مڈٹرم الیکشن واحد حل؟


وزیراعظم نے آخری وارننگ دیتے ہوئے واضح کیا ہے کہ زبانی جمع خرچ سے کام نہیں چلے گا، کارکردگی دکھانا ہوگی، ناکامی پر حکومتی عہدیداروں کو گھر کی راہ لینا ہوگی۔ وزیراعظم عمران خان نے وزراء، مشیران اور معاونین خصوصی کو صاف بتا دیا کہ اب اجلاسوں میں صرف بریفنگز سے کام نہیں چلے گا، حکومتی فیصلوں پر عملی اقدامات کا خود جائزہ لوں گا۔ وزرا، مشیر اور بیورو کریسی کام کرے ورنہ گھر جائے۔ شاید 22 ماہ بعد وزیراعظم کو اس امر کا ادارک ہوچکا ہو کہ عوام حکومتی کارکردگی کے عملی اثرات کو نچلی سطح تک منتقلی پر یقین رکھتے ہیں۔ حکومت کو اپنے انتخابی وعدے پورا کرنے میں بی آر ٹی منصوبے کی طرح مشکلات کا سامنا ہے۔ ’نہ پائے رفتن نہ جائے ماندن‘ کے مصداق وزیراعظم کے غصے کا اندازہ بھی لگایا جاسکتا ہے۔ گوبظاہر حزب اختلاف اور عوام کی جانب سے حکومت کو اپنی مدت پوری کرنے میں بظاہر کسی دشواری کا سامنا نہیں۔

کیا پی ٹی آئی اپنے انتخابی منشور کے نصف پر بھی عمل کرپائے گی۔ اقتدار کا نصف عرصہ جس طرح گزرا ہے، اس کے بعد اس امر کی توقع کم کی جارہی ہے کہ بڑے انتخابی وعدے بروقتپورے ہوسکیں۔ ایسے سیاسی منظر نامے کئی برسوں سے دیکھتے چلے آرہے ہیں اور اس میں زیر زبر کا بھی کوئی فرق نہیں آیا۔ وزیراعظم ہر چھ مہینے بعد اپنے حکومتی ٹیم کے جائزہ میں، کارکردگی سے کتنے مطمئن ہیں، حالیہ بیان سے ظاہر ہوچکا ہے۔ عوام میں کوئی دو رائے نہیں پائی جاتی پانچ برس بعد سہی، کسی بھی سیاسی جماعت کے بڑے سے بڑے رہنما کو کچی آبادیوں، کیچڑ ندی نالوں اور جھونپڑیوں میں ووٹ مانگنے کے لئیآنا ناگزیرہے، لیکن پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ، کے بمثل عوام سب کچھ جانتے ہوئے بھی سیاسی نعروں، وعدوں اور جھوٹی سچی قسموں پر اعتبار کرلیتے ہیں اور اپنے من پسند نمائندوں کو منتخب کرانے کے لئے اپنے تئیں کوشش، بلکہ اپنے مخالفینسے لڑنے مرنے کے بھی تیار ہو جاتے ہیں۔ یہ سیاسی کلچر کا حصہ بن چکا ہے۔

وزیراعظم عمران خان نے بظاہر سخت تنبہہ دی ہے، لیکن بادی النظر دیکھا جائے تو اس قسم کے شوکاز پر عمل درآمد ممکن نہیں۔ اس کی کئی بنیادی وجوہ ہیں، جس میں سب سے بڑی وجہ تحریک انصاف کی حکومت کا اتحادی جماعتوں کے سہارے قائم رہناہے۔ عمران خان اس پوزیشن میں نظر نہیں آتے کہ وہ اپنے اتحادیوں کو ناراض کرسکیں، وہ بھی ان ان حالات میں کہ تحریک انصاف کے اندرگروہ بندیاں بڑھتی جا رہی ہوں۔ تحریک انصاف اس وقت اپنے تین بڑے انتخابی وعدوں کی تکمیل کے لئے فرسٹریشن کا شکار نظر آتی ہے، جس میں ایک کروڑ نوکریاں اور پچاس لاکھ گھروں کی فراہمی کے ساتھ احتساب کے ذریعے اربوں ڈالرز کی واپسی شامل ہے۔ ویسے تو تحریک انصاف نے کئی وعدے کیے لیکن سیاسی مجبوریوں کے باعث ان کے لئے تاحال ممکن نہیں کہ وہ اگلے تین برسوں میں مکمل عمل درآمد کراپائیں۔ بالخصوص پنجاب کا انتظامی حوالے سے تقسیم نہ ہونا انہیں عین وقت پر اپنے اتحادیوں کے ساتھ پریشانی میں مبتلا کر سکتا ہے۔

پچاس لاکھ گھروں کی تعمیرسے زیادہ، ایک کروڑ نوکریوں کی فراہمی زیادہ مشکل مرحلہ ہے، انقلاب میں اچانک معجزہ ہو جائے اور ایسا سب کچھ ہو جائے جو عمران خان چاہتے تھے، لیکن یہاں عوام کی کوئی غلطی اس لئے نہیں کیونکہ انہیں یہ خواب پی ٹی آئی نے خود دکھائے۔ تنیوں بڑے وعدے نیز جنوبی پنجاب کا قیام قریبا ناممکن نظر آتا ہے۔ لیکن سیاسی کلچر کے مطابق اگر یہ وعدے اگلے دس یا سو برس بھی پورے نہ ہوں تو کوئی فرق نہیں پڑتا، کیونکہ بدقسمتی سے انتخابات میں سیاسی جماعتوں کے منشور پر نہیں بلکہ جاگیرداروں، سرمایہ داروں، وڈیروں، خوانین، ملکوں اور سرداروں کے کہنے پر ذات برداریاں، ذاتی تعلقات کی بنیاد پر ووٹ ڈالے جاتے ہیں، شاید یہی وجہ ہے کہ انتخابی اصلاحات کے حوالے سے ہی کوئی قابل ذکر کام نہیں کیا جاسکا۔

حزب اختلاف، حکومت کے خلاف ناکامی کا بیانیہ لے کر میدان میں اترتی ہے اور پوری کوشش کرتی ہے کہ عوام کو اس امر پر قائل کیاجائے کہ انہوں نے ماضی میں جنہیں منتخب کیا، وہ غلط فیصلہ تھا، سیاسی فلسفے کے عجب کھیل کا اختتام اس وقت ہوتاہے جب تک نئی حکومت کو منتخب نہیں کرالیا جاتا۔ یہ روایات اب بھی قائم ہیں، عمران خان بہت بلند بانگ دعوؤں کے ساتھ وزیراعظم ’سلیکٹ‘ ہوئے، تاہم سیاست میں جاگیردارنہ، سرمایہ دارانہ، خوانین و سرداروں و ملکوں کا اثر رسوخ اثر پذیربڑھتا ہی جا رہا ہے۔ سیاست وانتخابی اخراجات میں سرمایئے کے بے دریغ استعمال نے نظریات کو بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے۔

عوام کے پاس ووٹ مانگنے کے لئے کوئی حکومتی عوامی نمائندہ جائے گا تو اس کا پہلا زور اس امر پر عوام کو قائل کرنا ہوگا کہ ماضی کی حکومتوں نے ہر ادارے میں اتنے مسائل چھوڑے تھے کہ ممکن نہیں تھا کہ ”مختصر“ وقت میں مشور پر مکمل عمل درآمد ہوتا، اس لئے عوام حقیقی تبدیلی چاہتے ہیں تو انہیں بھاری مینڈیٹ (بشمول سندھ و بلوچستان) دے کردوتہائی اکثریت کے ساتھ کامیاب کرایا جائے تاکہ کسی سیاسی جماعت کے مطالبات کی وجہ سے حکومت کو مشکلات درپیش نہ ہوں۔

حزب اختلاف وہی کہے گی جو آج کہہ رہی ہے۔ تاہم عمران خان کے لئے ایک واحدراستہ بچا ہے کہ وہ مڈٹرم انتخاب کے لئے خود کو ذہنی طور پر تیار کریں اور قبل ازوقت انتخابات کروا کر وہ اپنے کیے گئے کئی وعدوں کا تسلسل جاری رکھنے کے لئے مزید وقت لیں۔ انہیں زبان چلانے والوں سے زیادہ دماغ چلانے والوں کی زیادہ ضرورت ہے۔ شومئی قسمت انہیں دماغ چلانے والے آٹے میں نمک کے برابر بھی میسر نہیں۔

کسی بھی جمہوری حکومت کا اپنی مدت پوری کرنا اس کا حق ہے۔ لیکن یہ بھی جمہوری اساس میں ہے کہ حکومت گر سمجھے تو مڈ ٹرم انتخابات کراسکتی ہے واضح رہے کہ عمران خان خود جنوبی پنجاب بنانے کے بعد اکثریت کھونے کے حوالے سے مڈٹرم الیکشن کا عندیہ دے چکے تھے، پاکستان، امریکا، فپائن، ارجنٹائن، لیبیا میں نصف مدت انتخابات کا قانون موجود ہے۔ پی ٹی آئی حکومت کو اپنے سیاسی منشور کے مطابق عوام کی عدالت میں جانا ہے تو پھر ان کے لئے واحد راستہ مڈ ٹرم الیکشن ہیں، کیونکہ واحد یہی صورت ہے کہ پی ٹی آئی عوام کا سامنا اخلاقی طور پر کر سکتی ہے، اس وقتحکومتی کابینہ و ایونوں میں اہل و قابل افراد کی کمی اور تسلی بخش تعداد موجود نہیں، حکومت کو غیر منتخب شخصیات پر بھاری معاوضوں کے ساتھ انحصار کرنا پڑ رہا ہے۔ سیاسی پنڈتوں کے مطابق مڈٹرم الیکشن سیاسی خلفشار، غیر یقینی و مختلف مافیابحرانوں کے پھیلائے ہوئے جال کو ختم کرنے میں بھی معاون ثابت ہو سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments