بلوچستان کے طلبہ اور آن لائن کلاسز


ای۔ لرننگ یا الیکٹرانک لرننگ جدید تعلیم کی دنیا میں ایک نیا ابھرتا ہوا تصور ہے، جس کے بدولت تعلیمی ذرائع بلیک بورڈ اور وائٹ بورڈ سے سکرین پر منتقل ہوگئی ہیں۔ کورونا وبا نے اس وقت پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہوا ہے، جہاں اس وبا نے انسانی زندگیوں کو خطرے میں ڈال دیا ہے، وہیں اس وبا نے تعلیمی اداروں کی بندش سے تعلیمی نظام کو بھی شدید نقصان پہنچایا ہے۔ اس نقصان کے ازالے کے لئے مختلف تعلیمی اداروں بالخصوص جامعات نے ورچول کلاسز یا آن لائن کلاسز کے آپشن کی طرف رجوع کیا ہے۔ آن لائن کلاسز کے لئے یوزر (استعمال کنندہ) کے پاس اچھا سا اینڈرائد فون یا پھر لیپ ٹاپ کا ہونا ضروری ہے جبکہ ان آلات کو انٹرنیٹ کے ساتھ منسلک کرنے کے لئے انٹرنیٹ کا تیز نیٹ ورک بھی ضروری ہوتا ہے، مختلف آن لائن پلیٹ فارمز اور سافٹ ویئرز کے ذریعے کلاسز لئے جاتے ہیں۔

پاکستان کے کل رقبہ کے 47 فیصد رقبے پر مشتمل صوبہ بلوچستان جہاں ان گنت قدرتی معدنیات سے مالا مال ہے، وہیں لاتعداد مسائل سے دوچار بھی ہے، ان مسائل میں ایک اہم مسئلہ تعلیم کی نازک صورتحال بھی ہے۔ یہاں خواندگی کی شرح 46 فیصد ہے جو کہ خطرناک حد تک کم ہے۔ اگر بچوں کی تعلیم کے حوالے سے دیکھا جائے تو صوبہ میں موجود 3.6 ملین بچوں میں سے صرف 1.3 ملین بچے سکول جاتے ہیں، جبکہ 2.3 ملین بچے سکول سے باہر ہیں۔ اس کے علاوہ سکولوں میں سہولیات کا فقدان ہے، بنیادی ضروریات جیسے ٹائلٹس کا نہ ہونا، کلاس روم عمارت کا نہ ہونا بھی اہم مسئلے ہیں۔ بلوچستان کے 36 فیصد سکول پانی کی سہولت سے محروم ہیں، 56 فیصد سکولوں میں بجلی نہیں ہے جبکہ صوبہ میں 15 فیصد گھوسٹ سکول موجود ہیں۔ دوسری طرف اگر کالجز اور جامعات کے تعداد دیکھی جائے تو وہ بھی نہ ہونے کے برابر ہے۔

صوبہ میں لڑکیوں کی تعلیم کی حالت اور بھی ابتر ہے، الف اعلان کی ایک رپورٹ کے مطابق ہر سال 1 لاکھ پینسٹھ ہزار آٹھ سو انہتر ( 165869 ) لڑکیاں تعلیم کے حصول کی غرض سے پرائمری میں داخلہ لیتی ہیں، جب وہ مڈل تک پہنچتی ہے تو یہ تعداد کم ہوکر چوالیس ہزار چھہتر ( 44076 ) رہ جاتی ہیں اور ہائی سیکشن تک پہنچتے پہنچتے یہ تعداد 20 ہزار کے کم ترین سطح تک رہ جاتی ہے، اور یونیورسٹی لیول پر یہ تعداد بالکل نہ ہونے کے برابر رہ جاتی ہے۔

مندرجہ بالا اعداد و شمار یقیناً بے حد افسوس ناک اور الارمنگ صورتحال کی عکاسی کرتی ہیں، تعلیم بلوچستان میں ہمیشہ سے ایک نہایت نظرانداز کیا جانے والا شعبہ ہے، جبکہ اس کے علاوہ تعلیم کے لئے مختص کم بجٹ بھی تعلیمی پستی کی ایک اہم وجہ ہے۔

بلوچستان میں موجود کثیر تعداد میں تعلیمی ادارے بنیادی انفراسٹرکچر سے محروم ہیں، ایک سروے کے مطابق تقریباً 80 فیصد کے قریب سکولوں کی عمارتوں کی حالت انتہائی خستہ حال ہے جبکہ متعدد سکول بنیادی عمارت سے محروم ہوکر کھلے آسمان تلے تعلیمی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔

کثیر تعداد میں بچوں کے سکولوں سے دوری کی ایک وجہ صحیح منظم شعوری کمپئین کا نہ ہونا ہے، دوردراز علاقوں میں موجود لوگ تعلیم کی افادیت سے نابلد ہیں۔

سکولوں سے بچوں کے باہر ہونے کی ایک اہم وجہ گھر اور سکول کے درمیان طویل فاصلہ کا ہونا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پرائمری سکول 30 کلومیٹر کے فاصلے پر ہیں، جبکہ 260 کلومیٹر کے فاصلے پر ایک مڈل سکول موجود ہے اور ہر 360 کلومیٹر کے فاصلے پر ہائی سکول موجود ہے۔ یہی ایک وہ وجہ ہے کہ یونیسیف کے مطابق بلوچستان کے 60 سے 70 فیصد بچے سکولوں سے باہر ہیں۔

بلوچستان میں طلبہ کو دو کیٹیگریز میں تقسیم کیا جاسکتا ہے پہلی کیٹیگری میں وہ طلبہ آتے ہیں جو کہ بلوچستان کے لوکل ڈومیسائل رکھتے ہیں مگر وہ دوسرے صوبوں میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں جبکہ دوسری کیٹیگری میں وہ طلبہ جو بلوچستان کے لوکل ڈومیسائل رکھتے ہیں اور وہ بلوچستان میں موجود کالجز اور یونیورسٹیوں سے تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ کورونا کی وجہ سے لاک ڈاؤن ہونے کی بدولت چونکہ تعلیمی ادارے اور ہاسٹلز بند ہوگئے ہیں تو دونوں کیٹیگریز کے طلبہ واپس اپنے گھروں کو جانے پر مجبور ہو گئے ہیں، مختلف یونیورسٹیوں نے مختلف اوقات میں آن لائن کلاسز کا آغاز کیا، ان کلاسز کو اٹینڈ کرنے میں جن مشکلات کا سامنا ہوا ہے ان میں سے چند اہم مندرجہ ذیل ہیں۔

آن لائن کلاسز کے لیے سب سے بنیادی ضرورت انٹرنیٹ کی ہے، مگر بلوچستان کے اکثر اضلاع میں انٹرنیٹ کی سہولت ہی ابھی تک میسر نہیں ہے، جبکہ کچھ اضلاع میں انٹرنیٹ تو موجود ہے مگر اس کی رفتار اتنی کمزور ہے کہ آن لائن کلاسز سے ربط قائم کرنا ناممکن ہوجاتا ہے، کچھ اضلاع میں انٹرنیٹ سیکورٹی خدشات کے نام سے بند ہے، جبکہ کچھ اضلاع میں تو کال کرنے کے لئے نیٹ ورک ہی نہیں انٹرنیٹ تو دور کی بات ہے۔

طلبہ کی کثیر تعداد غریب گھرانوں پر مشتمل ہیں، مالی حالت کمزور ہونے کی وجہ سے وہ مہنگے موبائل فون اور لیپ ٹاپ خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے، جس کی وجہ سے آن لائن کلاسز تک رسائی میں مشکلات کا سامنا ہے۔

انٹرنیٹ اور دوسرے ڈیوائسز تک رسائی نہ ہونے کی وجہ سے متعدد طلبہ حتی کہ اساتذہ کو بھی ان لائن کلاسز میں بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

آن لائن کلاسز میں استعمال ہونے والے موبائل فونز اور لیپ ٹاپ وغیرہ چونکہ بیٹری سے چلنے والے الیکٹرک آلات ہیں، ان کو چارج کرنے کے لئے بجلی کی ضرورت ہوتی ہے، مگر اکیسویں صدی کے اس دور میں بھی بلوچستان میں کئی علاقوں میں ابھی تک بجلی کی سہولت موجود نہیں جبکہ جہاں یہ سہولت موجود بھی ہے وہاں 20، 18 گھنٹے کی طویل لوڈشیڈنگ ایک معمول بن گیا ہے جو کہ آن لائن کلاسز کی راہ میں حائل ایک رکاوٹ ہے۔

آن لائن کلاسز کے بعد آن لائن امتحان بھی ایک آزمائش سے کم نہیں ہے، ٹیکنالوجی سے صحیح واقفیت نہ ہونا، بجلی کا نہ ہونا، یا انٹرنیٹ کا دوران امتحان منقطع ہوجانا یقیناً طلبہ کے رزلٹس پر اثرانداز ہوگا۔

طلبہ کے مطابق چونکہ آن لائن کلاسز کے لئے ضروری وسائل نہ ہونے کی وجہ سے طبقاتی نظام تعلیم کا عنصر نظر آ رہا ہے کیونکہ اکیسویں صدی کے اس دور میں بھی بلوچستان کے طلبہ ان بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔

انٹرنیٹ اور بجلی کی سہولتیں چونکہ شہروں میں دستیاب ہوتی ہیں مگر دیہات سے شہر تک جاتے ہوئے طلبہ کو ایک طویل فاصلہ اور وقت درکار ہوتا ہے۔

ان تمام مسائل کے پیش نظر بلوچستان کے طلبہ اور طلبہ تنظیموں نے سوشل میڈیا اور دوسرے میڈیا پلیٹ فارمز پر اپنے مطالبات کو لے کر احتجاج ریکارڈ کروایا مگر پھر بھی کوئی شنوائی نہیں ہوئی، جس کے بعد طلبہ نے عملی احتجاج کا رخ کیا پھر بھی کسی کے کان پر کوئی جو نہیں رینگی، جبکہ احتجاج کے دوران ہی طلبہ اور انتظامیہ کے درمیان بدمزگی بھی پیدا ہوئی۔

صوبہ میں وسائل اور سہولیات کی نہ ہونے کی وجہ بلوچستان کے اکثر طلبہ آن لائن کلاسز حاصل کرنے سے قاصر ہیں لہذا طلبہ نے حکومت اور ایچ ای سی سے کچھ مطالبات کیے ہیں جو کہ مندرجہ ذیل ہیں۔

• جامعات کی فیسیں کم کی جائیں۔
•طلبہ کو اگلے سیمیسٹر میں پروموٹ کیا جائے۔
•طلبہ کو انٹرنیٹ مہیا کیا جائے۔
•آن لائن کلاسز کا بہتر نظام وضع کیا جائے۔

•چونکہ بلوچستان کے اکثر طلبہ کو آن لائن کلاسز سے فی الحال کوئی خاطر خواہ فائدہ نہیں ہورہا لہذا کلاسز کو فی الفور منسوخ کیا جائے۔

بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس، جسٹس جمال مندوخیل اور جسٹس نذیر احمد لانگو پر مشتمل ڈویژنل بینچ نے اس تمام معاملے کا نوٹس لیا ہے اور جامعات کو تک قابل عمل میکینزم بنانے کی ہدایت کردی ہے۔

حکومت نے گریڈ ایک سے کلاس بارہویں تک ٹیلی سکول کے نام سے ایک چینل کا اجرا کیا ہے مگر بلوچستان کے بچوں کو اس چینل سے کوئی فائدہ نہیں ہورہا کیونکہ یہاں طویل بجلی کی لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے جبکہ انٹرنیٹ نہ ہونے کی وجہ سے چینل کو آن لائن بھی نہیں دیکھا جاسکتا۔

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ناقص تعلیمی نظام کے شکار بلوچستان کے طلبہ اس وقت یقیناً انتہائی مشکلات میں ہیں، لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت بالخصوص وفاقی حکومت اور ایچ ای سی طلبہ کے مسائل حل کرنے کے لئے فی الفور عملی اقدامات اٹھائیں اور ملک کے مستقبل کے ان طلبہ کے تعلیمی ساکھ کو بچانے میں اپنا موثر کردار ادا کریں۔ ۔ ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments