کیا مذہبی اقلیت ہونا جرم ہے؟


آج کے اس روشن خیال اورترقی یافتہ دور میں بھی انسان تفریق کو زبان، رنگ و نسل اور مذہب کی بنیاد پر نفرت کو جاری رکھے ہوئے ہے۔ خصوصاً کورونا وائرس جس نے پوری دنیا کو اپنی لیپٹ میں لے کر بڑے سے بڑے ترقی یافتہ ممالک کو بھی ہلا کر رکھ دیا ہے۔ بد سے بد انسان بھی خداکی طرف روجوع لے آیا ہے اوراپنے گناہوں سے توبہ کرکے خدا کی حضوری میں سجدہ ریز ہوگیا ہے۔ اس کے باوجود بھی کچھ انسانیت کے دشمنوں نے توبہ نہیں کی۔

امریکہ میں پولیس کی طرف سے جارج فلوئیڈ پر تشدد نسلی امتیازکی کھلی تصویر ہے۔ ایسے ہی واقعات اکثر برطانیہ میں بھی پیش آتے رہتے ہیں۔ اس واقعہ پر امریکہ اور انگلینڈ میں سخت احتجاج بھی ہوئے۔ اسی طرح پاکستان میں لاک ڈاؤن کی مشکل گھڑی میں بھی جرائم اور مذہبی تعصب اور تشدد کے واقعات میں کوئی کمی نہ ہوئی۔ خدا کا سب سے بڑا حکم انسانیت سے محبت ہے۔ مگرا نسانیت کے دشمن اس نفرت کی آگ کو ختم نہیں ہونے دیتے۔ نجانے کب جہالت کایہ اندھیرا دور ہوگا۔

کب لوگوں کی آنکھوں پر سے مذہبی تعصب کی پٹی اترے گی۔ خدا اور اس کے رسول کا پیغام جو انسانیت کا پیغام ہے۔ اس کے پیرو کار اس پیغام کو بالائے تاک رکھ کر تعصب کا درس دینے میں مصروف ہیں اور ہر وہ فلاحی کام جو انسانیت اور اقلیتوں کی فلاح کے لئے کیے جاتے ہیں۔ ان فلاحی کاموں کو روکنے کے لئے مذہب کے جنونی اسے قرآن کے منافی قرار دے کر اس کی مخالفت شروع کر دیتے ہیں۔ جیسے ہی حکومت نے راولپنڈی میں ہندوؤں کے پرانے مندر کو تعمیر کرنے کا اعلان کیا، مذہبی جماعتوں کی طرف سے اس کی مخالفت شروع ہو گئی۔

یہ مذہب کے ٹھیکیدار عوام کو کیا درس دے رہے ہیں۔ اچھائی کے کاموں کو بھی تعصب کی عینک سے دیکھتے ہیں۔ ایسی صورتحال میں قرآن و سنت کا درس دینے والے خدا کے حکم یعنی انسانیت، حق وسچ اور مذہب کے تقا ضے کیسے پورے کریں گے۔ یہی وجہ ہے کہ لوگوں کے رویوں میں تبدیلی آنے کی بجائے ان میں مذہبی تشدد کا عنصرروز بروز بڑھتا جا رہا ہے۔ حال ہی میں 4 جون کو پشاور میں ایک انتہائی افسوسناک واقعہ پیش آیا۔ پشاور کے علاقے سواتی پھاٹک ٹی وی کالونی کے ایک رہائشی ندیم جوزف کے گھر کے سامنے رہنے والے سلمان نے ندیم جوزف کو کلاشنکوف کی گولیوں سے چھلنی کر دیا۔

اور وہ 4 آپریشن ہونے کے باوجود جان کی بازی ہار گیا۔ اطلاعات کے مطابق سلمان، ندیم جوزف کی ہلاکت کی وجہ بننے والا پٹواری کا گارڈ بھی ہے۔ اور اس پٹواری کے گھر میں ناجائز دھندہ بھی کرتا تھا۔ وہ ندیم جوزف کے اس گھر کو خریدنے سے ناخوش تھا۔ اس سے پہلے وہ ندیم جوزف اور ان کی غیر موجودگی میں اس کے گھر کے بیرونی دروازے میں ایلفی ڈال چکا تھا۔ اور گھر چھوڑ کرجانے کی دھمکیاں بھی دے چکا تھا۔ 4 جون کو ندیم جوزف کا بڑا بیٹا موٹر سائیکل پر سوار محلے میں داخل ہوا اور گھر کے دروازے کے سامنے پہنچ کر موٹر سائیکل کا ہارن بجایا تاکہ اس کے گھر والے دروازہ کھولیں تو ہارن بجانے پر سلمان نے نہ صرف اسے برا بھلا کہا بلکہ گھر چھوڑ کر جانے کی دھمکی بھی دی۔

ندیم کا بیٹا گھر کے اندر گیا اور اپنے باپ کو سارا واقعہ بتایا۔ ندیم اور اس کا بیٹا گھرسے باہر آئے اورجہاں سلمان اور اس کا بیٹا موجود تھے بحث و تکرار طول پکڑگئی۔ سخت جملوں کا تبادلہ ہوا۔ سلمان کے ہاتھ میں کلا شنکوف تھی۔ اس نے ندیم جوزف کے پیٹ میں گولیوں کی بوچھاڑ کر دی اور کہنے لگا کہ تیری جرات کیسے ہوئی کہ تو ایک مسلم محلے میں گھر لے کر رہے۔ حالانکہ اس کالونی میں کئی اور مسیحی بھی رہتے ہیں۔ گولیوں سے شدید زخمی ندیم جوزف ہسپتال میں 5 آپریشن کے بعد بھی جان بحال نہ ہوسکا اور 29 جون کو زخموں کی تاب نہ لاتے جان بحق ہو گیا۔

سلماں خان جس نے ندیم جوزف پر کلاشنکوف سے گولیاں برسایں تھیں۔ اوراسکے جوان بیٹے کو زدو کوب کیا۔ ان دونوں باپ بیٹے نے اپنی ضمانت قبل از گرفتاری کروا لی۔ مسیحی کمیونٹی کے سخت احتجاج اور سیاسی لیڈر شپ کے دباؤ کے کئی روز بعد متعلقہ تھانہ میں درج ایف آئی آر میں 302 اور 392 کا اضافہ کیا گیا۔ سلمان اور اس کے بیٹے کو اب تک گرفتار نہیں کیا جا سکا۔ سلمان کے بیٹے کی قبل از گرفتاری کی ضمانت 9 جولائی تک تھی۔ پشاور ہائی کورٹ سے ان کی ضمانت منسوخ تو ہو گئی مگر تاوقت ان کی گرفتاری ممکن نہیں ہو سکی۔

ندیم جوزف کی موت، اسے بر وقت علاج نہ ملنا اور انصاف کی عدم فراہمی کی وجہ، آئی او پولیس کا تعاون نہ کرنا، ان تمام واقعات میں تعلق پایا جاتا ہے۔ سننے میں یہ بھی آ رہا ہے کہ جس پراپرٹی ڈیلر سے ندیم جوزف نے 60 لاکھ کا گھر خریدا تھا۔ اس رقم میں سے کچھ رقم کی ادائیگی اس نے ابھی 10 جون کر کرنی تھی اور یہ واقعہ 5 جون کوپیش آیا۔ جس کی وجہ سے باقی رقم کی ادائیگی ممکن نہ ہو سکی۔ جس پر پراپرٹی ڈیلر نے یہ بیان بھی دیا کہ وہ مالک مکان نہیں بلکہ میرا کرایہ دار ہے۔ اس بیان نے بھی آئی او پولس کو ایف آئی آر درج نہ کرنے سے روک رکھا۔

اطلاع یہ بھی ہے کہ پشاور کے رہائشی ندیم جوزف نے ایک ماہ قبل 60 لاکھ مالیت کا گھر سواتی پھاٹک ٹی وی کالونی میں خریدا۔ خریداری کے دوسرے ہی روز سامنے والے مکان کے مالک نے ندیم جوزف کے بیٹے کو بلا کر کہا ”کیا تم مسلمان ہو“ جس پر اس نے انکار کیا تو سلمان خان نے اگلے روز صبح ندیم جوزف کو وہی سوال کیا کہ آپ مسلمان ہو؟ جس پر ندیم نے کہا کہ ہم مسیحی ہیں۔ اس بات پر سلمان خان نے کہا کہ ہماری گلی میں غیر مسلموں کا داخلہ بند ہے تو تم نے مکان کیسے خرید لیا؟ اس مکان کو فوری خالی کرو اوریہاں دوبارہ نظر نہیں آنا کیونکہ یہود و نصار ہمارے دشمن ہیں۔

المیہ یہ ہے کہ ایک عام آدمی اور خصوصاً اقلیت سے تعلق ہو تو قانون پر عمل درآمد کروانے والی ایجنسیاں خصوصاً پولیس اور اس کے افسران کا رویہ ہی مختلف ہوجاتا ہے۔ جیسے وہ پاکستان کے شہری ہی نہیں۔ قانون تو پاکستان کے سب شہریوں کے لئے برابر ہے۔ جہاں قانون اور انصاف، مذہب کی بنیادپر دیا جائے تو اس ملک کا کیا حال ہوگا۔ سوال یہ ہے کہ ”کیا مذہبی اقلیت ہونا جرم ہے“ مسیحی پاکستان کی سب سے بڑی اقلیت ہیں جنہوں نے پاکستان کی تکمیل اور تعمیر و ترقی میں اہم کردار ادا کیا تھا۔

مسیحی لیڈر شپ نے اس وقت سے ان مسلم رہنماؤں کا ساتھ دیا تھا جو پاکستان کو ایک الگ ریاست بنانے کی جدو جہد کر رہے تھے۔ اور تحریک پاکستان میں بھرپور حصہ لیا۔ مگر پاکستان کے مورخوں اور اقتدار میں رہنے والوں حکمرانوں نے مسیحیوں کی جدو جہد کو تاریخ سے ہی حذف کر دیا۔ اور مذہبی جماعتیں مذہبی نفرت پھیلانے میں مصروف عمل رہیں۔ سوال یہ ہے کہ پاکستان میں اقلیتیں کیسے محفوظ رہ سکتی ہیں؟ پاکستان کے جھنڈے میں سفید رنگ جو اقلیتوں کے وجود کو تسلیم کرنے کا عہد ہے کب تک سفید رہے گا؟

بدقسمتی سے ملک اور معاشرے میں طبقات کی بنیاد پر افراد کو حقوق حاصل ہیں۔ کیا رنگ و نسل، علاقائیت، صوبائیت، لسانیت، مذہب اور ذات پات کی بنیاد پر کوئی فرق روا نہ رکھنا عدل و انصاف کہلاتا ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments