو گئے اور باقاعدہ ان کے پاس ٹیوشن پڑھنے لگے۔

چھوٹی جماعتوں میں زیادہ تر جو مضمون مشکل لگتا ہے اور سمجھانا پڑتا ہے وہ ریاضی ہے۔ ریاضی کے مضمون پر ان کو اتنا عبور حاصل تھا کہ ہم ان کو مشق نمبر، سوال نمبر اگر جز ہوتے تو جز نمبر بتاتے اور وہ رقم زبانی لکھ کر ہمیں سوال سمجھا دیتے۔ انہیں اکثر سوالوں کی رقمیں تک یاد تھیں۔ سبق یاد نہ کرنے پر انہیں سزا دینے کا کوئی شوق نہیں تھا۔ زیادہ ناراض ہوتے تو کان پکڑ کر مروڑتے اور سمجھاتے کہ پڑھ لو اپنا ہی فائدہ ہوگا۔ شاید ہمارے علاقے میں وہی ایک قابل استاد تھے کیوں کہ آس پاس کے پانچ چھ گاؤں کے بچے عموماً ان کے ہی پاس پڑھنے آتے تھے۔

انصر صاحب کا ایک دفعہ رکشے سے ایکسیڈنٹ ہوگیا تھا۔ جس میں ان کی ایک ٹانگ ٹوٹ گئی تھی اور سر پر ہیلمٹ ہونے کی وجہ سے جان بچ گئی تھی۔ پھر بھی وہ بڑی تکلیف سے گزر کہ دوبارہ زندگی کی طرف لوٹ آئے۔ جب سر انصر پڑھانے کے قابل نہیں تھے تو ہم ان کے چھوٹے بھائی سر اعجاز صاحب کے پاس پڑھا کرتے تھے۔ مگر جب سر نے ہمیں پھر سے پڑھانا شروع کیا تب ہمیں عجیب سی خوشی ہوئی تھی۔ اور ان کی صحبت میں رہ کر اچھا لگتا تھا۔ میٹرک کے بعد جب میں ان سے آگے کی پڑھائی کا مشورہ کرنے گیا تو سر نے کہا دیکھو خالد اگر FSc کر سکو تو اس میں داخلہ لو نہیں تو زندگی میں اور بھی بہت سے راستے ہیں۔

میں نے کہا سر میں FSc کر لوں گا۔ خیر میں نے FSc میں داخلہ لے لیا۔ تب میں نے ان کے پاس ٹیوشن پڑھنا چھوڑ دی تھی۔ ایک دن جب میں بیدار ہوا تو دل بوجھل بوجھل سا تھا۔ اس دن کالج میں ریاضی کا ٹیسٹ تھا مجھے لگا دل اس وجہ سے پریشان ہے۔ مگر اس دن میرا ٹیسٹ توقع سے زیادہ اچھا ہو گیا تھا مگر دل پھر بھی پریشان تھا۔ بلال اور میں موٹر سائیکل پر گھر واپس آرہے تھے کہ ہمارے مڈل سکول کے پاس لوگوں کا رش لگا ہوا تھا۔ گمان غالب تھا کہ کوئی ایکسیڈنٹ ہی ہوا ہوگا۔

مگر جب یہ خبر ملی کہ انصر صاحب کا شدید قسم کا ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے تو دل بجھ سا گیا۔ کیوں کہ ابھی ابھی تو ان کی ٹانگ ٹھیک ہوئی تھی اور وہ موٹر سائیکل چلانے کے قابل ہوئے تھے۔ ذیشان جو ہمارا مڈل کا کلاس فیلو تھا اس نے بتایا کہ سر کی حالت بڑی نازک ہے بس اللہ سے دعا کرو۔ دعائیں تو ہم نے بہت ہیں مگر دعائیں ہر بار فوراً قبول نہیں ہوتیں۔ جب ہم نے گھر آکر سر کے بارے میں بتایا تو سب گھر والے بھی دعائیں کرنے لگے۔

شام کے وقت خبر آ گئی کہ سر رمضان انصر فوت ہوگئے ہیں۔ شاید آپ یہ بڑی آسانی سے پڑھ گئے ہیں لیکن مجھے آج بھی لکھنے کی ہمت نہیں ہو رہی تھی۔ سردیوں کا آغاز ہو چلا تھا۔ اور شام کے بعد کافی ٹھنڈ پڑنے لگی تھی۔ رات کو سر کی نماز جنازہ ادا کی گئی میں زندگی میں پہلی بار اتنے بڑے جنازے میں شریک ہوا تھا۔ بقلم راقم

ایک جم غفیر تھا میری میت پر
اپنے لئے تو جیتا نہیں تھا میں

میں نے ان کی وفات پر بڑا ضبط کیا لیکن جب ہم ان کا سوئم پڑھ کر باہر کھڑے تھے تو راجہ جبران جو ان کا شاگرد تھا اس نے آکر کہا ”سب رونقیں ختم ہوگئی ہیں“ اس جملے نے میرا آنسوؤں پر قابو ختم کر دیا اور مجھے منہ دوسری طرف پھیر کر اپنے آنسو چھپانے پڑے۔ انصر صاحب کی وفات کے بعد بیسوں بچوں کا سہارا چھن گیا۔ ان کے بعد کوئی ان کی جگہ نہ لے سکا۔ کوئی ان کی کمی پوری نہ کر سکا۔ شاید خالد شریف نے ایسے ہی کسی شخص کے لئے کہا تھا

بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی
ایک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا

انصر صاحب وہ شخص ہیں جن کو میں نے ہر دعا میں یاد رکھا ہے یا یوں کہنا مناسب ہو گا وہ مجھے ہر دعا میں یاد آئے ہیں۔ بقول راقم

جانے کیوں تیری تصویر بن جاتی ہے سامنے
ہاتھ میں جب بھی اٹھاتا ہوں دعا کے لئے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments