بچہ کھڑکی سے نہیں آتا، حقائق چھپانے سے ملک نہیں چلتے


پورے ملک میں جو ٹیکس جمع ہوتے ہیں انہیں ایک فارمولے کے تحت وفاقی حکومت اور مختلف صوبائی حکومتوں کے درمیان تقسیم کیا جاتا ہے۔ آئین کی شق 160 کی رو سے یہ کام قومی مالیاتی کمیشن کرتا ہے۔ پیپلز پارٹی کے سابقہ دور حکومت میں اٹھارہویں ترمیم کے ذریعہ اس شق میں یہ اضافہ کر دیا گیا تھا:
” قومی مالیاتی کمیشن کے ایوارڈ میں صوبوں کا حصہ سابقہ ایوارڈ میں دیے گئے حصے سے کم نہ ہو گا۔“

جس کا مطلب یہ ہے کہ اب آئین کی رو سے صوبوں کو 2010 میں ملک کے وسائل میں جتنے فیصد حصہ ملا تھا، اب اس میں کمی نہیں کی جا سکتی۔ یعنی وفاقی حکومت اب اس وقت تک اپنے حصے میں اضافہ نہیں کر سکتی جب تک آئین میں ترمیم نہ کی جائے۔

عمران خان صاحب کی حکومت کو یہ شکوہ ہے کہ اس فارمولے کے تحت وفاقی حکومت کو کم حصہ مل رہا ہے اور وہ اپنی ضروریات پوری نہیں کر پا رہی اور اس وجہ سے وفاقی حکومت ملک کی ترقی میں اپنا کردار صحیح طرح ادا نہیں کر سکتی۔ چنانچہ صوبوں کا حصہ کم کر کے وفاقی حکومت کے حصے میں اضافہ کرنا چاہیے۔ ظاہر ہے کہ وفاقی حکومت کی ضروریات میں سر فہرست قرضوں اور ان قرضوں پر ادا ہونے والے سود کی ادائیگی ہے۔ اور اس کے علاوہ ملک کا دفاعی بجٹ بھی وفاقی حکومت کے اہم اخراجات میں شامل ہوتا ہے۔ دوسری طرف اب صحت اور تعلیم کی ضروریات پوری کرنا صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری ہے۔ اور اگر ان کا بجٹ کم کیا گیا تو ان شعبوں پر برا اثر پڑے گا۔ ویسے بھی 1947 سے اب تک صحت اور تعلیم کے شعبے یتیمی کی حالت میں گزارا کر رہے ہیں۔

سینٹ میں حکومت کی طرف سے یہ تجویز پیش کی گئی کہ آئین میں درج مالی وسائل کی تقسیم کے فارمولے میں ترمیم کے معاملہ کو سینٹ کی متعلقہ کمیٹی کی طرف بھجوایا جائے۔ تاکہ یہ کمیٹی اس پر غور کر کے اپنی تجاویز سینٹ میں پیش کرے۔ حکومت کی اس تجویز کو نہ صرف سینٹ میں واضح طور پر شکست ہوئی بلکہ اپوزیشن کے مختلف اراکین نے اس پر شدید رد عمل کا اظہار کیا۔

ایک رکن نے کہا کہ اگر وفاقی حکومت نے قرضے لئے تھے تو ادا بھی وفاقی حکومت کو کرنے چاہییں۔ کچھ اراکین نے کہا کہ اس طرح آئین کو چھیڑنے سے وفاق کو خطرہ ہو جائے گا۔ اپوزیشن کے تقریباً تمام مقررین نے حکومت کے طریقہ کار پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔ اور بعض سینیٹر حضرات نے اپنی تقریروں میں فوج پر شدید تنقید کی۔ بلوچستان کے سینیٹر عثمان کاکڑ صاحب یہاں تک کہہ گئے کہ یہ ملک فوج کے لئے نہیں بنا۔ بائیس کروڑ عوام کے لئے بنا ہے۔ یہاں پر حق حکمرانی عوام کا ہوگا۔ آپ صوبوں کو غلام سمجھتے ہیں۔ سندھ، بلوچستان اور پختونخوا کے عوام بنگالیوں سے کمزور نہیں ہیں۔

جمیعت العلما اسلام کے عطا الرحمن صاحب کاکڑ صاحب سے بھی کئی قدم آگے نکل گئے۔ وہ کہنے لگے کہ اس ملک میں خون بہے گا تو آپ کا نوالہ تر ہوگا۔ ڈیفنس کا بجٹ جاتا کہاں ہے؟ کون سی جنگ آپ نے جیتی ہے؟ تم نے اس ملک کے لئے کیا کیا ہے؟ پاکستان کی تاریخ میں ملک ایوان بالا میں شاید ہی پہلے کبھی اس قسم کی تقریریں ہوئی ہوں۔

یہ صورت حال تکلیف دہ ہے لیکن بہر حال ایک حقیقت ہے۔ کوئی مسئلہ اسی وقت حل ہو سکتا ہے جب اسے مسئلہ سمجھا جائے۔ بعض اخبارات نے اس کی جو رپورٹیں شائع کیں، ان میں اس قسم کے حصوں کو چھان کر شائع نہیں کیا گیا۔ لیکن کیا اس سے یہ حقیقت چھپ جائے گی؟ تقریریں تو یو ٹیوب پر موجود ہیں۔

اور اگر چھپانے میں کامیاب بھی ہو جائیں تو کیا حاصل ہو گا؟ یہ تو ویسی ہی بات ہوئی کہ جب کوئی کم عمر یہ سوال کرے کہ بچہ کیسے پیدا ہوتا ہے تو بعض بڑے میاں کہتے ہیں کہ جب اللہ میاں دلہا دلہن پر خوش ہوں تو کھڑکی سے بچے کو بھیج دیتے ہیں۔ لیکن نہ بچہ کھڑکی سے آتا ہے اور نہ اس حقیقت سے انکار ہو سکتا ہے کہ ملک کے بعض حصوں میں اس قسم کی رنجشیں پائی جاتی ہیں۔ ہم ان آرا سے اختلاف تو کر سکتے ہیں لیکن ان کے اظہار کو دبانا دانشمندی نہیں ہو گی۔

اگر ملک کے فیصلے عوام نے کرنے ہیں تو انہیں حقائق کا علم ہو گا تو فیصلہ کر پائیں گے۔ ورنہ 16 دسمبر 1971 سے چند دن پہلے تک ہم یہی سن رہے تھے کہ فتح قریب ہے۔ پھر ہم نے آدھا ملک گنوا دیا۔ اگر ملک میں اس قسم کی رنجشیں موجود ہیں تو سینٹ ان کے اظہار کا فورم ہے کیونکہ وہاں ہر صوبے کو برابر کی نمائندگی حاصل ہے۔ میرے خیال میں پیپلز پارٹی کے رضا ربانی صاحب کی تجویز مناسب ہے کہ اپوزیشن نے اس معاملے میں مذاکرات کے دروازے بند نہیں کیے۔ حکومت کو اپوزیشن سے روابط بحال کرنے چاہییں۔

ایسے مسائل دھونس سے نہیں حل ہوتے۔ بات چیت سے حل نکالنا پڑتا ہے۔ 1970 کے الیکشن کے بعد نہ اسمبلی کا اجلاس بلایا گیا اور نہ حکومت عوامی لیگ کے حوالے کی گئی۔ مذاکرات کا طویل سلسلہ شروع ہوا۔ عوامی لیگ کے مطالبات میں چند مالی امور ایسے تھے، جنہیں نہ اس وقت حکومت ماننے کو تیار تھی اور نہ بھٹو صاحب تسلیم کر رہے تھے۔ یہ مذاکرات کس طرح ختم ہوئے، اس کے بارے میں کمال حسین صاحب جو بعد میں بنگلہ دیش کے پہلے وزیر قانون بنے لکھتے ہیں کہ

23 مارچ 1971 کو حکومت اور عوامی لیگ کے درمیان فیصلہ کن مذاکرات ہو رہے تھے۔ ایم ایم احمد کے ساتھ ہماری میٹنگ شروع ہوئی۔ [ایم ایم احمد بیوروکریٹ تھے اور ملک کی کابینہ میں شامل تھے ]۔ انہوں نے کہا کہ چند عملی تبدیلیوں کے ساتھ عوامی لیگ کے چھ نکات کو اپنایا جا سکتا ہے۔ شام کو ایم ایم احمد نے کاغذ کے کچھ ٹکڑوں پر وہ ترامیم لکھ کر دیں جو کہ مسودے میں ہونے والی تھیں۔ انہوں نے غیر ملکی تجارت اور غیر ملکی مدد کے بارے میں بھی لچک دکھائی۔ یہ تجویز تھی کہ سٹیٹ بینک کی تشکیل نو تک ڈھاکہ کا سٹیٹ بینک بنگال کے ریزرو بینک کی حیثیت سے کام کرے گا۔ اسی طرح مغربی اور مشرقی پاکستان کے زرمبادلہ کی آمد کے علیحدہ علیحدہ اکاؤنٹ رکھے جائیں گے۔ انکم ٹیکس کے علیحدہ نظام کے متعلق انہوں نے کہا کہ عوامی لیگ اس بارے میں اپنا میمورنڈم پیش کرے۔

عوامی لیگ کی ٹیم ایم ایم احمد کی تجاویز لے کر اپنی اقتصادی ٹیم کے پاس گئی اور ان کے مطابق اپنا مسودہ بنا کر لے آئی۔ لیکن پتہ چلا کہ صدر یحییٰ خان ایوان صدر سے کافی دیر سے غائب ہیں۔ اگلے روز ہم دوبارہ پیرزادہ اور جسٹس کارنیلیئس سے ملے۔ اور کہا کہ جلد معاہدے کا تمام مسودہ مکمل ہو کر مجیب الرحمن اور یحییٰ خان کو پیش ہوجانا چاہیے۔ کارنیلیئس تو مان گئے لیکن پیرزادہ نے کہا کہ ابھی میٹنگ ہے آپ کل ہم سے ملاقات کر لیں۔ اگلے روز ملٹری آپریشن شروع کر دیا گیا۔ اس دوران جب مذاکرات کامیاب ہو رہے تھے، جنرل یحییٰ خان ملٹری آپریشن کی تیاری کر رہے تھے۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ تاریخ کا حصہ ہے۔
(Bangladesh Quest For Freedom and Justice by Komal Hussein P 100-103)

ایم ایم احمد نے بعد میں ایک انٹرویو میں بتایا کہ انہیں 23 مارچ کو ہی مغربی پاکستان واپس بھجوا دیا گیا تھا۔ ملاحظہ فرمائیں کہ مذاکرات تو کامیاب ہو چکے تھے۔ مالی معاملات میں بھی مفاہمت کی راہ نکل آئی تھی۔ لیکن یہ حکومت کی غلطی تھی کہ اس نے طاقت کے استعمال کا راستہ اختیار کیا۔ اپنوں سے مفاہمت کرنا، دشمن کے سامنے ہتھیار ڈالنے سے بہر حال بہتر تھا۔ ہمیں یہ سبق کبھی فراموش نہیں کرنا چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments